قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 40

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 40
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 40

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

روس سے روانگی سے قبل جبکہ صدر ایوب بھی وہیں تھے تو میں نے ایک خط صدر ایوب کو تحریر کیا تھا جس میں میں نے لکھا تھا کہ میرے دونوں ساتھیوں کی اور خاص طو پر میری بڑی خواہش تھی کہ یہاں آپ سے ہماری ملاقات ہوجاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور ہم آپ کو یہاں خوش آمدید کہتے ہیں۔ میں نے یہ خط پاکستانی سفارتخانے کی معرفت بھجوایا تھااور ظاہر ہے کہ صدر صاحب کے نام کوئی خط سفارتخانے کے عملے کیلئے صحیفہ آسمانی کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ میرا وہ خط صدر ایوب تک پہنچا دیا گیا۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 39 پڑھنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔
صدر ایوب سے جب ایوان صدر میں مذکورہ بالا ملاقات ہوئی تو اس موقع پر انہوں نے مجھ سے اس خط کا تذکرہ بھی کیا تھا اور پوچھا کہ دورۂ روس کیسا رہا۔ میں نے بتایا کہ غیروں سے تو کوئی شکوہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اپنوں کا رویہ بھی مناسب نہیں تھا ا ور انہیں پانچ پاؤنڈ والا واقعہ سنایا۔ شاید تمام سفارتخانے ایسے ہی کرتے ہوں لیکن مجھے اس واقعہ سے بہت رنج ہوا تھا۔
دو حماقتیں
زندگی میں حماقتیں اور بھی کی ہوں گی لیکن ان میں سے تین حماقتیں بلکہ ظلم ایسے بھی مجھ سے سرزد ہوئے ہیں کہ آج بھی میرے ذہن کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق اقبال بانو سے بھی ہے۔ اقبال بانو سے میرے جذباتی تعلقات چل رہے تھے اور ان کے تمام امور اور مسائل میرے ذمے ہی ہوتے تھے۔انہوں نے روہتک کی جائیداد کے سلسلے میں یہاں ایک کلیم (ClAIM) داخل کیا ہوا تھا جس کی پیروی میں ہی کر رہا تھا۔ ایک دن ان کی ملتان میں اسی سلسلے میں پیشی تھی اور جو افسر بحالیات اس کی سماعت کر رہے تھے وہ میرے جاننے والے تھے۔ اقبال بانو کے پاس کوئی کاغذات وغیرہ نہیں تھے پھر ان کا کیس زائد المعیاد بھی تھا لیکن میں نے کسی نہ کسی طرح کیس رکوادیا تھا اور اس کی پیروی بھی خود ہی کر رہا تھا ۔ جب مذکورہ پیشی تھی تو اس سے ایک روز پہلے میں لاہور میں تھا اور یہاں یہ اطلاع آچکی تھی کہ میرے سسر شدید علیل ہیں۔ چنانچہ میری بیوی ہری پور جا چکی تھی۔ اس پیشی سے ایک دن پہلے میری بیوی کا مجھے فون آیا کہ والد صاحب یعنی میرے سسر فوت ہو گئے ہیں اور آپ چلے آئیے ۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
اس کے بعد میں نے اقبال بانو سے فون پر بات کی اور بتایا کہ میرے سسر فوت ہو گئے ہیں اس لئے آپ کل جا کر اگلی تاریخ لے لیں۔ پھر میں سنبھال لوں گا۔ انہوں نے اسی طرح پریشانی کے عالم میں کہا کہ وہ تو فوت ہو گئے ہیں اور وہ تو واپس نہیں آئیں گے لیکن اگر اگلی تاریخ نہ ملی اور فیصلہ یکطرفہ ہو گیا تو بہت نقصان ہو گا۔
میں سسر کے جنازے میں شرکت کی بجائے ملتان چلاگیا۔ میری زندگی میں یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ اب بھی اپنے آپ کو اپنی بیوی کی طرف سے ‘ مرحوم کی طرف سے اور اپنے ضمیر کی طرف سے مجرم سمجھتا ہوں۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ میری پھوپھی زاد بہن کے شوہر بزرگ اور معزز آدمی تھے ۔ ان کے ساتھ کسی مسئلے پر جھگڑا ہو گیا۔ انہوں نے مجھے سخت سست کہا۔ جوانی کا عالم تھا میں اپنے غصہ پر قابو نہ پا سکا اور میں نے انہیں تھپڑ دے مارا۔ مجھے وہ کیفیت آج تک نہیں بھولتی کہ اس خلاف توقع تھپڑ پر جس طرح ان کا سراضطراری کیفیت میں ہلا وہ آج بھی میری نظروں کے سامنے گھومتا ہے۔ یہ منظر آج بھی میرے ذہن کو اذیت دیتا ہے۔ یہ واقعہ جب بھی یاد آتا ہے تو میں ہاتھ اٹھا کر اپنے اللہ سے دعا مانگتا ہوں۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ اللہ اپنے جرائم تو معاف کر دے گا اور اگر نمازیں بھی نہ پڑھی ہوں گی تو وہ بھی معاف کر دے گا لیکن میرا یہ جرم شاید وہ معاف نہ کرے۔
مجھ سے قربت بڑھنے سے پہلے اقبال بانو کی ایک چوری ہوئی تھی ۔ انہیں شبہ تھا کہ یہ چوری خاکوانی فیملی کے ایک رئیس نے ان کے ہاں کروائی ہے جس کی یہ پہلے داشتہ رہ چکی تھیں۔ اب خاکوانی خاندان بڑا اثر و روسوخ والا تھا اور اقبال بانو کا کیس ایک طرح سے ڈوبا ہوا تھا۔ اعجاز حسن بٹالوی میرے دوست تھے۔ میں نے ان سے بات کی اور ہم یہ کیس ہائی کورٹ میں لے گئے ۔ ہم نے ہائی کورٹ سے ایسے وارنٹ جاری کروائے کہ وہ شخص گرفتار ہو کر حوالات میں چلا گیا۔ اب میں شہر میں دندناتا پھر رہا تھا اور یہ بھی نہ سوچا کہ ملتان ان کا اپنا شہر ہے اور یہ بڑے اثرورسوخ والے اور زور والے لوگ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میں تھانے میں خود بھی گیا اور جا کر ایس ایچ او سے باتیں کرتا رہا جبکہ یہ خاکوانی شخص مجھے دیکھتا رہا۔
میرے ملتان کے دوستوں نے کہا کہ تم آگئے ہو تو ہم تمہیں کچھ ہونے نہیں دیں گے ۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ تم ہماری موجودگی میں بھی بچ کر چلو کیونکہ تم نے خاکوانی خاندان کی عزت خاک میں ملا دی ہے اور ایسا کام کر دیاہے جو پہلے ان کے ساتھ کبھی کسی نے نہیں کیا اور جس کی وجہ سے وہ کوئی بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ اب میں سوچتا ہوں کہ عشق کے پاگل پن میں آدمی ایسے ایسے کام بھی کر جاتا ہے جن میں جان کا خطرہ بھی ہو تا ہے۔(جاری ہے)

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 41 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں