مالی سال 2023ء کا حوصلہ افزا آغاز
جولائی کے وسط میں پاکستان کو زرمبادلہ کی مارکیٹ میں غیر معمولی بھونچال کا سامنا رہا۔ سیاسی افراتفری، پالیسی فیصلوں میں تاخیر اور آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس میں التوانے مارکیٹ میں ایک ہیجانی کیفیت برپا کردی، مارکیٹ منفی قیاس آرائیوں کی زد میں رہی۔
یہ حقیقت اب تک واضح ہوچکی ہے کہ اس کا تعلق اقتصادی مبادیات سے نہیں تھا، جیسا کہ ہم نے اپنے سابق مضمون (27 جولائی2022ء) میں دلیل دی تھی۔ جولائی2022 ء کا ملنے والا مواد خاصہ حوصلہ افزا ہے۔ درآمدی بل میں جو گزشتہ مالی سال کے دوران ہمارے لیے کسی کوہ گراں سے کم نہیں تھا، خاطر خواہ کمی آ چکی ہے۔ا گرچہ اس میں مزید کمی لانے کی بھی ضرورت ہے۔ شواہد دکھائی دیتے ہیں کہ ہم مزید کمی کا تہیہ بھی کیے ہوئے ہیں۔
گزشتہ مالی سال کے دوران 6.7 بلین ڈالرماہانہ کا درآمدی بل 4.8 بلین ڈالر تک کم ہوگیا۔ جون کے دوران سال میں دوسری سب سے بڑی درآمدات کی گئیں اور بل بڑھ کر7.8تک جا پہنچا۔ اس کے مقابلے میں موجودہ بل 38 فیصد تک کم تھا۔یہ جولائی 2021ء کے مقابلے میں 21 فیصد کم تھا۔ گزشتہ مال سال کے دوران برآمدات اوسطاً 2.7 بلین ڈالر ماہانہ رہیں۔ جولائی 2022 ء میں برآمدات 2.2 بلین ڈالر تھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جون کے مقابلے میں برآمدات میں 24 فیصد کمی واقع ہوئی جولائی 2021ء کے مقابلے میں یہ پانچ فیصد کم تھیں۔
اس پس منظر میں ہمیں زرمبادلہ اور سٹاک مارکیٹ کی بحالی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کچھ اور خبریں بھی تھیں، جیسا کہ آئی ایم ایف کا ایک بیان،ا ور چیف آف آرمی سٹاف کا امریکا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے رجوع کرنا کہ وہ آئی ایم ایف پر فنڈ کی قسط کے جلد اجرا کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔
اس ابتدائی بحالی کے استحکام کے لیے ہم کتنے پر اعتماد ہوسکتے ہیں؟ ایک بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بیرونی ماحول میں بہتری آرہی ہے۔ کم و بیش تمام اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے۔ اس حوالے سے چینی، گندم، چاول، چائے، پام آئل، سویا بین آئل، ڈی اے پی اور یوریا کھادوں کی قیمتوں پر غور کریں۔ چائے کے علاوہ کہ جس کی قیمت میں بارہ فیصد اضافہ ہوا، دیگرتمام اشیا کی قیمتیں تیس فیصد (پام آئل) سے لے کر 3.6فیصد (گندم) تک کم ہوئیں۔
درحقیقت اگست کے پہلے ہفتے تیل کی قیمت مزید کم ہوگئی۔ جمعہ کو یہ 95 ڈالر پر ٹریڈ ہورہا تھا۔ قیمتوں میں کمی کا رجحان چند ماہ پہلے بننا شروع ہو گیا تھا، ایف اے او کا فوڈ پرائس انڈکس جولائی میں اوسط 140.9 پوائنٹ پر تھاجو جون سے 8.6 فیصد کم تھا۔ سال کے شروع میں قیمتوں میں انتہائی بلندی کے بعد سے یہ مسلسل چوتھے ماہ ہونے والی کمی تھی۔ بایں ہمہ، یہ جولائی 2021 ء کے مقابلے میں ابھی بھی 13.1 فیصد بلند تھی۔
ایل سی کے لیے سو فیصد نقد رقم کی بجائے پچیس فیصد تک کم کرنے کا مرکزی بنک کا حالیہ اعلان بہت حوصلہ افزا علامت ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مرکزی بنک حالیہ پیش رفت کو پراعتماد نظروں سے دیکھتے ہوئے تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے ریگولیشن نرم کررہا ہے۔تاہم عالمی ماحول کی بہتری کی نشاندہی کرنے والا ایک اہم نقطہ عالمی سلو ڈاؤن ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے گزشتہ برس کی شرح نمو کو 6.1 فیصد سے کم کرکے رواں برس 3.2 فیصد کردی ہے۔ یہ تنزلی ہمارے حق میں بہتر ہے کیونکہ کساد بازاری کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان غالب ہوگا۔ ان کی طلب میں کمی واقع ہوگی۔ ان میں سب سے اہم تیل کی طلب میں آنے والی کمی ہے۔
درآمد شدہ توانائی کے ذرائع پر انحصار ہماری معیشت کا سب سے منفی پہلو ہے۔ بلاشبہ ہماری برآمدات پر منفی اثر پڑتا ہے لیکن برآمدات سے حاصل شدہ رقوم میں کمی کی تلافی برآمدات میں کمی لاکر کی گئی ہے۔
