بانسوں کا جنگل

بانسوں کا جنگل
بانسوں کا جنگل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں لاتعداد ایسے ادارے ہیں جن میں ان گنت متوسط اور غریب گھرانے کے افراد کام کرتے ہیں ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگ بس سٹینڈ پر کھڑے اپنی اپنی ادنیٰ درجے کی نوکریوں کے انتظار میں ہوتے ہیں جن کے پاس موٹربائیک یا سائیکل ہے وہ سڑکوں پر رواں دواں نظر آتے ہیں۔
2016ء سے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں غربت بڑھی ہے اور غریبوں کی تعداد چھ کروڑ سے زائد ہوچکی ہے یہ افراد خطِ غربت سے بھی نچلے درجے کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں یہ چیلنج حکومت کے سامنے ایک خوفناک صورت لیے کھڑا ہے، ہمارے ہاں کتنے افراد ہیں جو دو وقت کی روٹی کماتے ہیں بچوں کو تعلیم کی اور طبی سہولیات دے سکتے ہیں، درجہ چہارم کا سرکاری ملازم جب تک اضافی کام دھندہ یا اضافی نوکری نہیں کرتا وہ اپنی غربت سے چھٹکارا نہیں پاسکتا، پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے دو سے چار ماہ تک اکثر تنخواہوں کے انتظار میں ادھار لے لے کر آنے والی تنخواہ ختم کرچکے ہوتے ہیں، یہی غربت، بے چارگی، کرپشن ،بدعنوانی، دھوکہ دہی اورلوٹ مار کا سبب بنتی ہے یا پرانے اور پسماندہ علاقوں کے کونے کھدروں میں نشہ کرنے کا موجب بنتی ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت شاید پاکستان کی تقدیر کا حصہ ہے، امیر کا ایک دن کا خرچہ غریب کی مہینہ بھر کی تنخواہ کے برابر نکلتا ہے امیر اور غریب کے درمیان فرق امیری نہیں حکومتی اور نجی اداروں کی ناکامی ہے۔ اس پر نئے پاکستان کی تشکیل میں سرکاری اداروں کونجی اداروں کی ملکیت میں دینے کی بازگشت روح فرسا ہے، اس ملک کا سب سے اہم ادارہ اطلاعات ونشریات کا ہے۔
جو بات زبانی زدِ عام ہوتی ہے وہ پہلے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پڑھی دیکھی یا سنی جاتی ہے، یہ ادارہ حکومت کی پالیسی اور تمام اصول وضوابط کے مطابق چلنے کا پابند ہے گوکہ اب بھی نجی رسائل واخبارات اور چینلز اپنی مرضی کی دھماچوکڑی مچاتے ہیں اور اپنا نام چمکاتے ہیں مگر اس کے باوجود ہمیں کسی نہ کسی پابندی کو قبول بھی کرنا پڑتاہے، پیمرا اور اے بی سی کیلئے حکومت کا نکہ تنگ اور سخت ضرور ہے، مگر نجی اداروں کو اپنے اختیار میں رکھنا اس طرح ممکن نہیں جس طرح کہ ایک حکومتی ادارے کو مسلم لیگ ن نے جب سرکاری اداروں کی نجکاری شروع کی تو اس نے اکتیس سرکاری اداروں کو پرائیوٹائز کردیا اس میں پی آئی اے کا حال دیکھ لیں نہ صرف اس ک ی کچھ آمدن سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے بے شمار لوگ بے روزگار ہوئے، ایسا لگتا ہے جیسے رابن ہڈ کے نظریے
’’غریب کو نچوڑو امیر کو دو‘‘
کے مصداق بہتر کام اٹھا رکھاہے وہ خبر جو عوام تک پہنچتی ہے اس میں سستا ترین ذریعہ اخبارات ہیں اور خاص طور پر شام کو شائع ہونے والے اخبارات ۔
مریم اورنگزیب نے جو’’ گیٹ وے ٹو‘‘ پاکستان کی ویب سائیٹ کاذکر کیاہے کہ اس کے ذریعے پہنچے توجہاں انٹرنیٹ کیDeviceہوگی تو وہ اخبار کیوں خریدے جائیں گے۔ اخبار بیچنے والوں کے روزگار کا کیاہوگا؟ اخبار نکالنے کیلئے کام کرنے والے عملے معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے لکھنے پڑھنے کی صلاحیتیں مقصود ہوجائیں، لائبریریاں ویران ہو جائیں گی، انسان کا انسان سے رابطہ ختم ہوجائے گا، کیاہم قلم کو پابہ زنجیر کررہے ہیں، یا قرطاس کو بُردِ تَلاطم۔
اطلاعات ونشریات تو پرانے وقتوں کی وراثت ہے، خط، تار، خبر، زمیندار اخبار، تحریک پاکستان کو اجالنے والا کون سا ادارہ تھا؟ اخبارات وجرائد اور اطلاعات ونشریات کا ،تو اس کی اہمیت سے انکار کیسے ہوسکتاہے؟ ریاست جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوتی ہے تو اس کے سامنے ہمیشہ سے دو راستے ہوتے ہیں ایک ترتیبِ نَو(نئی پالیسی اور حکمت عملی) یا پھر نجکاری۔
ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم اطلاعات ونشریات کے ادارے کو نجکاری کے اندھے کنوئیں میں دھکیلنے کا ارادہ کررہے ہیں یا اس سے منسلک اس غریب عوام جن کی روٹی کپڑا اور مکان اس سے منسلک ہیں۔معیشت کی تباہی پہ پہلے ہی افراد سر پہ بازو رکھے بین کرتے نظرآتے ہیں۔ نئے پاکستان کی خوشحالی تو جب آئے گی تو دیکھیں گے ۔

