اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 13

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 13

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محفل میں سناٹا چھا گیا۔ سنکھ خاموش ہوگئے۔ کھڑتالوں او مردنگوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ نفیریوں کی آواز جیسے اچانک دب گئی۔ اشلوک پڑھتے پجاری لڑکوں کے لب وہیں رک گئے۔ ہر کوئی دم بخود ہوگیا۔ میں بھی حیران تھا کہ بت تراش موگاش کو کیسے جرات ہوئی کہ بادشاہ حضور میں مقدس دیوی دیوتا کے آگے رقص کرتی شاہی دیوداسی روکاش کو رقص کرنے سے روک کر اس کے ہاتھوں کو محبت سے تھام لے۔ بادشاہ غصے سے کانپتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ امرائے دربار میں ایستادہ ہوگئے۔ فضا میں ایک ہیبت سی چھا گئی تھی۔ ہر کوئی دم بخود تھا۔ رقاصہ روکاش بھی ڈرتے لرزتے ہونٹوں اور خوف سے کپکپاتی نظروں سے سنگ تراش کا منہ تک رہی تھی جس کی محبت نے آداب شہنشاہی مذہبی روایات دیوتاؤں کے تقدس کا بھی خیال نہ کیا تھا۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 12پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
روکاش اس کی گرفت سے نکل گئی۔ اسے اپنی اور اپنے محبوب کی موت سامنے کھڑی نظر آرہی تھی۔ بادشاہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
مقدس دیوتاؤں کی اس سے زیادہ توہین نہیں ہوسکتی تھی کہ پوجا کے رقص کے دوران میں کوئی شخص شاہی دیوداسی اور رقاصہ کا بازو تھام لے اگرچہ وہ روکاش سے اپنی مخالفت کا کھلم کھلا اظہار نہیں کرسکتا تھا مگر مذہبی قوانین کے پامالی کے علاوہ وہ بت تراش موگاش کی اس حرکت کو اپنی ملکیت پر جارحانہ حملہ سمجھ رہا تھا اور پوجا کی مقدس رسوم سے بغاوت پر بادشاہ کے حضور گستاخی کی آڑ لے کر شاہی بت تراش کی گردن قلم کرنے کا حکم جاری کرنا چاہتا تھا لیکن مندر میں سرزد ہونے والی کسی بھی قانونی شکنی کی سزا میری منظوری کے بغیر نہیں دی جا سکتی تھی۔ میں خاموش تھا مگر میرے اندر جذبات کا ایک طوفان برپا تھا۔ بات بار بار میرے ذہن میں ابھر رہی تھی کہ بت تراش موگاش نے یہ حرکت و فور محبت کے تحت کی ہے اور یہی وہ محبت کا جذبہ بے اختیار ہے جو میرے سینے میں موجزن ہے۔
مگر اس نے غیر شعوری طور پر مجھے دھتکار دیا تھا اور شاہی بت تراش موگاش کی والہ و شید ا ہوچکی تھی۔ اس نے میری انا کو ٹھیس پہنچائی تھی اور مجھے جوان ہوتے ہوئے ایک بوڑھا باپ بنا دیا تھا۔ اس نے یہ نہ جانتے ہوئے وہ تمام راہیں مسدود کردی تھیں جن پر چل کر میں اسے اپنا بنا سکتا تھا۔ میرے اندر انسانی ہمدردی کے تمام جذبے تھے لیکن روکاش کی محبت نے میرے اندر ایک آگ سی لگا رکھی تھی اور میں اس سے تو نہیں لیکن اس سنگ تراش سے ضرور انتقام لینا چاہتا تھا۔ میرے دل کے ایک خفیہ گوشے میں یہ خواہش بیدا رہو چکی تھی کہ میں روکاش کے محبوب بت تراش موگاش کو اپنے راستے سے ہمیشہ کیلئے ہٹا دوں۔ یہ بات مجھ پر عیاں تھیں کہ میں روکاش کو اپنا نہیں بنا سکتا۔ لیکن میں اسے کسی دوسرے کی بنتا بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ بادشاہ نے میری طرف دیکھا۔ رقاصہ روکاش تھر تھر کانپ رہی تھی۔ میں نے اپنا دایاں بازو اٹھایا اور بت تراش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پر جلال آواز میں کہا۔
’’ تم نے بادشاہ اور ہمارے مقدس دیوی دیوتا کے سامنے اس ناپاک حرکت سے ایک ایسی گستاخی کی ہے جس کی سزا موت ہے۔‘‘
بت تراش موگاش نے کمال جرات سے جواب دیا’’ محبت کرنے والے موت سے نہیں ڈرا کرتے۔ میں رقاصہ روکاش کی محبت کے سحر میں ہوں۔ اس کی محبت نے مجھے جو کہا میں نے وہی کیا۔ آپ مجھے جو سزا دیں گے میں اسے قبول کروں گا۔‘‘
اب میں رقاصہ روکاش کی طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ دیوی اشتر اور دیوتا بعل کی رقاصہ روکاش! کیا تم بھی اس گستاخی بت تراش کی محبت کا دم بھرتی ہو؟‘‘
رقاصۃ روکاش کے چہرے پر عجیب سی چمک پیدا ہوئی۔ اس نے سراٹھا کر میری طرف دیکھا اور آگے بڑھ کر بت تراش کا ہاتھ تھام لیا۔ ا سکی اس حرکت سے بادشاہ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اس نے مجھے مخاطب کرکے گرج دار آواز میں کہا۔
’’ کاہن اعظم عاطون ! میں دونوں ناپاک جسموں کو موت کی سزا کا حکم سناتا ہوں۔‘‘
کہنے کو تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ اے بادشاہ تم ان دونوں سے زیادہ ناپاک جسم رکھتے ہو۔ مگر میں بھی انسانی کمزوریوں، عہدے کے لالچ، منصب کی کشش اور مصلحت کوشی کا شکار تھا۔ میں نے سچھی بات کہنے کی بجائے کہا۔
’’ میں بھی ان کی موت کی سزا کا حکم دیتا ہوں لیکن میں ایک گزارش کروں گا کہ موت کی سزا ایک ماہ بعد دی جائے۔ کیوں کہ اگلا مہینہ دیوی اوہنی کا مقدس مہینہ ہے۔‘‘
بادشاہ نے فضا میں ہاتھ کرتے ہوئے کہا۔
’’ ایک ماہ بعد ان دونوں گستاخ انسانوں کو ہاتھی کے پاؤں تلے کچلوا دیا جائے۔‘‘
بادشاہ کے اس حکم کے ساتھ ہی زرہ بکتر پہنے ہوئے سپاہی تلواریں لے کر آگے بڑھے اور بت تراش موگاش اور رقاصہ روکاش کو گرفتار کر کے لے گئے۔ روکاش نے جاتے ہوئے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جن میں حیرانی اور گلہ مندی تھی۔ گویا اور یقین نہیں آرہا تھا کہ میں بھی اس کی موت کے پروانے پر مہرثبت کر سکتا ہوں۔ بادشاہ اپنے امراء کے جلز میں جانے لگا تو میرے نائب پجاری نے جو مجھ سے زیادہ عمر کا اور مذہبی تھا۔ بادشاہ کے روبرو جا کر ادب سے جھکا اور بولا۔
’’بادشاہ سلامت! اگر آپ نے گستاخی بت تراش موگاش اور گناہ گار روکاش کو مقدس دیوی دیوتا کی توہین کے گھناؤنے جرم میں جو موت کی سزا کا حکم صادر فرمایا اس سے آسمان کی سبھی دیوتا خو ش ہوئے ہیں لیکن میں سفارش کروں گا کہ آسمان کے دیوتاؤں کو مزید خوش کرنے کے لئے ان دونوں مجرموں کو ایک ماہ بعد دیوی اشتر اور دیوتا بعل کے استھان کے سامنے قربان کر کے ان کے دل دیوی دیوتا کے حضور پیش کئے جائیں۔‘‘
