سی آئی اے کے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بننے والوں کو مشرف دور میں حوالے کیا گیا

سی آئی اے کے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بننے والوں کو مشرف دور میں حوالے کیا گیا
سی آئی اے کے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بننے والوں کو مشرف دور میں حوالے کیا گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ویب ڈیسک) پاکستانی دفتر خارجہ نے اگرچہ سی آئی اے کی تشدد رپورٹ کی مذمت کی ہے لیکن بڑی آسانی سے رپورٹ کی اس معلومات کو نظر کردیا کہ امریکی خفیہ ایجنسی کی جانب سے بڑے پیمانے پر غیر انسانی سلوک، تذلیل، تشدد اور نارواں سلوک کا نشانہ بننے والے بہت سے لوگوں کو مشرف میں پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر سی آئی اے کے حوالے کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق قیدیوں پر استعمال کئے گئے سی آئی اے کی بے رحمانہ اور ظالمانہ تفتیشی طریقوں پر مشتمل شرمناک اور ہلا دینے والی رپورٹ میں ان گنت بار پاکستان اور پاکستانی حکام کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کو مطلوب افراد جنہیں پاکستانی حکام نے مشرف دور کے دوران پکڑا انہیں بآسانی سی آئی اے کے حوالے کیا گیا جو انہیں اندوہناک تفتیش کیلئے افغانستان کی جیلوں، امریکا، گوانتاناموبے جیل اور دیگر مقامات پر لے گئی۔ ان میں شامل ابوزبیدہ بھی ہے جسے رپورٹ کے مطابق پاکستان نے ایک ”ملک“ (کہا جاتا ہے کہ افغانستان) کے حوالے کیا جہاں اسے سی آئی اے کے قید خانے میں رکھا گیا۔ ابو زبیدہ نے القاعدہ، شیخ خالد محمد، اس کے ماضی میں امریکا کئے گئے سفر اور پاکستان میں انتہا پسندوں کی عمومی معلومات فراہم کیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ”ملک“ میں سی آئی اے کی غیر تربیت یافتہ تفتیش کاروں نے قید خانے کو بالٹ میں پہلے قیدی روعا النجار پر سی آئی اے کے جدید تفتیشی طریقے استعمال کئے۔ روعاالنجار کو حسن محمد ابوبکر اور دیگر کئی افراد کو مئی 2002ءکے اواخر م یں پاکستان میں ایک چھاپے کے دوران کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ روعا النجار کی شناخت اسامہ بن لادن کے سابق باڈی گارڈ کے طور پر ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق جب سی آئی اے محکمہ انصاف کو یہ وضاحت کررہی تھی کہ سی آئی اے کے جدید تفتیشی طریقے ابوزبیدہ پر استعمال کرنے کی ضرورت کیوں پڑی اس لمحے روعا النجار کے حوالے سے سی آئی اے میں اندرونی مباحثہ چل رہا تھا۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ رمزی بن الشیبہ نے سی آئی اے کو سپردگی سے قبل بیرونی حکومت کی تحویل میں معلومات فراہم کیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 15 ستمبر 2001ءکو سی آئی اے نے رمزی بن الشیبہ کو 11 ستمبر 001ءکے حملوں کے سہولت کار اور نائن الیون کے ہائی جیکروں کے ساتھی کے طور پر شناخت کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک دوسرے دہشت گرد حسن گل کی تلاش میں پاکستانی حکام نے 11 ستمبر 2002ءکو پاکستان میں ایک چھاپے کے دوران غیر متوقع پر رمزی بن الشیبہ کو پکڑلیا۔ اس ماہ رمزی بن الشیبہ کو بیرونی حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ اسی طرح خالد شیخ محمد کو پاکستانی حراست میں رکھا گیا لیکن بعد میں اسے قید خانے کوبالٹ میں سی آئی اے کی تحویل میں دے دیا گیا۔ خالد شیخ محمد پر فی الفور سی آئی اے کی جدید تفتیشی طریقوں کا استعمال کیا گیا۔ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کی وجہ سی آئی اے کا ایک ذریعہ بنا جو پہلی مرتبہ 2001ءکے موسم بہار میں سی آئی اے کی توجہ کا مرکز بنا۔ ذریعہ نے سی آئی اے اور پاکستانی حکام کو براہ راست خالد شیخ محمد تک پہنچایا۔ خالد شیخ محمد کی مارچ 2003ءمیں حوالگی تک اسے پاکستانی حراست میں ہی رکھا گیا۔ اس سے سی آئی اے افسران اور پاکستانی حکام نے پوچھ گچھ کی۔ فروری 2002ءمیں معظم بیگ اسلام آباد میں القاعدہ کے ایک سیف ہاﺅس سے گرفتار ہوا اور اسے بھی گوانتاناموبے جیل میں امریکی فوج کے حوالے کردیا گیا۔ رمزی بن الشیبہ کو 11 ستمبر 2002ءکو پاکستان میں ایک چھاپے کے دوران غیر متوقع طور پر گرفتار کیا گیا حالانکہ ہدف حسن گل تھا۔ ابوزبیدہ کی گرفتاری سے قبل سی آئی اے حسن گل کو ”اہم اہداف میں پہلی ترجیح“ دیتی تھی۔

مزید :

اسلام آباد -