انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب کی بے مثال کارکردگی

انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب کی بے مثال کارکردگی
 انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب کی بے مثال کارکردگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق اڑھائی فیصد ہے ،جس میں مسیحی،قادیانی،ہندو،سکھ،پارسی وغیرہ شامل ہیں۔اقلیتوں میں مسیحی برادری کی تعداد پاکستان میں زیادہ ہے جو کہ پاکستان کی آبادی کا2فیصد بنتا ہے۔ پاکستان ایک آزاد اسلامی ریاست ہے اور اس کے قومی جھنڈے میں سبز کے ساتھ سفید رنگ اقلیتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔پاکستان میں اقلیتیوں کو ان کے مذاہب کے حساب سے مکمل آزادی ہے اور ان کے بنیادی حقوق بھی ہر شہری کی طرح برابری کے حقدار ہیں۔تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں،اسلامی اور عالمی قانون کے مطابق کسی کو بھی رنگ، نسل، زبان، جنس، مذہب اور سیاسی تفریق کا یا کسی قسم کے عقیدے، قوم، معاشرے، دولت یا خاندانی حیثیت کا فرق نہیں ہے۔ 1949ء میں پاکستان بننے کے بعد قائداعظمؒ نے اسمبلی میں پہلی مرتبہ قرارداد پاس کی کہ اقلیتوں کو پاکستان میں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو کہ پاکستان کے ہر شہری کو حاصل ہوں گے۔اس سے قبل بھی کئی تقاریر میں قائداعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ آپ اپنے رنگ،نسل،مذہب وغیرہ کے حساب سے مکمل آزاد ہوں گے کہ کسی بھی مساجد یا عبادت گاہوں میں جاکر اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔1956میں پہلی مرتبہ پاکستان میں آئین بنا جس میں اقلیتوں کے تحفظ پر زور کے ساتھ زندگی اور پراپرٹی کا تحفظ،مذہبی رسومات کی آزادی سے ادائیگی،آزادی حق دہی وغیرہ کی مکمل آزادی یقینی بنائی گئی۔جب ہم حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں تعلیم کا حق،رائے دہی کا حق رائے،اطلاعات تک رسائی کاحق،بلا امتیاز انصاف کا حق،زندگی کا حق،جبری مشقت اور غلامی سے تحفظ کا حق،چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا حق،برابری کی بنیاد پر شہریت کا حق،خاندان کے تحفظ کا حق،عزت نفس کے تحفظ کا حق شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے تاریخی اقدامات کئے ہیں۔صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے خلیل طاہر سندھو جو کہ 2008 میں فیصل آباد سے اقلیتی سیٹ پر الیکشن جیت کر پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور بنے،بعد ازاں 2013 میں صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امور کے عہدے پر فائز ہوئے اور آج تک بخوبی اپنی ذمہ داری نبھاتے آرہے ہیں۔


ان کے دور اقتدار میں مالی سال برائے 2010کے لئے ٹیوٹا کو محکمہ خزانہ کی طرف سے 5.000ملین روپے کی دستیاب ترقیاتی گرانٹ کی محکمہ اقلیتی امور و انسانی حقوق کی منظوری سے منتقلی، مجموعی طور پر 11.660ملین روپے کی ٹیوٹا کو منتقلی کا عمل جاری ہے۔جنوبی پنجاب میں اقلیتوں کے لئے 10 فیصد اقلیتی ترقیاتی فنڈز کی بحالی عمل میں لائی گئی۔جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ اقلیتی خاندانوں کی بحالی پر خصوصی توجہ دی گئی۔صوبے میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ بشمول قوانین اور پالیسیوں کا نفاذ ممکن ہوا،اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے 100ملین روپے کی گرانٹ کو بڑھا کر 200ملین روپے کردیا گیا ہے۔مستحق طالب علموں کے لئے تعلیمی وظائف کے پروگرام کا آغاز کیا گیا۔بہاولنگر میں 300ہندو خاندانوں میں امدادی رقوم کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں100مسیحی قیدیوں میں اسناد کی تقسیم کی گئی۔ مسیحی قیدیوں کو مذہبی کورس مکمل ہونے پر قید میں چھ ماہ تک کی رعایت دی

