قوم، ملک اور پیپلزپارٹی، خود را…………؟
اتحادی حکومت کو ایک سال ہو گیا اس حوالے سے حکمران اتحاد اور حزب اختلاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے اپنے اپنے موقف کے مطابق بیانات سامنے آئے ہیں، البتہ آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات اس میں اضافہ ہیں، اس میں بھی اختلاف اور بیانیے ڈھونڈ لئے گئے ہیں جہاں تک سپریم کورٹ کے سینئر جج مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی کنونشن میں شرکت اور خطاب کے بعد وضاحت کا تعلق ہے تو میں اس پر زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کہ خود مسٹرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کنونشن ہی کے دوران اپنا نقطہ ء نظر واضح کر دیا تھا اور آئین کی حرمت اور تحفظ کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ جس کے بعد بحث کی کوئی ضرورت اور گنجائش نہیں تھی، اس کے باوجود آج کے رجحان نے ان کی ذات کو بھی سوشل میڈیا سے مرکزی میڈیا تک گھسیٹ لیا اور پھر ان کو ایک وضاحتی بیان بھی جاری کرنا پڑا، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی تقریر کے بعد اس کی ضرورت نہیں لیکن خبرساز حضرات کے مطابق یہ وضاحت ان کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال سے ملاقات میں طے پروگرام کے مطابق تھی، بہرحال یہ باب اب بند ہی ہونا چاہیے کہ بہت کچھ ہو چکا اور ہماری سیاست نے عدلیہ کو بھی اختلافی کانٹوں میں گھسیٹ لیا ہے۔ میں جو ہمیشہ مثبت کی تلاش میں رہتا ہوں، خوش فہمی میں ہوں کہ عدلیہ کے دو بڑوں کی ملاقات اچھے نتائج لائے گی اور عدلیہ کے کردار کے حوالے سے جو ہنگامہ آرائی جاری ہے اسے بریک لگ جائے گی، یوں بھی عمر عطاء بندیال کے بعد سینیارٹی میں قاضی فائز عیسیٰ ہیں اور اگلے چیف جسٹس انہی کو ہونا ہے اس لئے میں توقع کرتا ہوں کہ اس ملاقات میں حالیہ تنازعات پر بھی بات ہوئی ہوگی اور کوئی بہتر لائحہ عمل طے کر لیا گیا ہو گا کہ یہ عدالت عظمیٰ کے وقار کا بھی سوال ہے، اس سلسلے میں مسٹر جسٹس اطہر من اللہ کی اس آبزرویشن سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاست دانوں کو سیاسی معاملات آپس اور ایوان میں طے کرنا چاہئیں، اس میں عدلیہ کو نہیں گھسیٹنا چاہیے اور یقین رکھتا ہوں کہ یہی درست رویہ اور اقدام ہے جس کی طرف جسٹس اطہر من اللہ توجہ دلاتے رہے ہیں۔
اس حوالے سے اب ذکر ہو جائے سابق صدر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین (ٹکٹوں والی) آصف علی زرداری کا جو دوبئی میں سرجری کے بعد شفا یاب ہو کر واپس آئے تو پہلی بار آئینی کنونشن سے تفصیلی خطاب کیا اور خوب داد لی کہ انہوں نے قومی سطح پر مصالحت کی بات کی اور اس انداز سے کی کہ سب سے تعریف کرا لی، لیکن ان کی تجویز تاحال بیانات کی حد تک رہی اور اس کا حقیقی پھل نہیں آیا کہ جہاں انہوں نے وزیراعظم سے کہاکہ وہ اپوزیشن سے مذاکرت کریں وہاں انہوں نے اپوزیشن کو بھی مشورہ دیا کہ ان کو محمد شہباز شریف کی طرف آنا ہوگا کہ وہ وزیراعظم ہیں، اسی کے جواب میں تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا کہ عمل برسراقتدار حضرات کی طرف سے ہوتا ہے، اس کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ حکومت باقاعدہ مذاکرات کی دعوت دے تو بات آگے بڑھتی ہے، جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو خود وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف بھی مذاکرات اور بات چیت کی اہمیت کا بار بار ذکر کر چکے ہیں اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے تو گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز دی اس میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ، صحافیوں اور سول سوسائٹی والوں کو بھی نمائندگی دینے کے لئے کہا، ان سے پہلے سابق وزیراطلاعات اور ترجمان پی ٹی آئی فواد حسین چودھری سہ فریقی مذاکرات کا کہہ چکے تھے کہ حکمران، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کو بیٹھ کر قومی مسائل پر بات کرنا چاہیے۔
