مریخ، خلائی گاڑی اور پاکستانی جمہوریت

مریخ، خلائی گاڑی اور پاکستانی جمہوریت
مریخ، خلائی گاڑی اور پاکستانی جمہوریت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




مریخ پر انسانی مہمات کا آغاز 1960ءمیں ہُوا۔ سب سے پہلے سوویت یونین نے1960ءمیں کورابی 4 نامی خلائی گاڑی کو مریخ تک پہنچانے کا پروگرام بنایا، لیکن خلائی منصوبہ ناکام ہوگیا اور خلائی گاڑی زمین کے مدار تک بھی نہ پہنچ سکی۔ اسی سال سوویت یونین نے دوبارہ کورابی5 خلاءمیں بھیجا، لیکن یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہوا اور اس کا حشر بھی پہلے خلائی سفر جیسا ہی ہوا۔ اس کے بعد سوویت یونین نے 1962ءمیں دوبارہ مریخ پر خلائی گاڑی پہنچانے کی کوشش کی ، لیکن یہ بھی زمین کے مدار تک پہنچنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ اس کے بعد اسی سال مارس خلا میں پہنچا، لیکن اس کا ریڈار سسٹم فیل ہوگیا۔ پھر کورابی13 مریخ تک پہنچانے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ بھی زمین کے مدار تک ہی پہنچ سکا اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ امریکہ نے مریخ پر اپنے خلائی سفر کا آغاز1964ءمیں کیا۔ میرائز3 نامی گاڑی کو مریخ تک پہنچانے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ اسی سال میرائز 3 مریخ تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ یہ امریکی منصوبہ کامیاب ہوا اور اس نے 21 تصاویر زمین پر بھیج دیں۔ اس کے بعد سوویت یونین اور امریکہ نے مسلسل مریخ پر سیارے بھیجنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ کچھ کامیاب ہوئیں اور کچھ ناکام ہوگئیں۔ امریکہ کو اہم کامیابی اس وقت حاصل ہوئی، جب 2007ءمیں فونیکس نامی مارس مشن کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس میں جدید اور قدیم آلات کا استعمال کیا گیا تھا اور اس میں حکومت، یونیورسٹیوں کے پروفیسروں، صنعت کاروں اور یونیورسٹی آف ایریزونا نے مشترکہ تعاون کیا۔