بادشاہ نے کہا۔ ’’ ہم تمہارے تجویز قبول کرتے ہین ، ان دونوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔‘‘
بادشاہ اپنے امراء کے ساتھ مندر سے باہر نکل گیا۔ پجاریوں نے دیوی اشتر اور دیوتا بعل کی تعریف میں نعرے لگائے اور میرے نائب کاہن پجاری کو مبارک باد دی کہ اس نے آسمان کے دیوتاؤں کی خوشی کے لئے ایک بہترین تجویز پیش کی۔ ان سب نے اپنی نظرمیں میری طرف اٹھائیں۔ شاید انہوں نے میرے چہرے سے اندازہ کر لیا تھا کہ میں اس سزا سے خوش نہیں ہوں۔ میرے نائب نے تعظیم کے ساتھ پوچھا۔
’’ کیا کاہن اعظم کو میری تجویز سے اختلاف ہے؟‘‘
ان سے اختلاف کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس شخص نے موگاش اور رقاصہ روکاش کو قربان گاہ پر ذبح کرنے کی جو بھیانک تجویز پیش کی تھی بادشاہ نے اس کی منظوری دے دی تھی۔ میں نے بھی دل سے نہ چاہتے ہوئے اس کی تائید کر دی تھی۔ میرا دل اداس اور بوجھل ہوگیا تھا۔ میں روکاش کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میرا غم میرے چہرے سے عیاں ہو رہا تھا۔ میں نے دیوتا بعل کے بت کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’ کوئی مقدس کاہن اس تجویز سے اختلاف نہیں کر سکتا جو دیوی اشتر اور دیوتا بعل کی حرمت و عزت بحال کرنے کے لئے پیش کی گئی ہو۔ تم نے بہت خوب تجویز پیش کی۔ ہم تمہیں مبارکباد دیتے ہیں۔‘‘
پجاریوں اور دیوداسیوں نے دیوی اشتر، دیوتا بعل کی فتح ہو، کے نعرے لگائے۔ میں نے جلدی جلدی اشلوک پڑھ کر پوجا کی رسم ختم کی اور دیوداسیوں اور پجاریوں کو رخصت کر کے خود بھی اداس دل کے ساتھ اپنی کوٹھری میں آگیا۔ میرا دل غم کے ساگر میں ڈوبا ہو تھا۔ میرے ذہن میں متضاد جذبے ایک دوسرے سے متضادم تھے۔ میں روکاش کو بچانا چاہتا تھا۔ میں اگر چاہتا تو بڑے آسانی سے اسے وہاں سے نکال کر کسی دوسرے ملک کی جانب فرار ہو سکتا تھا۔ مگر مجھے معلوم تھا کہ وہ میرے محبوبہ کبھی نہیں بن سکے گی۔ وہ جب تک میرے پاس رہے گی۔ مجھے اپنا مقدس بزرگ اور بت تراش موگاش کو ہی اپنا محبوب سمجھتی رہے گی۔ اس لئے میں غمزدہ ہونے کے باوجود خاموش تھا اور ان دونوں عاشقوں کو بھیانک موت کے منہ سے بچانے کے لئے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا تھا لیکن میں اس اندوہناک المیے کا ایک خاموش تماشائی بھی نہیں بننا چاہتا تھا۔ میں نے اسی رات فیصلہ کر لیا کہ میں مقدس جنگل میں روہنی کے متبرک مہینے میں عبادات او رریاضت میں مشغول رہنے کا بہانہ بنا کر موہنجودوڑو سے ہڑپہ چلا جاؤں گا جو اس ملک کا ہی ایک سیارچہ اور ہم مذہب و ہم تمدن ملک تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)