اس سب کچھ کے باوجود بات آگے نہیں بڑھی کہ کسی فریق کی طرف سے ہاتھ نہیں بڑھایا گیا، میرے خیال میں آصف علی زرداری کی یہ بات درست ہے کہ مذاکرات کسی پیشگی شرط یا شرائط کے بغیر ہونا چاہئیں اور یہی بات چیت کی روح ہے کہ جب آمنے سامنے میز پر بیٹھ جائیں تو پھر فریقین اپنے اپنے موقف ہی کو آگے بڑھاتے ہیں اور بات کسی نتیجے پر پہنچ جاتی ہے، اس کی سب سے بڑی مثال شملہ مذاکرات ہیں، جن کی وجہ سے شملہ معاہدہ ہو گیا تھا، اگرچہ ابتداء میں ناکامی کا تاثر ابھرا اور بھٹو صاحب واپسی کی تیاری کے لئے کہہ چکے تھے، یہاں جو معاملہ قومی مسائل کا ہے اور فریقین کا اپنا اپنا موقف یہی ہے کہ وہی مسائل حل کر سکتے ہیں، اس حوالے سے مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ناممکن تو نہیں۔ میری تو گزارش یہی ہے کہ اَنا کو ترک کریں اور مذاکرات کی میز پر آئیں۔
عرصہ ہوا پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف توجہ نہیں تھی کہ قومی مسائل ہی سے توجہ نہیں ہٹتی، لیکن وہ پیپلزپارٹی ہی کیا جو ایسا ہونے دے، سابق سینیٹر مصطفے نواز نے تو جو عمل کیا اس سے کوئی ہنگامہ نہ ہوا، اگرچہ تھوڑا عرصہ کسی نئی جماعت کا چرچا رہا کہ شاید اس کے لئے کسی نئے گھوڑے کو تلاش کیا جا رہا ہے، جو ایسا ہو گا کہ کرپشن کے الزامات سے بچا ہوگا یا اسے مکمل طور پر بچا لیا جائے گا اور 63،62 والا ہو کر سامنے آئے گا، میں نے اس پر توجہ اس لئے نہ دی کہ حالات کے مطابق ایسی کوشش حالیہ تقسیم کے باعث ممکنہ نتائج نہیں دے سکتی تھی کہ ”مہربانوں“ کی حکمت عملی سے اب بات اس حد تک آ گئی کہ قوم کے تمام شعبوں میں تقسیم ہو گئی، البتہ مصطفےٰ نواز کی بات اور کھلے بیانات کے بعد ان کے استعفےٰ سے یہ تاثر ابھرا کہ انہوں نے نے قیادت کو ناراض کر لیا ہے، تاہم وہ اہل ثابت ہوئے اور انہوں نے سینیٹر شپ سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ پیپلزپارٹی کو جاننے والوں کو اس سے جھٹکا لگا کہ یہ جماعت کا کلچر نہیں اس جماعت میں تو کارکن بھرے مجمع میں چیئرپرسن پر بھی اعتراض کر لیتے تھے لیکن اب نزاکت آ گئی اور یہ شاید حالات کا جبر ہے کہ اب ایک اور اختلافی آواز سابق گورنر لطیف کھوسہ کا معاملہ سامنے آ گیا ہے۔ خبر چھپی کہ بلاول بھٹو نے ان (کھوسہ) کو پیپلزلائرز فورم کی قیادت سے فارغ کر دیا اور اختیارات سیکرٹری جنرل نیئر بخاری کو دے دیئے ہیں۔ لطیف کھوسہ نے خاموشی کی بجائے ردعمل دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ اصل پیپلزپارٹی ہیں اور 15اپریل کو پارٹی وکلاء کا کنونشن بلائیں گے، ان کے خلاف کارروائی اور ردعمل اختلافی بیانات کے حوالے سے ہے کہ وہ آئین کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے 90روز کے اندر انتخابات کے قائل ہیں۔ اور آئین کا دفاع کرتے رہیں گے۔
یوں پیپلزپارٹی میں اب ایک واضح اختلاف سامنے آیا، اس سے پہلے راجہ پرویز اشرف کے سپیکر بن جانے کے بعد کسی کو مرکزی پنجاب کا صدر نہیں بنایا گیا اور سینئر نائب صدر فاروق قائم مقام صدارت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں تاہم حال ہی میں جب پنجاب کی ذمہ داریاں آصف علی زرداری نے اپنی بہن فریال تالپور کو سونپ دیں تو اس پر خاموش ردعمل ہوا ہے، جسے شاید اب زبان مل جائے کہ فریال تالپور کو پنجاب کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ اس عمل سے سینئر حضرات متاثر ہوں گے۔ صدر زرداری کو غور کرنا ہوگا کہ پارٹی حقیقتاً جاگیر نہیں، پیپلزپارٹی کے کارکن بھٹو، بے نظیر کے مقلد ہیں!