مَیں اور 14اگست
مَیں چھٹی ساتویں جماعت میں تھا،جب کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ کے انتخابی امیدواروں کی جیپیں اِدھر اُدھر دوڑتی اور گرد اڑتی دیکھتا تھا اور مجھے بتایا جاتا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو کر دو نئے ملک معرض وجود میں آنے والے ہیں۔مَیں جب نویں دسویں میں تھا تو آزادی کے حق میں جلسے ہوتے تھے اور ریلیاں نکلتی تھیں اور ہر آن ایسے نعرے کونجتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ۔ یہ 1946-47ءکی بات ہے۔مَیں لفظ پاکستان پر غور کرتا تھا: پاک لوگوں، اچھے لوگوں کی جگہ اور لا الٰہ الااللہ کے الفاظ پر تفکر کرتا تھا اور دونوں کو جوڑ کر یہ نتیجہ اخذ کرتا تھا کہ اسلامیوں کے لئے ایک ایسا خطہ ءزمین الگ ہونے والا ہے، جہاں وہ اسلامی اقدار اور روایات کے مطابق آزادانہ زندگانی بسر کر سکیں۔مَیں اور میرے ہم عمر لڑکے بڑے جوش و جذبے سے ان جلوسوں میں شامل ہوتے۔طرح طرح کے امنگ آور نغمے اب تک کانوں میں گونجتے ہیں۔
اگست 1947ءمیں رمضان المبارک کی برکتیں بھی ہماری دوڑ دھوپ میں شامل ہو گئیں۔چاندنی راتوں کو بے قابو خوشی سے مَیں اور میرے ہم نشیں لڑکے لڑکوں اور گلی کوچوں میں اِدھر اُدھر پھدکتے پھرتے تھے۔ بے پناہ مسرت کے سبب ہمارے پاﺅں زمین پر نہیں لگتے تھے۔ رمضان میں تراویح پڑھنے کے بعد بھی دیر تک ہم جاگتے اور اٹھکھیلیاں کرتے رہتے۔آخر وہ پُرانبساط تاریخ (14اگست) آن پہنچی۔ ہمارے ولولے انتہا کو چھو رہے تھے۔پاکستان زندہ باد۔
مگر جب پنجاب کے سکھوں، جن کو آج کی پاکستانی حکومتیں ان کی یاترا کے موقع پر ان کی بڑی آﺅ بھگت کرتی ہیں، کے ہاتھوں پاکستان کو ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا ٹرینوں میں قتل عام ہوا، خون سے لت پت ٹرینوں کو پاکستان پہنچتے دیکھا تو کلیجہ ہل گیا، جلتی عمارتوں سے آگ کے شعلے اٹھتے دیکھے، بہت سی مسلم خواتین اور لڑکیوں کی ان سفاکوں کے ہاتھوں عزت لٹتی سنی تو بے حد قلق ہوا۔کچھ مسلمان ہندو آبادیوں میں مسلسل رہتے ہوئے اسلامی تعلیم سے بالکل بے بہرہ رہے۔مَیں نے آئے ہوئے ایک مہاجر کو جب کہا کہ کلمہ سناﺅ تو وہ بالکل چپ رہا، اصرار کرنے پر وہ بولا: میرا دانت درد کررہا ہے، ظاہر ہے کہ اگر وہ کلمہ جانتا ہوتا تو جتنی دیر میں اس نے یہ جملہ کہا، اتنی دیر میں وہ کلمہ سنا سکتا تھا۔ویسے آج بھی ہماری متعدد پاکستانی سیکولر شخصیتیں تعلیمی ڈگریاں رکھنے کے باوجود سورة فاتحہ سے نابلد پائی جاتی ہیں۔
مَیں مارچ 1948ءمیں میٹرک کا امتحان دے کر کابل چلا گیا۔وہیں پر مجھے نتیجہ نامہ ملا۔کابل میں قیام کے دوران ہی قائداعظمؒ کی رحلت کی جانکاہ خبر پہنچی۔مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔چالیس دن سوگ جاری رہا۔قائدؒ کی وفاتِ حسرت آیات کی خبر پا کر مَیں اُسی دن والد صاحب کے ہمراہ کابل کے پاکستانی سفارتخانے گیا۔اتنے میں ملا شور بازار کی آمد ہوئی۔ اس نے پاکستانی سفیر کا ماتھا چوما اور نماز مغرب کی امامت کی۔اگلے روز ہم باپ بیٹا صدراعظم (یعنی وزیراعظم) افغانستان کے ہاں گئے اور فاتحہ خوانی میں شریک ہوئے....
جب تعطیلات گرما ختم ہونے لگیں تو والد صاحب مرحوم مجھے کالج میں داخل کرانے کی غرض سے پاکستان لے آئے۔جب لاہور پہنچے تو والد صاحب ریل سے اترتے ہی بے اختیار پلیٹ فارم پر خداوند تعالیٰ کا شکر کرنے کے لئے سجدہ ریز ہو گئے، کیونکہ پہلے تو وہ برطانوی ہند حکومت کے غلام ریلوے سٹیشن پر قدم زن ہوتے تھے اور اب پہلی بار وہ آزاد پاکستانی ریلوے سٹیشن پر قدم نہاد ہوئے تھے۔