لبر ل جمہو ریت کا تصور
سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی مغربی دنیا کے حکمران طبقات نے یہ دعویٰ کرنا شروع کردیا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب پوری دنیا میں مغربی یا لبرل جمہوریت کا بول بالا ہو گا۔مغربی حکمران طبقا ت نے اپنے اس دعوٰی کو سچ ثا بت کر نے کے لئے مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ اپنے کاسہ لیس دانشوروں کا بھی بھر پور سہارا لیا۔یہی وجہ ہے کہ 1990کی دہا ئی میں مغرب سے ایسے ایسے سیا سی و معا شی نظریات پیش کئے گئے کہ جن کا واحد مقصد مغر بی سیا سی و معاشی نظام کو ایک لا فا نی نظام کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔ ایسے ہی نظریات میں جاپانی نثراد امریکی ما ہر سیا ست فرانسس فوکویاما کی 1992ء میں لکھی گئی کتاب The End of History and the Last Man کو بھی خاصی شہرت ملی۔ اس کتا ب میں فوکو یا مانے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اب پوری دنیا میں لبرل جمہو ریت کا میا ب ہوگی اور اسی دعویٰ کے مطابق یہ تا ریخ کا بھی خاتمہ ثا بت ہو گا کیونکہ لبرل جمہو ریت جیسے نظام کو اپنانے کے بعد دنیا کو کسی اور نظام کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔آج اس دعویٰ کو 22 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب خود فو کو یا ما بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ لبرل جمہو ریت کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ تا ہم لبرل جمہو ریت ہی کے پر چا ر میں اب فو کویا ماکی ایک نئی کتاب Political Order and Political Decay منظر عام پر آئی ہے۔
یہ کتا ب دراصل 2011ء میں فوکو یا ما کی جانب سے لکھی جانے والی کتاب The Origins of Political Orderکا ایک لحاظ سے تسلسل ہی ہے ۔ اس کتاب میں فو کو یاما نے انسانی تا ریخ کے قدیم ادوار ، یونان اور سلطنت روم کے عروج و زوال سے لے کر فرانسیسی انقلاب کے بعد نپو لین کی 1806ء تک کی فتوحات کی تا ریخ بیان کی ہے۔بنیا دی طور پر ریاست ، ریا ست کی تشکیل اور اس کے ارتقا کے حوالے سے فوکو یا ما نے تاریخ بیان کی ہے ۔ اور اب یہ تازہ کتاب Political Order and Political Decay فرانسیسی انقلاب کے بعد سے لے کر حال تک جمہو ریت اورجمہوریت کو درپیش چیلنجوں کا احا طہ کر تی ہے۔اس کتاب کو بنیادی طور پر چا ر موضوعات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔سب سے پہلے مغربی یورپ اور امریکہ میں جدید ریاست کیسے قائم ہوئی،جدید ریا ست کا یہ تصور کیسے دنیا کے دیگر ممالک میں مقبول ہوا،دنیا کے مختلف مما لک میں جمہو ریت کی نا کا می اور کا میابی اور پھر ماضی کی کا میا ب جمہو ریتوں میں اب اداروں کے غیر فعال ہو نے سے جمہو ریت کو کیسے چیلنج درپیش ہیں۔فوکو یا ما کے مطابق اس کی سب سے بڑی مثال آج کا امریکہ ہے، جہاں سرمائے کے بے جا استعمال، لا بنگ کے ذریعے سیاسی مفا دات حاصل کرنے اور سیاسی کرپشن کے با عث ادارے غیر فعال ہو رہے ہیں اور ان سب کے با عث امریکی جمہو ریت بھی کمزور ہو رہی ہے۔ فوکویاما کے مطابق سیا سی استحکام کا تعلق اداروں کے ساتھ ہی ہو تا ہے۔ خاص طور پر لبرل جمہوریت کے لئے تین عوامل سیاسی استحکام،سیاسی احتساب(انتخابات) اور قانون کی حکمرانی کے ما بین توازن نا گزیر ہوتاہے۔ فاکویاما اس کتاب میں آج کی ریا ستوں کو سیاسی اعتبا ر سے دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک طرف کلا ئنٹل ازم (Clientelism)کی حامل ریاستیں اور دوسری طرف نا ن کلا ئنٹل ازم پر مبنی ریا ستیں۔ یہاں یہ بنیا دی سوال پیدا ہو تا ہے کہ کلا ئنٹل ازم سے مراد کیا ہے؟ایسے جمہوری ممالک جہا ں پر سیا سی جما عتیں اپنے اقتدار کے لئے ریاستی اداروں اور وسا ئل کو استعما ل میں لا کر اپنے ووٹروں یا حامیوں کو نوازتی اور انکی دستگیری کرتی ہیں۔ اس نوازنے میں سرکاری اداروں میں اپنے حا میوں میں نو کر یوں کی تقسیم، سیا سی حا میوں کو قا نون سے تحفظ فرا ہم کرنے سے لے کر پیسوں اور دیگر مراعات شا مل ہو تی ہیں۔ ان ممالک کے ووٹرز اپنی حکومتوں یا سیاسی جماعتوں سے کسی دیرپا پروگرام کی بجائے فور ی مرا عا ت کے طالب ہو تے ہیں ۔جیسے نوکریاں، پیسے، پانی، سیوریج، نلکے اور تھا نے کچہریوں میں سیا سی حما یت کے حصول کے مفادات وغیرہ۔ فوکویاما کے مطابق ایسی ریاستوں میں جہاں کلائنٹل ازم کی بنیا د پر جمہو ری نظا م چل رہے ہیں ان ممالک میں ریاستی وسا ئل کے دم پر اپنے حامیوں کو نوازنا قطعی طور پر کر پشن کے زمرہ میں نہیں آتا ، جبکہ کلائنٹل ازم کے حا مل مما لک میں ریا ست یا مستقل ریا ستی اداروں کے باقائدہ طور پر منظم ہو نے سے پہلے ہی جمہو ری نظا م آ جا تا ہے اور سیا سی جما عتوں کو اپنی سیا سی حما یت کے حصول کے لئے ووٹروں کو بغیر کسی جواب دہی کے نوازنا پڑتا ہے۔بھارت، پاکستان، میکسیکو، بنگلہ دیش، سری لنکا، برازیل،تھا ئی لینڈ ،کینیا ، نائیجیریا وغیرہ ایشیا،لا طینی امر یکہ اور افر یقہ میں کلا ئنٹل ازم کی حا مل ریاستیں تصور کی جا تی ہیں۔ فا کو یاما کے مطابق خود امر یکی تا ریخ میں بھی ہمیں کلائنٹل ازم کی مثال اس وقت ملتی ہے کہ جب 1820ئاور 1830ء کی دہائیوں میں تما م سفید فا م گورے رنگ کے حا مل امر یکوں کو ووٹ کا حق دیا گیا تو سیا سی جماعتوں نے ان ووٹروں کی حما یت حا صل کر نے کے لئے ریاستی وسا ئل کا بھر پور استعما ل کر تے ہو ئے بغیر کسی جوا بد ہی کے ان وو ٹروں کو نوازا۔امر یکہ میں کلا ئنٹل ازم کا خا تمہ اس وقت ہوا کہ جب 19ویں صدی کے اختتام تک بھر پورصنعتی تر قی نے نئے سر ما یہ دار، پرو فیشنل کا روبا ری افراداور بڑی تعداد میں شہری طبقہ پیدا کیا ،جس کے نتیجہ میں ایک منظم اور کسی حد تک میرٹ کی حا مل بیو رو کریسی وجود میں آئی، جبکہ نان کلا ئنٹل وہ مما لک ہیں جہاں ریا ست کے مستقل اداروں ( بیورو کر یسی) کے منظم ہو نے کے بعد صحیح معنوں میں جمہو ریت آئی ان ممالک میں سیا سی جما عتوں نے اپنے حا می طبقوں یا گروپس کو نوازا تو ضر ور، مگر ریا ستی اداروں کو مکمل طور پر اپنے حامیوں کے لئے استعما ل کر نے میں کامیا ب نہ ہو سکیں،کیو نکہ مضبوط ریا ستی ڈھانچے نے سیا سی جما عتو ں کو ا س امر کی اجا زت نہ دی۔