مذاکرات بھی، احتجاج اور دھمکیاں بھی، کیا یہ چلے گا؟

مذاکرات بھی، احتجاج اور دھمکیاں بھی، کیا یہ چلے گا؟
مذاکرات بھی، احتجاج اور دھمکیاں بھی، کیا یہ چلے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: چودھری خادم حسین
مذاکرات پھر سے شروع ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا گیا، ہم نے درخواست کی تھی کہ آگ بھڑکانے والوں سے خبردار رہا جائے لیکن اب یہ احساس ہوتا جارہا ہے کہ ہمارا اندیشہ بجا تھا کہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ایک گروہ کے ذریعے ملک میں ایسی بے اطمینانی کا ماحول رکھا جائے کہ نوبت کسی ماورائے آئین عمل کی آجائے، اس سلسلے میں سابق بیورو کریٹ روائیداد خان نے گزشتہ شب ٹیلی ویژن پر پوری دنیا کو بتایا کہ جنرل راحیل شریف بے شک مداخلت نہ کرنا چاہیں لیکن عمران خان مجبور کردے گا کہ ملک میں مارشل لاءآجائے۔ دوسری طرف خود عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر کہا کہ پلان سی جاری رہے گا اور صرف جوڈیشل کمشن کے قیام پر ختم ہوگا، پھر انہوں نے اپنا وہی لب و لہجہ استعمال کیا جو وہ کرتے چلے آرہے ہیں، اس پر احسن اقبال کی بڑی معصومانہ بات تھی کہ ایک طرف مذاکرات ہورہے ہیں اور دوسری طرف عمران خان خطاب کرتے ہوئے پھر ذاتیات پر اتر کر چور اور ڈاکو کہہ رہے ہیں، مذاکرات شروع ہوگئے، اگلا دور ہفتے یا اتوار کو متوقع ہے، نتیجہ؟
یہ اچھی بات تھی لیکن جو کچھ کراچی میں ہوا اور جو انداز تحریک انصاف کے رہنماﺅں نے اختیار کیا وہ سوالیہ نشان ہے۔ سندھ کی پیپلز پارٹی حکومت نے فری ہینڈ کا اعلان کیا، امن برقرار رکھنے کی اپیل کی اور نو مقامات پر دھرنے طے ہوئے، متحدہ قومی موومنٹ نے بھی پرامن رہ کر احتجاج کے حق کی تائید کی، وفاقی حکومت کا عمل دخل نہیں تھا، گورنر بھی متحدہ کے ہیں، خود عمران خان نے اعلان کیا کہ کوئی زبردستی نہیں ہوگی کسی کو دکانیں بند کرنے کو نہیں کہا جائے گا، لیکن اسی تحریک انصاف کے کراچی سے رکن اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے واشگاف الفاظ میں کہا ”ہم کراچی بند کرائیں گے“ پوری دنیا نے ٹیلی ویژن پر تحریک انصاف کے کارکنوں کو ٹائر چلا کر پتھر رکھ کر اور دکان داروں کو دھمکیاں دے کر ٹریفک معطل اور دکانیں بند کراتے دیکھا، پولیس کو مداخلت کی اجازت نہیں تھی، پولیس دور سے تماشہ دیکھ رہی تھی اور ڈاکٹر عارف علوی کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے تھے اور خود قیادت کرتے ہوئے راستے بند کرارہے تھے، یہ سب کرکے بھی کہا جارہا تھا احتجاج پرامن ہے۔
اب کراچی کے بعد لاہور کی باری ہے، 15 دسمبر سوموار کو امتحانات بھی ہیں اس روز اولیول اور اے لیول کے بھی امتحانات ہیں، جو ملتوی نہیں ہوں گے، والدین فکر مند ہیں کہ بچوں کے امتحان کا کیا ہوگا؟ کراچی میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں احتجاج کا تاثر تک نہیں تھا اور تحریک انصاف والوں نے ادھر کا رخ بھی نہیں کیا، علاقے کون سے ہیں نام لینے کی بھی ضرورت نہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ کب تک چلے گا اور حکومت کی رٹ کہاں تک چیلنج ہوگی اور جاتی عمرہ کے گھیراﺅ کا کیا بنے گا؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں سے رجوع کرے، ان کو بلا کر مکمل بریفنگ دے کہ یہ سب پرامن احتجاج کو جمہوری حق قرار دے کر کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی بات کرتے ہیں، حکومت کو بہرحال غور کرنا ہوگا اور 15 دسمبر کو لاہور میں کوئی غلط حرکت اور کوئی سانحہ نہیں ہونا چاہیے، چاہے پورا لاہور شہر خاموشاں بن جائے، ہمیں تو بہرحال دفتر آنا ہوگا کہ اخبار چھپنا ہے اور ہمارا حصہ بھی ہوگا۔

مزید :

تجزیہ -