گئی۔2008-09 ء میں اقلیتی طلبہ میں 10.91 ملین روپے کے تعلیمی وظائف کی تقسیم کی گئی۔2009-10 ء میں ٹیوٹا کے اداروں میں اقلیتی طلبہ کی تعلیم کے لئے 11.660ملین روپے کے تعلیمی وظائف دیئے گئے۔صوبہ پنجاب میں اقلیتوں کی فلاح و بہبود کی سکیموں کے لئے محکمہ خزانہ نے فنڈز جاری کئے، 5.00ملین کی ترقیاتی گرانٹ ،جبکہ 6.66 ملین کی غیرترقیاتی گرانٹ بھی جاری کی گئی۔انسانی حقوق کی صورتحال کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لئے یونیورسٹیوں ، اداروں اور محکموں میں پروگراموں کے لئے 1.380ملین روپے کے فنڈز مختص کیئے گئے۔ یوحنا آباد میں واٹرفلٹریشن پلانٹ کی تنصیب،جیل میں ٹیلی فون بوتھ، سائے کے لئے شیڈز کی تعمیر اور ٹھنڈے پانی کے کولروں کی تنصیب،لاہور میں ہندوبرادری کے تاریخی کرشنا مندر کی تزئین و آرائش پر 12لاکھ صرف کئے گئے،ہندوؤں اور سکھوں کے لئے شمشان گھاٹ کا قیام، اقلیتوں کے قبرستانوں کی نگہداشت پر خاص توجہ دی گئی،مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی اور عبادت گاہ کی تزئین و آرائش اور تعمیر نو کی گئی۔پنجاب حکومت ہرسال کرسمس، ہولی/دیوالی اور سکھ برادری کے مذہبی تہوار کے لئے خصوصی گرانٹ فراہم کرتی ہے۔پنجاب حکومت نے گذشتہ چار سال میں مسیحی برادری میں کرسمس گرانٹ کے لئے 90ملین کی رقم تقسیم کی ہے۔پنجاب میں مقیم مسیحی ،سکھ اور ہندو برادری میں ان کے مذہبی تہوار کے موقع پر خصوصی گرانٹ تقسیم کی جاتی ہے ،تاکہ وہ اپنی خوشیوں کومذہبی جوش و خروش سے مناسکیں۔حکومت پنجاب نے اقلیتی برادری میں گذشتہ چار سالوں میں 100ملین سے زائد رقم مذہبی تہواروں کے لئے تقسیم کی ہیں۔حکومت پنجاب نے نوجوانوں کو روزگار کے حصول کے لئے بہتر مواقع فراہم کئے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کے لئے 5فیصد کوٹہ مختص کیاگیا ہے ،جس کے تحت 5ہزار سے زائد نوجوانوں کو سرکاری اداروں میں نوکریاں دی گئی ہیں۔حکومت پنجاب تعلیمی میدان میں متعدد انقلابی اقدامات کر رہی ہے۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات کو ہرسال سکالرشپ کے لئے خصوصی فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔ گذشتہ تین سالوں میں 57ملین کی لاگت سے تقریباً تین ہزار طلبہ و طالبات کو سکالرشپ دیئے گئے ہیں۔ مستحق اقلیتی طلباء کے لئے تعلیمی وظائف کی مد میں ایک کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور کا نیٹ ورک ضلعی سطح پر پھیلانے کے لئے ڈائریکٹوریٹ کا قیام جلد کیا جائے گا۔پنجاب حکومت نے صوبائی سطح پر ٹاسک فورس برائے انسانی حقوق قائم کی ہے۔جس کا مقصد ایکشن پلان برائے انسانی حقوق کی عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔اسی طرح ضلعی سطح پر ٹاسک فورس برائے انسانی حقوق قائم کی جا رہی ہے۔جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ اقلیتی خاندانوں کی بحالی پر خصوصی توجہ دی گئی ۔صوبے میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ بشمول قوانین اور پالیسیوں کا نفاذ ممکن ہوا۔صوبے کی یونیورسٹیوں ، محکمہ سماجی بہبود اوربیت المال پنجاب ، ٹیوٹااور محکمہ جیل خانہ جات کے علا وہ بین الاقوامی فلاحی اداروں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے، مزید یونیورسٹیوں کے ساتھ معاہدے کئے جا رہے ہیں۔مسیحی برادری کی شادیوں کی رجسٹریشن کے لئے خصوصی اقدامات ،3 سو ہندو خاندانوں میں 2 ہزار روپے فی کس مالیت کی پہلی مرتبہ تقسیم کی گئی۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے نولکھا چرچ کی تزئین و آرائش کے لئے 1.5 ملین روپے کی منظوری ہو چکی ہے۔ضلع خانیوال میں مسیحیوں کے لئے ماڈرن ویلجز (Modern Village) کے قیام کا منصوبہ شامل ہے۔کرسمس کے موقع پر 476 مسیحی خاندانوں کو فی کس 5 ہزار روپے کے چیک دئیے گئے، تحائف کی تقسیم ،وزیراعلیٰ پنجاب نے 8 اقلیتی اراکین پنجاب اسمبلی کو ایک کروڑ روپے کے فنڈز دئیے،خصوصی کرسمس بازاروں کا اہتمام، 39 ملین روپے کی گرانٹ کا اجراء بھی ممکن ہوا۔ خلیل طاہر سندھو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت تمام اقلیتوں کے لئے ایک منفرد کردار ادا کر رہے ہیں اور اقلیتوں کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھی جانے کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

مزید :

کالم -