ہماری نظر کو تو آج کے مسائل کی دھند میں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
صحافی تو ویسے ہی دن رات ایک مشقت کی زندگی گزار رہا ہے کیمرہ مین کیمرے اٹھائے ہوئے اور رپورٹر ڈائریاں سیاہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ آمدورفت کیلئے کوئی الاؤنس نہیں ملتا، صحافی خواتین بسوں پر رکشوں میں اپنے بل بوتے پر پہنچتی ہیں ،کسی مرد صحافی کے پاس اگر موٹرسائیکل نہیں تو بھی اسے وقت پر پہنچنا ہوتاہے۔
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کوکچل دیتے ہیں آلات
تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
خبر کبھی جھوٹی نہیں ہوتی شاید کہ مکمل سچ نہ ہو مگر رائی ہو تو پہاڑ بنتاہے کچھ تنخواہوں کے حوالے سے بھی یہاں بات ہوجائے تو بہتر ہوگا ورنہ طوطی کی کون سنتاہے۔ تنخواہیں کم کرنے کی خبر جتنی گرم ہے اتنا ہی تنخواہ دار طبقہ، اگر بھاری بھر کم تنخواہوں کی کٹوتی کی جائے گی تو کیا اس کے دائرہ کار میں متوسط غریب اور انتہائی مفلس لوگ بھی آئیں گے، لیکن کوئی بظاہر نظر آنے والا امیر شخص جو تین لاکھ تک تنخواہ پاتاہے مگر اس کے چار بچے یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اس نے بیٹی کی شادی بھی کرنی ہے اس نے انتہائی شرافت کی زندگی گزاری ہے، دھوکہ دہی اور رشوت ستانی سے محفوظ رہ کے، اس کی کوئی جائیدادبھی نہیں، بس وہ دن رات کی محنت سے سادہ سی زندگی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے گزارتا ہے وہ کیا کرے گا؟ اتنے بڑے فیصلے کرنے اتنے آسان نہیں اس کیلئے ہر ادارے کی ترتیبِ نَو کے ساتھ ساتھ صفر سے شروع کرنا ہوگا اور بہت کچھ تبدیل کرنا پڑے گا۔ فیسیں کم کرنی ہونگی، طبی سہولت فری میسر کرنی ہوگی، ڈاکٹرز کی فیس کم کرنی ہوگی، پرائیویٹ سکولز اور ہسپتال کیلئے اصول وضوابط عوام کی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھ کے طے کرنے ہونگے، گوکہ ہمیں بانسوں کے جنگل میں اگرپھول اگانے ہیں توکیا یہ ممکن ہے کہ بانس بھی نہ کاٹے جائیں اور ملک پھولوں کی خوشبو سے معطر ہوجائے؟ یہی نقطہ فکر حکومت کیلئے بھی ہے اور عوام کیلئے بھی۔

مزید :

رائے -کالم -