فوکویاما کے مطابق جرمنی، بر طا نیہ، ہالینڈ ، فرا نس اور سکنڈے نیوین مما لک نان کلائنٹل ازم کی حامل جمہو رتیں ہیں۔فوکو یا ماکے مطابق ان ممالک میں جہاں پر حامیوں کو ریا ستی وسا ئل سے نہیں نوازا جا تا وہا ں پر جمہو ریت کے لئے خطرات ایسے جمہوری مما لک کی نسبت کم ہیں کہ جہا ں پر حا میوں کو ریاستی وسا ئل سے نوازا جا تا ہے۔ مغر بی یورپ میں کلائنٹل ازم، یعنی سیا سی حا میوں کو ریا ستی وسا ئل سے اس لئے نہیں نواز اجا سکتا، کیو نکہ ان ممالک میں متوسط طبقہ، ریاست کے آغاز سے ہی سیا سی احتساب اور قا نون کی حکمرانی کے قیا م کے لئے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ فوکویاما کے اس دعویٰ کو اگر بیسویں صدی میں یورپ کے معروض میں دیکھا جا ئے تو یہ دعویٰ درست نظر نہیں آتا۔ بیسویں صدی کی ہی تا ریخ یہ ثا بت کرتی ہے کہ یو رپی متوسط طبقے کی وسیع پرتوں نے معا شی اور سیا سی بحرانوں کے رد عمل میں لبرل جمہو ریت کے خلاف فاشسٹ،نسلی قوم پرستی اور کمیو نسٹ تحر یکو ں کو بھی بھرپور حمایت فرا ہم کی۔جرمنی میں ہٹلر ، اٹلی میں مسو لینی کے عروج ، جبکہ آج کے یو رپ میں نسلی قوم پرست سیا سی جماعتوں کو جو مقبو لیت حا صل ہو رہی ہے اس میں متوسط طبقے کا کردار سب سے زیا دہ ہے.۔اس امر میں کو ئی شبہ نہیں کہ The Origins of Political Order لکھ کر فا کو یا ما نے قدیم تا ریخ سے لے کر اب تک کی سیاسی تا ریخ کو ایک حد تک ریکارڈ کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے،مگر تا ریخ کے حقا ئق کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کو شش کرناکسی بھی طور قابل ستا ئش رویہ نہیں۔ دیگر سیاسی نظاموں کے مقا بلے میں جمہو ری نظام کی خوبیوں سے انکار ممکن نہیں مگر فوکویاما اور مغرب کے سیاسی و معا شی نظام کے حامیوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ جمہوریت کو جب بھی سامراج کی طاقت کے ذریعے مسلط کیا جا تا ہے تو اس کے نتا ئج بڑے بھیا نک ہوتے ہیں۔9/11کے بعد بش انتظامیہ نے با قا عدہ طور پرکئی ممالک میں جمہو ری نظام کے لئے منصوبہ بندی کی۔ افغانستان اور عراق پر حملے کر کے جمہو ریت کے نفا ذ کی کوشش کی گئی آج عراق اور افغا نستان کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ National Endowment for Democracy جیسی کئی این جی اوز کومشرق وسطیٰ ، ایران، مشرقی یورپ اور بالٹک ریاستوں میں جمہوریت کے نفاذ کے لئے امریکی حکمرانوں نے بھر پور مالی امداد بھی فراہم کی۔ اس کے با وجود ان ممالک میں باقاعدہ جمہوری نظام نہیں آسکا۔سیا سی تا ریخ کا ایک اہم درس یہ بھی ہے کہ کسی بھی سیا سی نظام کی کا میا بی کے لئے اس ملک کے اندرونی حالات اور عوامل ہی زیا دہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر کوئی بھی سیا سی نظام چا ہے وہ جمہو ریت ہی کیوں نہ ہو کسی بھی ملک یا خطے میں اسی صورت کامیاب ہوسکتا ہے کہ جب اس سیاسی نظام کے پاس عام انسانوں کی بہبود کے لئے بھی گنجائش موجود ہو۔ *