عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر45

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر45
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر45

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج قاسم کے گھر میں کرب و بلا کا سماں تھا ۔ مارسی کی خادمہ ایک دہلیز میں بیٹھی سسکیاں لے کر رو رہی تھی۔ اڑوس پڑوس کے مردو خواتین بھی یہاں آچکے تھے ۔ اس مرتبہ سکینہ پر زیادہ دیر کے لیے غشی طاری ہوئی۔ اتنی دیر تک کہ سپاہی بھگی لے کر آگئے ۔ اور پھر بہت ہی کم وقت میں سکینہ شہر کے بڑے طبیب سلیم پاشا کے مطب پر پہنچا دیا تھا ۔ لیکن سلیم پاشا کا مطب بند تھا ۔ آغاحسن نے کوچوان کو حکم دیا کہ وہ بگھی کو سلیم پاشا کے گھر لے جائے۔ شہر میں پھیلی بغاوت کی وجہ سے گلیاں اور بازار بند تھے۔ اکا دکا جو لوگ نظر آتے ۔ ان کے چہروں پر خوف و ہراس اور دہشت دکھائی دیتی۔ بالآخر سلیم پاشا کا گھر بھی آگیا ۔ سلیم پاشا گھر پر ہی موجود تھا ۔ لیکن اس نے ناسازی ء طبع کے باعث زخمی خاتون کا علاج کرنے سے انکا ر کر دیا ۔ اب آغاحسن کے لیے زبردستی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ اس نے اپنی تلوار نیا م سے نکالی ۔ اور سلیم پاشا کے خادم سے کہا:۔
’’طبیب کو فوراً بلاؤ۔ ورنہ سپاہی گھر میں گھس کر زبردستی کریں گے ۔ تم جانتے ہو شہر میں بغاوت اور افراتفری کا عالم ہے۔ فوراً جاؤ اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر44پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خادم اند رکی طرف دوڑا ۔ اسی اثناء میں سکینہ کو پھر ہوش آگیا ۔ لیکن اس مرتبہ اس کی سانسیں زیادہ تیزی سے اکھڑنے لگیں۔ اس کا سینہ دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ شاید اس کا آخری وقت آپہنچا تھا ۔ آغا حسن نے سکینہ کی حالت دیکھی تو بے دھڑک سلیم پاشا کے گھر میں داخل ہوگیا ۔ سلیم پاشا پہلے ہی باہر کی طرف آرہا تھا ۔ اس کے دائیں ہاتھ پر بڑی سی پٹی بندھی تھی۔ اور چہرہ ہلدی کی مانند زرد ہورہا تھا ۔ اس کے قدم بھی انتہائی سست اور پوراجسم لاغر تھا ۔ آغاحسن کی دھمکی سے وہ مریضہ کو دیکھنے کے لیے چلا آیا۔ آغاحسن اسے لے کر تیزی کے ساتھ بگھی میں لیٹی سکینہ کے پاس پہنچا ۔ لیکن سکینہ کے چہرے پر نظر پڑتے ہیں سلیم پاشا کے ہوش اڑ گئے۔ جو عورت اس کی آنکھوں سے سامنے مرچکی تھی۔وہ پھر زندہ ہو کر اسی کے ہاتھوں تندرست ہونے کے لیے اس کے سامنے آچکی تھی۔ اس کے رہے سہے حواس جاتے رہے۔ اسے ایسے لگا جیسے مریضہ نہیں بلکہ موت اس کے سر پر آچکی ہے۔ اس غیر متوقع اور اچانک ملاقات نے اس پر سکتہ سا طاری کر دیا ۔ وہ ایک ٹک گھور گھور کر سکینہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔ اسی اثناء میں سکینہ کی جھکی ہوئی پلکیں اٹھیں۔ اور اس کی نظر سلیم پاشا پر پڑی ۔ اگرچہ حملے کے وقت سلیم پاشا کے چہرے پر نقاب تھا ۔ لیکن پھر بھی اس کی آنکھیں دیکھ کر دم توڑتی ہوئی سکینہ حیرت زدہ رہ گئی۔
اس نے پوری قوت سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی اور ہر ہاتھ اٹھا کر انگلی کے اشارے سے سلیم پاشا سے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن اسے شدتِ حیرت سے ایک زور دار ہچکی آئی۔ اور اس نے دم توڑ دیا ۔