یہ صورت حال 2014-16ء میں بھی دیکھنے میں آئی تھی جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں یک لخت گر گئیں۔ اس کی وجہ سے درآمدی بل خاطر خواہ حد تک کم ہوگیا، برآمدات میں بھی کمی واقع ہوچکی تھی اگرچہ یہ کمی نومبر میں ہونا شروع ہوئی تھی، 2014-15ء کا تیل کا درآمدی بل14.8بلین ڈالر (2013-14) سے کم ہو کر 12.3 بلین ڈالر تک آگیا۔ گویا 17 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی اگلے برس، 2015-16 میں تیل کا بل کم ہوکر 8.3 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔
2014-15 ء میں برآمدات ایک بلین ڈالر تک کم ہوگئیں۔ 2015-16 ء میں ان کا حجم مزید دو بلین ڈالر کم ہوگیا، اس طرح ان دو برسوں کے دوران درآمدی بل میں ہونے والی 9 بلین ڈالر بچت کے مقابلے میں ہمارا برآمدی رقوم کا نقصان تین بلین ڈالر تھا۔گزشتہ سال ہمارا میکرو اکنامک ڈھانچہ متزلزل ہوگیا کیوں کہ ہماری برآمدات یک لخت 42 فیصد اضافے کے ساتھ 80 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں اس دوران پٹرولیم کا بل 11.3 بلین ڈالرسے بڑھ کر 23.3 بلین ڈالرہوگیا۔ گویا اس میں اس 106 فیصد اضافہ ہوا۔ ہم نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ قیمتوں میں ہونے والا یہ اضافہ کم از کم مستقبل قریب کے لیے حوصلہ افزا ہے۔
دیگر دوحوصلہ افزا شواہد کا تعلق اسٹیٹ بنک کے قائم مقام گورنر سے ہے۔ پہلا، چند روز قبل ایک پریس انٹرویو میں اُنھوں نے ایسی قیاس آرائیوں کو مسترد کردیاکہ جولائی میں مہنگائی کی شرح کو دیکھتے ہوئے پالیسی ریٹ پر مزید کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اُنھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو مہنگائی کو دیکھتے ہوئے شرح سود بڑھا کر کساد بازادی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔
یہ جرأت مندانہ بیان ان افراد کی سوچ کے برعکس ہے جو قیمتوں میں ہونے والے کل اضافے کی بنیاد پر مکینکل افراط زر کی وکالت کرتے ہیں۔ ہم نے امریکا اور برطانیہ کے چوٹی کے بنکوں کوکل مہنگائی سے بہت نیچے جچے تلے افراط زر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے،مارکیٹ میں کساد بازاری کی توقعات کو متحرک کرنے کے لیے ایسا کرنے پر ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی اونچی شرح کل مہنگائی کی ایڈجسٹمنٹ میں تاخیر کی وجہ سے ہے، اگر ان کا بروقت اثر ہوتا تو یہ اضافہ دیکھنے میں نہ آتا۔ اس طرح آگے چل کر افراط زر میں کمی آئے گی اور مثبت حقیقی شرح سود کے لیے گنجائش پیدا ہوگی۔
دوسرا، قائم مقام گورنر کی جانب سے ایک اہم انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے لیے 4 بلین ڈالر کا فنانسنگ گیپ بند کر دیا گیا ہے، جس کا اشارہ آئی ایم ایف نے پیشگی اقدامات کی تکمیل کا اعتراف کرتے ہوئے کیا تھا۔ اس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ دوست ممالک سے آئی ایم ایف کی طرف سے مطلوبہ یقین دہانیاں موصول ہو چکی ہیں۔ اس سے آئی ایم ایف کی قسط کے اجراکے لیے مارکیٹ کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوگا۔
تاہم، ہمیں اقتصادی منتظمین کی طرف سے ایک خدشہ ہے جو اس امید افزا بحالی کو پٹری سے اتار سکتا ہے۔ انتخابات اپنے وقت مقررہ، اگلے اکتوبر 2023ء سے پہلے نہیں ہونے جارہے۔گویا یہ انتخابات سے پہلے کا آخری مالی سال ہے۔ لیکن خدشہ یہ ہے کہ ملک کی تاریخ حکومت کے آخری برس میں مالیاتی بے ضابطگیوں سے بھری پڑی ہے۔
آئی ایم ایف کے 2013-16 ء کے پروگرام کو مسلم لیگ ن کی حکومت نے بہت کامیابی سے مکمل کیا لیکن اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت اصلاحات کی رفتار کو برقرار نہیں رکھ سکی اور آخری برس مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6.6 فیصد تک پہنچ گیا جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اپنے بلند ترین حجم، 19 بلین ڈالر پر تھا جو کہ جی ڈی پی کے چھے فیصد کے قریب تھا۔ اگر ایک مرتبہ پھر اس کا اعادہ ہوتا ہے تو پھر ہمیں بیرونی عوامل کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ یہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مارنے کے مترادف ہوگا۔
