ضروری اور جان بچانے والی 70فیصد سے زائد ادویات مارکیٹ سے غائب، بحران میں شدت
کراچی(این این آئی)ملک میں ضروری اور جان بچانے والی ادویات کی قلت کا بحران مزید شدت اختیار کرنے کا خدشہ ہے، ملک بھر میں اس وقت 70 سے زائد ضروری اور جان بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب ہیں۔مقامی ادویہ ساز کمپنیوں نے عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں اضافے اور زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے اس کی درآمد روک دی ہے جس کی وجہ سے بحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔ادویہ ساز کمپنیوں نے 200 مالیکیولز کے خام مال کی درآمد روک دی ہے جن کی عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور ان کی پیداواری لاگت کمپنیوں کی استطاعت سے باہر ہے۔ادویہ ساز کمپنیوں کے مطابق اگر حکومتی سطح پر ٹیکسز میں چھوٹ نہ دی گئی اور ادویات میں قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو ان ادویات کی تیاری ناممکن ہوجائے گی۔ادویہ ساز کمپنیوں کے مطابق یہ تیسرا ہفتہ ہے کہ خام مال کے لیے کوئی نیا آرڈر نہیں دیا گیا ہے۔ لٰہذا موجودہ پیداوار کچھ دستیاب سٹاک کے ساتھ جاری ہے لیکن یہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گی اور جلد ہی یہ رک جائے گی جس سے ادویات کی قلت کا بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا۔ملک کے سرکردہ سرکاری اور نجی شعبے کے ہسپتالوں اور صحت کے ماہرین کے ساتھ مل کر ان ادویات کی فہرست مرتب کی ہے جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔مارکیٹ سے غائب ادویات کی فہرست مرتب کرنے والی ٹیم کے ایک رکن اور سینئر فارماسسٹ نے بتایا کہ جولائی میں جو فہرست بنائی گئی تھی اس میں 40 مختلف ادویات کے نام تھے جن میں گولیاں، شربت، انجکشن اور مرہم یا قطرے شامل تھے۔انہوں نے بتایا کہ اب 74 کے قریب دوائیں ایسی ہیں جو دستیاب نہیں ہیں۔ جن میں دماغی و اعصابی بیماریوں کی ادویات بھی شامل ہیں حتی کہ ان میں ایسی دوائیں بھی ہیں جنہیں خودکشی سے بچانے کی ادویات کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر لیتھیم کاربونیٹ کے تمام برانڈز مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں جو کہ کئی نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے مؤثر ترین دوا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان ضروری ادویات میں بچوں میں توجہ کی کمی ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر کے علاج کے لیے میتھائلفینیڈیٹ اور بچوں اور بڑوں میں مرگی کے لیے کلونازپم کے قطرے اور گولیاں بھی شامل ہیں، جو پچھلے کئی ہفتوں سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھیں۔انہوں نے بتایاکہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ٹی بی(تپ دق)، مرگی، پارکنسن، امراض قلب اور دیگر بیماریوں کے مریضوں کے لیے ادویات بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ۔
فارما انڈسٹری کے ذرائع نے بتایاکہ یہ مقامی فارما کمپنیوں کا اتفاقی فیصلہ نہیں تھا لیکن حالات نے انہیں ایک ایک کرکے پیداوار بند کرنے پر مجبور کیا ہے اور اس کا اثر اب ادویات کی عدم دستیابی کی صورت میں مارکیٹ میں نظر آنے لگا ہے۔ایک اور صنعت کار نے بتایا کہ لیتھیم کاربونیٹ 9 مختلف کمپنیاں تیار کرتی ہیں لیکن خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور پیداواری لاگت کے آسمان کو چھونے کے بعد اب ان میں سے کوئی بھی اسے تیار نہیں کر رہا ہے۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے چیئرمین قاضی منصور دلاور نے اعتراف کیا کہ مقامی صنعت کی جانب سے متعدد ادویات کی پیداوار روکنے کے سے مارکیٹ میں بحران پیدا ہو رہا ہے۔کورونا بحران پر قابو پاکر گزشتہ ایک سال سے عالمی منڈی کو کھولا گیا تھا بحران کے بعد ہم عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ ادویات کی قیمتوں میں ایک حد تک اضافہ کیا جائے اور حالیہ بحران پر قابو پانے کیلیے ان کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے اگر ایسا نہ کیا تو آنے والے دنوں میں بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ایک ذمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی پی ایم اے ادویات کی قلت کے معاملے پر بلیک میلنگ کر رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ تمام ادویات کی قیمتوں پر 40 فیصد اضافہ کرلیا جائے جو کسی صورت ممکن نہیں۔