آغاحسن کے لیے یہ معمہ عجیب تھا ۔ اسے یوں لگا جیسے سکینہ آخر وقت میں طبیب کو کچھ بتانا چاہتی تھی۔ وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ سکینہ طبیب کو پہچان چکی تھی۔ سکینہ نے آخری ہچکی لی تو آغا حسن کے سینے سے ایک ٹھنڈی سانس خارج ہوئی۔ وہ بے حد غمزدہ اور پریشان تھا ۔ اسی پریشانی میں وہ سلیم پاشا کی حالت پر غور نہ کرسکا۔ اس نے سپاہیوں کو سکینہ کی لاش لے جانے کا حکم دیا ۔ اور خود سر جھکائے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
قاسم اور طاہر واپس لوٹے تو ان کی دنیا تاریک ہوچکی تھی۔ ان کا ہنستا بستا گھر شامِ غریباں کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ ان کا بہادر اور شفیق باپ منوں مٹی تلے دفن تھا ۔ اور طاہر کی رفیقہء حیات اس کے دکھ سکھ کی ساتھی سکینہ بھی شہرِ خموشاں کی باشندہ بن چکی تھی۔ ننھے عمر اور علی اپنی ماں کی یاد میں رو رو کر ہلکان ہوگئے تھے۔ قاسم اور طاہر کے لیے یہ صدمہ ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ سلطان مراد خان ثانی کو واپس لینے کے لیے ایدین گئے تھے ۔ انہوں نے سلطان کی خدمت میں دارالسلطنت میں بغاوت کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ سلطان فی الفور واپسی کے لیے تیار ہوگیا ۔وہ سلطان کو تو گوشہء عزلت سے نکال کر ادرنہ واپس تولے آئے۔ لیکن اب شدتِ غم کی وجہ سے ان کا خود گوشہء عزلت میں جانے کا وقت تھا۔
قاسم کے ذہن سے غم کے بادل قدرے چھٹے تو غصے اور انتقام کے گھٹا ٹوپ بادل چھاگئے۔ وہ ہر حال میں اپنی بھابھی اور باپ کے قاتل تک پہنچنا چاہتا تھا۔ آغاحسن نے اسے اس سانچے کی تفصیلی سرگزشت سنادی تھی۔ اسے اپنے پڑوسیوں سے بھی ایک ایک بات معلوم ہوچکی تھی۔ اس کی ماں اور مارسی کی خادمہ نے یہ بتایا تھا کہ حملہ آور نقاب پوش تھے۔ لیکن نہ جانے کیوں قاسم کے دل میں کوئی بات کھٹک رہی تھی۔ اسے آغاحسن نے بتایا تھا کہ اس کی بھابھی نے دم توڑتے وقت حملہ آوروں کے سردار کو زخمی کرنے کی بابت بتایا تھا ۔ آغاحسن سے اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ طبیب سلیم پاشا نے اس کی بھابھی کا علاج کرنے میں دیر کردی تھی۔ لیکن آغاحسن نے اسے سلیم کی حالت اور زخمی ہاتھ کے بارے میں بتانا ضروری نہ سمجھا تھا ۔قاسم سلیم پاشا کو پہلے ہی دل سے اچھا نہیں سمجھتا تھا ۔ اسے یہ شک تھا کہ شہزادہ علاؤالدین کو سلیم پاشا کے ساتھ کوئی پراسرار نسبت تھی۔ وہ شب و روز اسی طرح کی سوچوں میں گم رہنے لگا۔
سلطان کے آنے سے ادرنہ میں بغاوت پر یک دم قابو پالیا گیا تھا ۔ سلطان نے بغاوت کے بڑے بڑے ذمہ داروں کو آتے ہی موت کی سزا کا حکم سنادیا ۔ اس نے بہت سے غیر ذمہ دار افسروں کو قید میں ڈال دیا ۔ اور ینی چری کے بہت سے باغی سپاہیوں کو جرمِ ارتداد قتل کروادیا۔ اور بہت جلد ادرنہ کا ماحول معمول پر آگیا ۔ لیکن سلطان کو بغاوت کے اصل تارپود کی سمجھ نہ آسکی۔ سلیم پاشا ابھی تک زندہ تھا۔ اور اس کے ہاتھ پر ابھی تک پٹی بندھی تھی۔ اس کے دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں کٹ چکی تھیں۔ اور وہ ابھی تک پوری طرح صحت یاب نہ ہوا تھا ۔