 اخبارات اور میڈیا نے اسے عظیمانسانی کامیابی سے تعبیر کیا۔ ان سائنسدانوں کی خوشی حق بجانب تھی۔ اس خلائی گاڑی نے دو تین روز بعد ہی مریخ کی شمالی دیوار اور دہانے کی ایک پورے رنگ کی تصویر زمین پر بھیج دی۔ یہ تصویر خلائی گاڑی کے روبوٹک بازو میں نصب کیمرے کی مدد سے بھیجی گئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب یہ خلائی گاڑی لگاتار تصاویر بھیجنا شروع کر دے گی۔ یہ تصاویر اس پہلی تصویر سے بھی زیادہ واضح ہوں گی اور ان کے ذریعے اس خلائی گاڑی کے ذریعے مریخ کے موسم اور سائنسدان تابکاری کی مقدار کے بارے میں درست اندازے لگانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ وہ اس بات کا بھی اندازہ لگائیں گے کہ مریخ کی سطح پر ماضی میں کبھی زندگی موجود بھی تھی یا نہیں اور پھر مستقبل میں کسی وقت مریخ کی سطح پر زندگی وجود میں آسکتی ہے یا نہیں۔ جس طرح مریخ پر انسانی مہمات جاری ہیں اور انسان خلائی گاڑیاں اتارے جا رہا ہے، اس طرح جمہوریت کے بارے میں پاکستانی مہمات بھی جاری و ساری ہیں۔ جس طرح کسی کے علم میں نہیں کہ ان مہمات کا نتیجہ کیا نکلے گا، اسی طرح پاکستانی جمہوریت کے بارے میں بھی نہ تو عوام کو کچھ معلوم ہے اور نہ ہی سیاستدان جانتے ہیں کہ جمہوریت کے بارے میں ہماری مہمات کا انجام کیا ہوگا؟
مریخ پر انسانی مہمات کا آغاز1960ءمیں ہوا۔ عجیب اتفاق ہے کہ بنیادی جمہوریت کی شکل میں ہماری مہمات بھی تقریباً اسی وقت شروع ہوئیں۔ جس طرح مریخ پر پہنچنے والے خلائی سیاروں اور گاڑیوں کا حشر ہوتا رہا، اسی طرح ہماری جمہوریت بھی گوناں گوں مسائل کا شکار رہی۔ جس طرح سوویت یونین کی خلائی گاڑیاں اور سیارے مدار میں پہنچتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوتے رہے، اسی طرح ہماری بنیادی جمہوریتوں کا نظام بھی اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ جس طرح سوویت خلائی سیاروں کے ٹکڑے تلاش نہ کئے جاسکے اور ہمیشہ کے لئے غائب ہوگئے، اسی طرح ہماری بنیادی جمہوریتوں کا نظام بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غائب ہوگیا اور اس کا وجود دیکھنا بھی کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ ستر کی دہائی والی ہماری جمہوریت بھی خلائی گاڑیوں کی طرح ہچکولے کھاتی رہی اور اسے خلاءسے بھی بُرے موسمی حالات اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جس طرح سوویت یونین کی خلائی گاڑیوں کے ریڈیو سگنل فیل ہوتے رہے، اسی طرح ہماری جمہوریت کی گاڑی کے سگنل بھی بالآخر1977ءمیں فیل ہوگئے اور پھر اس جمہوریت کے ایک عینی شاہد کو ان فیل ہونے والے سگنلوں کے بارے میں ایک کتاب لکھنا پڑی ”اور پھر لائن کٹ گئی“۔
جس طرح سوویت یونین اور امریکہ نے خلائی گاڑیوں کے المناک انجام سے توبہ نہیں کی اور اپنی مہمات جاری رکھیں، اسی طرح ہم بھی جمہوریت کی تلاش میں مسلسل چلتے رہے اور اب بھی چلتے جا رہے ہیں، لیکن کچھ معلوم نہیں کہ کب یہ خلائی گاڑی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے یا اس کے سگنل فیل ہو جائیں۔ سوویت یونین تو مریخ پر اپنی مہمات کے حشر کے بعد اب تقریباً کافی حد تک خاموش ہو چکا ہے، لیکن امریکہ ہماری طرح کافی سخت جان ثابت ہوا ہے۔ وہ نہ خلائی گاڑیوں کی جان چھوڑتا ہے اور نہ مریخ کے خواب دیکھنے سے باز آتا ہے، لیکن امریکہ کی خلائی ایجنسی ناسا اور ہماری جمہوری گاڑی میں ایک فرق بہت واضح ہے۔ امریکہ نے اپنی خلائی مہمات سے سبق سیکھا ہے اور مریخ پر اپنی مہمات کے معیار کو بہت بہتر بنا لیا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب خلائی کامیابیاں اس کے قدم چوم رہی ہیں۔
مثال کے طور پر امریکہ نے 2007ءمیں فونیکس مارس مشن مریخ پر بھیجا۔5 سال بعد اب اس نے کیوریوسٹی نامی خلائی گاڑی مریخ کی سطح پر اتاری ہے۔ 2007ءاور 2012ءکی ان مہمات میں فرق بہت واضح ہے۔ 2012ءمیں کیوریوسٹی نامی خلائی گاڑی کی کارکردگی2007ءکے مشن کے مقابلے میںبہت حوصلہ افزا ہے۔ امریکہ کی نئی خلائی گاڑی مریخ کی تصویریں مسلسل زمین پر بھیج رہی ہے، لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان کی جمہوری خلائی گاڑی اسی عرصے کے دوران بدحالی، ٹوٹ پھوٹ اور خستہ پن کا شکار ہو چکی ہے۔ 2007ءوالے امریکی خلائی مشن کی طرح ہم نے بھی جمہوریت کی بحالی کے نام پر اسی سال این آر او نامی ایک مشن کا آغاز کیاتھا۔ یہ بدبخت مشن اس قوم کے ایسے پیچھے پڑا ہے کہ اس نے اس کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ ثابت ہوا ہے کہ بے روزگاری، دہشت گردی، غربت، خودکشیاں، لوڈشیڈنگ، معاشی بدحالی اور قومی اداروں کی تباہی جیسے مسائل اس کے سامنے کیڑے مکوڑوں کی طرح معمولی نظر آتے ہیں۔ امریکی خلائی سائنسدان اپنے 2007ءوالے مشن کی تصاویر کا 2012ءوالے مشن سے موازنہ کر کے خوشیاں منا رہے ہیں اور عش عش کر اٹھے ہیں، جبکہ پاکستانی قوم 2012ءمیں جب 2007ءکے بارے میں سوچتی ہے تو اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے اور عش عش کرنا تو دور کی بات، اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔امریکی خلائی گاڑی کیوریوسٹی میں دنیا کے جدید ترین کیمرے اور ٹیکنالوجی نصب ہے، جبکہ ہماری جمہوری گاڑی میں این آر او کا آسیب سوار ہو چکا ہے، جس کا بوجھ یہ برداشت نہیں کر سکتی اور کسی وقت بھی یہ سوویت یونین کی خلائی گاڑیوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتی ہے یا پھر اس کے ریڈیو سگنل فیل ہو سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر اس کا ماتم کرنے کے لئے ....” اور لائن کٹ گئی“ جیسی کتاب لکھنے والے بھی ہمیں ڈھونڈنے پڑیں گے۔  ٭

مزید :

کالم -