امریکہ کے زیر سایہ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی

امریکہ کے زیر سایہ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی
امریکہ کے زیر سایہ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل کی ارض مقدس فلسطین پر جارحیت کو 33واں روز ہے۔ 9 جولائی کو رمضان المبارک میں یہودی ازم کی جبری صیہونی ریاست اور امریکہ کے لے پالک اسرائیل نے اپنی اس جارحیت میں نو مولود۔ دودھ پیتے اور دنیا و مافیہا سے نابلد بچوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اس جارحیت میں حاملہ عورتوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گھروں کے گھر تباہ و برباد کر دیئے گئے ہیں۔ اب تک کوئی گھر ایسا نہیں جہاں صف ماتم نہ بچھی ہو۔ یہاں تک کہ خاندان کے خاندان موت کی نیند سلا دیئے گئے ہیں۔
جنگی جنون میں مبتلا ہوکر اسرائیل بزرگوں ۔بچوں اور عورتوں کوقتل کررہا ہے۔ اسرائیل آئے روز نہتے مسلمانوں پر طاقت کے نشے میں چڑھ دوڑتا ہے، جبکہ عالمی امن کے ٹھیکیدارخاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ دنیا کے دو ارب مسلمانوں کوتحفظ دینے میں مکمل ناکام ہوگئی ہے۔ اب تک 1037سے زائد افراد اس جارحیت کا لقمہ اجل بنا دیئے گئے ہیں۔ یعنی 8.1 ملین آبادی والے اس غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے اورہر گھنٹے میں ایک بچہ شہید کرنے کی پالیسی جاری ہے۔ اب تک 300سے زائد معصوم بچے شہید ہو چکے ہیں۔ بچے مارنے کی یہ پالیسی ہی ہے جس کے تحت سمندر پر کھیلتے چار بچے بھی شدید بمباری کرکے موت کی نیند سلادیئے گئے۔ ایسے ہی اقوام متحدہ کے بنائے ہوئے سکول پر گولہ باری کرکے کئی جانیں لی گئیں۔
 حالت یہ ہے کہ جدید ٹکنالوجی،ماڈرن آلات حرب اور فوج کی ڈویژن کی ڈویژن رکھنے والے مسلمان ممالک بھی اس کھلم کھلا یہود و ہنود اور نصاریٰ کی اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف جنگ میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرکے امریکہ اور اسرائیل ہی نہیں، بلکہ تمام دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔
القدس گذشتہ سات دہائیوں سے صیہونی پنجہ استبداد میں ہے،جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح یہودیوں میں بھی کئی کئی فرقے، گروہ اور تنظیمیں ہیں۔ جیسے دیگر مذاہب میں متشدد اور کٹر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ایسے ہی اسرائیل میں دنیا بھر سے آئے ہوئے مختلف قومیتوں کے یہودیوں میں بھی شدت پسند، دہشت گرد اور مارنے مرنے والے لوگ موجود ہیں۔ دنیا بھر کے دیگر یہودی بھی اقوام عالم کی طرح فلسطین کو فلسطینی ریاست بنانے اور اسرائیل کا وجود ختم کرنے کے حامی ہیں۔
 امریکہ اس وقت عالمی سامراج کا سرخیل ہے اس لئے کوئی بھی اس کے خلاف پر نہیں مار سکتا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اقتدار کی حوس میں اسلامی ممالک پر قابض حکمران بھی اس عالمی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا تو درکنار سر اُٹھا کر بات کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔ اسرائیل بذات خود نہ تو کوئی قوت ہے اور نہ طاقت۔ یہ توصرف ایک طفیلی ریاست ہے جس کا وجود صرف اور صرف امریکہ ہی کا مرہون منت ہے۔ اسرائیل کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی عوام کا خوراک اور پانی کا بھی خود مختار نہیں،جب تک امریکی سامراجیت قائم ہے فلسطینیوں کا خون بہے گا، جونہی اس عروج کو زوال ہوگا یہ جبری ریاست خش و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ جب تک امریکہ اور اس کے حواری یونہی اس کی نازبرداریاں کرتے جائیں گے۔ یہ امریکہ ہی ہے، جس نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور جارحیت کے عمل کو بغیر کسی مداخلت کے فلسطینیوں کے حامی ممالک اور اقوام کو ایک ایک کرکے الگ کر دیا ہے۔ اس کی مثال آج سامنے ہے۔
 امریکہ کی لونڈی یا زرخرید اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل دبے لفظوں میں اس اسرائیلی سفاکیت کی مذمت تو کرتا ہے، مگر اپنی آئندہ ٹرم کے لئے اسے اسرائیل اور امریکہ ہی کی آشیر باد کی ضرورت ہے۔ باقی حکمران صرف زبانی جمع خرچ پر ہی وقت کو ٹالے جا رہے ہیں، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نے تو ہٹلر جیسا سینہ تان کر کہا ہے کہ وہ اس جارحیت سے نہیں رکے گا ۔ اسرائیل کو کسی کی پرواہ نہیں۔ اس کی تمام باتیں اقوام عالم کے منہ پر بڑا طمانچہ ہے۔انسانی حقوق۔ خواتین کے حقوق۔ بچوں کے حقوق۔ بچیوں کے حقوق۔ ماو¿ں کے حقوق اور بڑے بوڑھوں کے حقوق کے علمبردار کہاں مر گئے ہیں؟کسی تنظیم یا گروہ کی طرف سے اس بارے میں کوئی عمل سامنے نہیں آیا۔صاف ظاہر ہے کہ ایسی تنظیمیں یا گروہ انہی قوتوں کے زیر سایہ کام کر رہے ہیں، جو فلسطینیوں کا خون بڑی بے دردی سے بہا رہی ہیں۔
 میڈیا کی سرتوڑ کوشش ہے کہ اس جارحیت کو جنگ کہا جائے۔ حالانکہ یہ اسرائیلی جارحیت نہتے اور معصوم فلسطینیوں پرگولہ بارود سے ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ ہمارا اسرائیل نہتے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی بند کرے۔ فلسطینیوں کے قتل عام پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی افسوس ناک ہے۔ ہم تمام مسلم حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خاموشی توڑ کر فلسطین اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم بند کروانے میں بھرپور کردار ادا کریں۔ فلسطین اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانا ہمارا شرعی اور آئینی حق ہے۔

مزید :

کالم -