سلطان نے کئی روز بعد قاسم کو بلوایا ۔ اس نے قاسم کے اہلِ خانہ کی حادثاتی موت پر بے حد افسوس کا اظہار کیا ۔ اور اس کو ذمہ داری سونپی کہ وہ اس بغاوت کے اصل تارپود کا سراغ لگائے۔ قاسم خود یہی چاہتا تھا کہ اسے سرکاری اختیارات مل جائیں تاکہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے دشمنوں کو ڈھونڈ سکے۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر سرکاری سراغ رساں تھا ۔ اس مرتبہ بہرام خان اور اس کے پورے خفیہ محکمے کو براہِ راست قاسم کی ماتحتی میں دے دیا گیا۔ محل میں معزول سلطان شہزادہ محمد نے بھی قاسم کو اپنی ہمدردی اور محبت کا یقین دلایا۔
سانحے کے اکیسویں روز قاسم کے ساتھ ایک عجیب اتفاق پیش آیا۔ وہ ادرنہ کے بازارِ آہن گراں سے گزر رہا تھا ۔ کہ اس کی ملاقات اربان کے ساتھ ہوگئی۔ یہ ادرنہ کا ایک تنگ سا بازار تھا ۔ جہاں زیادہ تر لوہے اورلکڑی کے کاریگروں کی دکانیں تھیں۔ اس بازار میں شمشیریں ، نیزے ، تیر کمان اور دیگر جنگی سازو سامان کے علاوہ عام روز مرہ کی چیزیں بھی تیار کی جاتی اور فروخت ہوتی تھیں۔ قاسم نے پہلی نظر میں ہی اربان کو پہچان لیا۔ لیکن اربان فوری طور پر قاسم کو نہ پہچان سکا۔ لیکن جب اس کی نظروں میں شناسائی کی جھلک نمودار ہوئی تو وہ فوراً قاسم کے ساتھ بغلگیر ہوگیا ۔ قاسم نے سب سے پہلے اربان سے معذرت کی کہ وہ اپنی گونا گوں مصروفیات کی بدولت اس کو دوبارہ ملنے نہ آسکا۔ اور پھر اس نے اربان سے دریافت کیا کہ وہ ادرنہ میں ابھی تک کیا کررہا ہے اور کہاں مقیم ہے۔ اربان نے جواب میں مسکراتے ہوئے کہا:۔
’’میں اسی بازار میں ایک بڑے آہنگر کے پاس کام کرتا ہوں۔ اور ادرنہ ہی کے ایک محلے میں رہائش پذیر ہوں۔‘‘
قاسم اچھی طرح جانتا تھا کہ اربان بے ضرر ہے۔ لیکن پھر بھی ایک یورپی اور عیسائی باشندہ ہونے کی وجہ سے اس کے دل میں اربان کی طرف سے شک پیدا ہوا۔ اس نے اربان کا مزید جائزہ لینے کے لیے کچھ کہنا ہی چاہا کہ اربان پہلے بول پڑا:۔
’’ارے دوست!.........تمہیں یہ سن کر حیرت اور خوشی ہوگی کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اور بغاوت کے دنوں میں جب میں گھر میں بند ہوکر رہ گیا تھا تو میں نے قرآن مجید پڑھنے کی بھی کوشش کی۔‘‘
’’حیرت انگیز!........آپ نے اسلام قبول کرلیا؟.........اب تو آپ میرے دوست ہی نہیں مسلمان بھائی بھی ہیں........لیکن یہ انقلاب کیسے آیا اور کس کی مہربانی سے ؟‘‘
قاسم کے لہجے میں واقعی حیرت تھی۔ لیکن جب اسے اربان نے اپنے مہربان کا نام بتایا تو قاسم کوحیرت کو ایک اور جھٹکا لگا۔ کیونکہ اربان نے کہاتھا :۔
’’یہ انقلاب میری نومسلم بھتیجیوں ........حمیرا اور مریم کے طفیل رونما ہوا۔ میری بھتیجیاں بہت اچھی ہیں۔ وہ خود اور ان کا باپ عباس بھی حال ہی میں مسلمان ہوئے ہیں۔ ہم سب قرآن حکیم پڑھنا چاہتے تھے۔ اب ہم نے اپنے لیے ایک استاد کا انتظام کرلیا ہے.......تم کبھی ہمارے گھر آؤ نا!!‘‘
قاسم کو یہ خبر سن کر ایسے لگا جیسے یک دم وہ ہوا میں اٹھ گیا ہو۔ مارے حیرت کے اس کی زبان سے الفاظ نہ نکل رہے تھے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)