نواز شریف کے جی ٹی روڈ کے سفر سے کھلبلی
سابق وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد بدھ کو اسلام آباد سے لاہور روانہ ہوچکے ہیں جہاں ان کا آبائی گھر واقعہ ہے۔ ان کی خالی ہونے والی نشست این اے 120لاہور پر ان کی شریک حیات بیگم کلثوم نواز مسلم لیگ(ن) کی جانب سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ این اے 120 ان کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا حلقہ بھی ہے اور وہ یہاں سے ہی بیاہ کر نواز شریف کے گھر گئی تھیں۔ اس طرح وہ اس حلقے کی بیٹی ہیں۔
نواز شریف نے پہلے موٹر وے سے لاہور پہنچنے کا عندیہ دیا تھا، لیکن پھر ساتھیوں اور ارکان اسمبلی سے مشاورت کے بعد انہوں نے اپنا پروگرام تبدیل کردیا اور جی ٹی روڈ سے راستے میں پراؤ کرتے ہوئے لاہور پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ موٹروے پر کوئی شہر نہیں ہے اور نہ ہی لوگ دور دراز سے یہاں پہنچ کر اور موٹروے کی تاریں پھلانگ کر نواز شریف کا استقبال کرسکتے ہیں۔ نواز شریف کے موٹروے کے ذریعے لاہور پہنچنے کے فیصلے پر بعض حلقے اور بعض مخالف سیاسی جماعتیں خوش تھیں، لیکن جب نواز شریف نے اپنا فیصلہ بدل کر جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے کا فیصلہ کیا تو ایک طوفان کھڑا ہوگیا جو لوگ نااہلی کے بعد نواز شریف کو عوام سے دور رکھنا چاہتے تھے، ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ عدالت کے فیصلے کے بعد عوام نے نواز شریف کو چھوڑ دیا۔ ان کے لاشعور میں بھی یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ عوام کی اکثریت نے اس عدالتی فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔ اس لئے عوام جی ٹی روڈ پر آکر نواز شریف کی سیاسی طاقت میں اضافہ کریں گے، جس سے مقتدر قوتوں پر عوام کا دباؤ بڑھے گا۔ عوام کیونکہ کسی بھی ملک کی آخری قوت ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر نواز شریف کے حق میں عوام کا دباؤ بڑھتا چلاگیا تو نواز شریف کی نااہلی ایک بے معنی چیز ہو کر رہ جائے گی۔ پھر کوئی فیصلہ یاکوئی بات آخری نہیں ہوتی، اس لئے ہوسکتا ہے کہ عوامی دباؤ اس حد تک بڑھ جائے کہ پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترامیم کرکے آئین کے آرٹیکل 62-63کو پچھلی تاریخ سے ختم کردے۔ یہ سمجھنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ نے آئین سازی اور قانون سازی کے ذریعے ملک میں موجود تمام اداروں کو جنم دیا اور ان اداروں نے پارلیمنٹ کو جنم نہیں دیا۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے منتخب پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہمیشہ حاصل رہے گا کہ وہ غیر منتخب سرکاری ملازمین کے اداروں کے بارے میں آئینی وقانونی ترامیم کرسکے یاسرے سے ہی بعض قوانین کو ختم کرسکے۔ پوری دنیا میں یہ اعلیٰ اختیارات دنیا کی ہر پارلیمنٹ کو حاصل ہیں۔
اب تک پاکستان کے 14وزرائے اعظم کو اپنے اقتدار کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، جبکہ دو وزرا اعظم کو دو اور تین مرتبہ حکومت سے فارغ کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وزیر اعظم نے عوام کی جانب سے اپنے منتخب ہونے کے زعم میں کسی طاقتور حلقے کی تمام باتیں ماننے سے انکار کیا، جس کی پاداش میں انہیں چلتا کیا گیا، بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر بھٹو کا حادثاتی یا غیر حادثاتی قتل ایک ایسا گناہ ہے، جس نے نسل درنسل سندھیوں کے دل نفرت سے بھردیئے ہیں اور پیپلز پارٹی کو اپنی ناقص کارکردگی اور کرپشن اور منفی پر وپیگنڈے کے باوجود سندھ سے ہرانا قریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے حامی بلوچ رہنما اکبر بگٹی کے قتل کے اثرات بھی ابھی تک جاری ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہم ایسے اقدامات سے پاکستان کو مضبوط کررہے ہیں یا کمزور کررہے ہیں۔ پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں نواز شریف نے اپنا تھوڑا بہت اثرورسوخ قائم کیا تھا اور ان صوبوں میں موجود پنجاب کے خلاف نفرت کو کم کرنے میں کردار ادا کیا تھا، لیکن ہم نے نواز شریف کو بھی اٹھا کر پھینک دیا۔ پاکستان میں تعلیم کے بڑھنے اور میڈیا کے وسیع پھیلاؤ کے بعد پاکستان کا ہر بالغ نوجوان سمجھتا ہے کہ ملک میں کیا ہور ہا ہے۔ پاکستان میں پاناما لیکس کے طوفان نے ایک سال سے زائد عرصہ تک ملک کو لپیٹے رکھا۔ میں نے لوگوں کو کہتے سنا کہ نواز شریف کے خلاف کارروائی کے بعد اگر پانامالیکس میں شامل450 پاکستانی افراد کے خلاف بھی کارروائی شروع ہوئی تو پھر یہ واقعی ایک سچا احتسابی عمل ہوگا اور اگر باقی سب گناہ گاروں کو چھوڑ دیا گیا تو پھر اس کا مطلب صرف نواز شریف کو نشانہ بنانا ہوگا۔ ابھی تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ نواز شریف کے بعد کسی اور شخص کے خلاف کارروائی کا امکان کم ہے۔ جس سے شک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد پارلیمانی پارٹی سے خطاب میں ایک بڑی اہم بات کہی ہے کہ 20یا 25 برس قبل وہ ایک نظریاتی شخص نہیں تھے، لیکن اب وہ نظریاتی ہو چکے ہیں، دراصل ایک نظریاتی شخص کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو اپنے نظریات کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو عوام میں بھی ایک نئی امنگ پیدا کررہا ہے اور مخالفین کو بھی بتارہا ہے کہ اب نواز شریف ایک طویل نظریاتی جنگ لڑنے کے لئے تیار ہے۔ عوام کتنی بڑی تعداد میں اور کتنے جوش وخروش سے نواز شریف کا ساتھ دیتے ہیں، اس کا اندازہ ان کے جی ٹی روڈ کے سفر میں ہو گا۔