اپنے صحرامیں بہت آہو ، ابھی پوشیدہ ہیں
واٹس ایپ پر آئے دن کچھ نہ کچھ ایسا ملتا رہتا ہے کہ جیسے نیپال کا وزیراعظم اتنا سادہ ہے کہ۔۔۔ ایک افریقی ملک کا صدر بس ایک جوڑا کپڑوں کا مالک ہے ،یا یہ کہ سابق صدر امریکہ بارک اوباما کے پاس کوئی مکان نہیں۔ اور جب موضوع چھڑ ہی جائے تو حضرت عمرؓ کے کُرتے کاتذکرہ کیوں نہ ہو۔ اب اسے دور کے ڈھول سہانے سے موسوم کریں ،یا گھر کی مرغی دال برابر، مجال ہے کہ لوگوں کو عہد حاضر کے کسی اپنے صدر، حاکم، گورنر، وزیراعلیٰ وغیرہ میں کوئی خوبی نظر آئے۔ کسی نے بہت تیر مارا تو قائداعظم اور لیاقت علی خان تک اس کی مار ہو گی۔ حیرت تو اس پر ہے کہ ذرائع ابلاغ حکام اور سیاست دانوں کے عیوب کو تو اس طرح اچھالتے ہیں کہ گویا بِس کی گانٹھ بَس یہی لوگ ہیں اور باقی تمام ریاستی زمرے گنگا جل سے گویا اشنان کیے ہوئے ہیں۔چنانچہ میں دیگر پاکستانیوں سے کیوں پیچھے رہوں۔ پہلے تو میں بھی ایک غیرملکی گورنر کی مدح سرائی کروں گا کہ یہ کچھ ذرائع ابلاغ نے ہماری گھٹی میں ڈال رکھا ہے۔
1999ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے فلپائن کے مسلم اکثریتی علاقے منڈا ناؤ کے ایک صوبے توی توی(Tawi Tawi) کے شہر بنگاؤ(Bongao) میں وہاں کے ارکان عدلیہ کے لیے اسلامی قانون کے ایک تاسیسی کورس کا اہتمام کیا۔ ایک ماہ کے اس کورس کا میں منتظم تھا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ علیہ ہمارے ٹیم لیڈر تھے۔ ان کی اس حیثیت کے مطابق انہیں ذرا زیادہ ادب و اکرام حاصل تھا۔ منتظم ہونے کی نسبت سے وہاں کے مقامی منتظمین نے مجھے کچھ مراعات سے نواز رکھا تھا۔ ایک جیپ تھی جو ہوٹل سے شہر آنے جانے کے لیے انہوں نے دے رکھی تھی۔بنگاؤ شہر میں گنتی کی چند کاریں نظر آتی تھیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فلپائن کوئی سات ہزار جزائر کا مجموعہ ہے لہٰذا اس ملک میں نقل و حمل کا بڑا ذریعہ سمندری ٹرانسپورٹ ہے۔ شہر کے اندر البتہ موٹر رکشے تھے اور بس وہی تھے۔
ایک دن عصر کے بعد ذرا آنکھ لگی تو کافی دیر سوتا ہی رہا ،جب اٹھا تو انتظامیہ نے بتایا کوئی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کمرے سے باہر نکل کر دیکھا تو ایک مجہول سا آدمی اسٹول پر یوں بیٹھا تھا جیسے ہمارے ہاں صاحب لوگوں کے خدمت گار باہربیٹھا کرتے ہیں۔ اللہ معاف کرے جس ماحول میں ہم نے آنکھ کھولی ،اس میں کوئی کچھ بھی کرے کرّوفر کا کچھ نہ کچھ حصہ شخصیت کا خاصا بن ہی جاتا ہے۔ میں نے مستفسرانہ نظروں سے اسے بس یونہی رواروی میں دیکھا تو معلوم ہوا ،موصوف اسی صوبے کے گورنر عبدالکریم صاحب ہیں جس میں ہم لوگ پروگرام کر رہے تھے۔ مستزاد یہ کہ ہمیں جو جیپ دی گئی تھی، بس وہی ان کے آنے جانے کا ذریعہ تھی۔ مجھ سے ملنے کے لیے آٹو رکشے پر تشریف لائے تھے۔ میں نے فوراً فرمانِ امروز جاری کرتے ہوئے جیب واپس کر دی۔ انہوں نے بڑی شدّومدّ سے مجھ سے اختلاف کی کوشش کی لیکن جیپ واپس ہو کر رہی۔
جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی جتنی مرضی کوئی کردار کشی کرے، وہ اس کی اپنی افتاد طبع اور تربیت کا حصہ ہے۔ نام نہاد جمہوریت پسندوں اور دین دشمن افراد نے تو ان کے کردار پر وہ وہ کیچڑ اچھالا ہے کہ حقیقت تلاش کرنے میں مورخ کو قدرے دشواری ہو گی۔ ذاتی طور پر میں جمہوریت کا اس لیے قائل ہوں کہ اس کا متبادل ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ خلافت کے بارے میں دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن عامیوں سے قطع نظر اہل نظر اور اہل دانش بھی ماضی گزیدگی کا شکار ہیں۔ کوئی خاکہ ابھی تک میری نظر سے نہیں گزرا کہ عہد حاضر میں خلافت کی کیا شکل ہو گی اور پانچ درجن کے لگ بھگ ممالک کے شاہان و سربراہان کیسے اپنے اختیارات سے دست بردار ہو کر خلافت کو پرنام کریں گے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ لیکن میرا ایمان ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کی ابتدائی خاکہ نگاری ہو کر رہے گی۔ کیا کسی کوپتہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے چشمے کا فریم کتنے روپے کا تھا؟ صدر بازار پنڈی کے تھڑے سے مبلغ پچاس روپے میں خریدا گیا تھا۔ میں سال ہا سال سے اپنے حلقہ احباب میں کہہ رہا ہوں جنرل ضیاء الحق کے نام کوئی مکان کوئی پلاٹ کوئی منقولہ جائداد بتا دو۔ ای سیون اسلام آبادمیں مقیم میرے ایک دوست نے بڑے دھڑلے سے دعویٰ کیا کہ ان کے پڑوس میں جنرل ضیاء کا پلاٹ ہے۔ تفصیل ابھی تک ان کے ذمہ ہے۔ حالانکہ میں نے انہیں موقع پر کہہ دیا تھا کہ محض زبان ہلانے سے ملکیت نہ آپ کی ثابت ہوتی ہے، نہ کسی اور کی جیسا کہ آج کل لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ جنرل اس بیسویں صدی کا وہ عجیب و غریب حکمران تھا کہ جس کی جنبش ابرو پر فیصلے ہوا کرتے تھے لیکن ان کے اہل خانہ کو جب ان کی شہادت کے بعد مکان خالی کرنا پڑا تو رہنے کی چھت نہیں تھی۔ ایک وضع دار سیاست دان نے اپنا مکان ان کے حوالے کیا تاوقتیکہ جنرل صاحب کے بیٹے نے اپنا مکان بنا لیا۔ میاں طفیل محمد امیر جماعت اسلامی نے بجا طور پر فرمایا تھا: پانچویں خلیفہ راشد کے بعد طویل خلا کے بعد جنرل ضیاء الحق اسی سلسلے کی اگلی کڑی ہے۔
مجال ہے کہ اخبارو جرائد کسی بھلے مانس کو اپنے صفحات میں جگہ دیں۔ ادھر کہیں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع ہوا، ادھر اس میں سے اصل زر سے بھی زیادہ بدعنوانی نکال لانے والے لنگوٹ کَس کر میدان میں آ جاتے ہیں۔کیا کسی کو یاد ہے ابھی کوئی دو عشرے قبل پنجاب کا ایک نگران وزیراعلیٰ ایسا بھی رہا ہے جو دوپہر کا کھانا ٹفن کیرئیر میں اپنے ساتھ دفتر میں لاتا تھا۔ کھانے کے وقفے میں دفتر میں موجود دو ایک ساتھیوں کو ساتھ بٹھا لیتا ۔چونکہ اختیاراتی کیک میں سے ایک معمولی ٹکڑا بھی کسی کو دینے کا روا دار نہ تھا ،اس لیے اس کی یہ سادگی نہ تو اخبارات میں جگہ پا سکی اور نہ پہاڑ سے منہ کھولے سرکاری ملازمین نے اس دیانتداری کو دیانت گردانا، کنجوسی پر محمول کیا۔کیا اس وزیراعلیٰ کا نام کسی اخبار نویس کو یاد ہے؟ کسی قاری کو؟ سیاست دانوں کی ذرا سی غلطی کو رائی کے پہاڑ کے مثل بیان کرنے والے کسی کو؟ درِدل کشا والے شیخ منظور الٰہی کو بھلا کون یاد رکھ سکتا ہے۔ان کا تعلق رجال کار کے اس ٹبّر سے تھا جو خزانے کے امین ہوا کرتے ہیں۔ مرزا بیدل اور حافظ کی باتیں کرنے والوں کے قریب کون آ سکتا ہے۔
فلپائن کے اس مذکورہ شہر بنگاؤ سے واپسی کے دو راستے تھے۔ بحری جہاز جو اپنے ہاں کی ترپال والی سوزوکی کا جہازی ایڈیشن تھا۔ اٹھارہ گھنٹے کا اذیت ناک سفر کچھ اس طرح تھا کہ وہاں کا مزدور طبقہ اور گنوار لوگ اس جہاز میں لدے ہوتے تھے۔ رات سونے کے لیے میدان عرفات جتنی جگہ ملتی تھی کہ کروٹ لینے کے لیے اولاً جاگنا پڑتا، پھر اٹھ کر کروٹ بدل سکیں تو بدل لیں۔ مزید یہ کہ یہ ’’چارپائی‘‘ تین منزلہ تھی، چنانچہ اگر کوئی سونے میں کامیاب ہو بھی جاتا تو باقی بالائی اور زیریں دو ہم بسترساتھیوں کے اجسام خاکی میں جوار بھاٹا آنے پر اسے زلزلے کی سی کیفیت کا گمان ہوتاتو وہ بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا۔ دوسرا ذریعہ ہوائی جہاز تھا جس میں کوئی ایک گھنٹہ لگ جاتاتھا۔ واپسی ٹکٹ کے لیے میں نے ڈاکٹر غازی صاحب سے پاسپورٹ مانگا تو بولے ہوائی کرایہ کتنا ہے؟ عرض کیا کوئی اڑھائی ہزار پاکستانی روپے۔ بولے اور بحری جہاز؟ عرض کیا ساڑھے چھ سو روپے پاکستانی۔ بلاتامل بولے ،بس آپ بحری جہاز کا ٹکٹ منگوا لو۔ کافی بحث کی کہ حضور یہ بحری جہاز اس لائق نہیں کہ آپ اس میں سفر کر سکیں۔ بولے، بھئی رات سونا ہی ہے ،ہوٹل میں سوؤں یا بحری جہاز میں ایک ہی بات ہے۔ پھر ضد کی کہ شاید اپنی رائے پر نظرثانی کریں تو مستحکم لہجے میں ان کے تحکمانہ الفاظ یہ تھے: ’’بھئی میں اس جہاز میں پچھلے سال سفر کر چکا ہوں، مجھے پتہ ہے کہ کیسا ہے بس آپ ٹکٹ منگوا لیں۔‘‘
نئی نسل کے قارئین ڈاکٹر غازی صاحب سے واقف نہیں ہوں گے۔ وہ اس وقت سپریم کورٹ کے جج تھے۔ اسی سال 1999ء میں کابینہ سے بھی اوپر نیشنل سیکورٹی کونسل کے رکن بن گئے۔ بعد میں وفاقی وزیر رہے۔ یہ وہ چند موٹے موٹے عہدے ہیں جن کا ذکر ضروری ہے ،ورنہ ان سے ذرا کم سطح کے عہدوں کی قطار تھی جو ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھی۔ اور سادگی اور دیانتداری کا یہ عالم کہ ریاست کے صرف انیس سو روپے بچانے کی خاطر رات بھر ایک اذیت ناک سفر پر سپریم کورٹ کا وہ جج راضی برضا سفر کر رہا تھا ۔ سفار ت خانے کو پتہ چل جاتا تو ایک پروٹوکول افسر ہر وقت دست بستہ آپ کے ہم رکاب رہتا۔ منیلا ،کراچی کی نشست کے حصول میں کچھ دشواری پیش آنے پر میں نے سفارت خانے سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ رحمہ اللہ علیہ نے سنتے ہی سختی سے منع کر دیا۔ ’’بھئی ایک عام پاکستانی کی طرح کام کیا کریں۔‘‘ اوربس، کوئی مزید لیکچر نہ پندو نصائع!
حکومتی ایوانوں کا مجھے کچھ پتہ نہیں لیکن سرکاری دفاتر میں اس طرح کے ہیرے موتی ہمیں کہیں کہیں مل جاتے ہیں اور میرا ذاتی خیال ہے کہ اللہ شاید انہی لوگوں کو دیکھ کر کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ کہتے ہیں نیکی کا تذکرہ بھی نیکی ہے۔ ان لوگوں کی نیکیوں کا تذکرہ، یوں سمجھئے، نیکی کا وہ بیج ہے جس سے کونپل پھوٹ کر ایک سایہ دار تناور درخت بن جاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ذرائع ابلاغ بیرون ملک سے مثالیں لانے کی بجائے اپنے ماحول معاشرے سے جڑ کر رہیں اور یہیں سے غذا حاصل کریں۔ تاریخ اسلام سے جڑے رہنا بہت اچھا اور لائق ستائش عمل ہے لیکن اپنے اردگرد نظرانداز کردہ افراد بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ اخبار نویس حضرات اس بات کے گواہ ہیں کہ کسی شخص کی اربوں روپے کی کرپشن کی خبریں پڑھ پڑھ اس جیسے دیگر مختار اصحاب بھی اسی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اور یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ اس وقت جائز ناجائز وسائل سے دولت کمانے کی ایک اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے جس کا نہ کوئی اور ہے نہ چھور۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے کے اندر نیکی اور اچھائی کی مثالیں سامنے لا کر ہم نیکی اور اچھائی ہی کو پروان چڑھائیں گے۔ معاشرہ ابھی تک زندہ ہے۔ برائی کی اشاعت بہت کر لی گئی ہے۔ ذرا نیکی کی اشاعت کر کے دیکھئے ،معاشرے کی عروق جامد میں نئی جان دوڑ جائے گی۔ دیانت اور امانت کے پوشیدہ موتیوں اور خوابیدہ نغموں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
کیا ہی اچھا ہو کہ واٹس ایپ گروپ یہ قدرے بھاری پتھر چوم لیں اور اسے ایک تحریک کے طور پر شروع کر دیں۔