ترقی کا سفر: شفافیت اور احتساب کے ساتھ
9دسمبر عالمی سطح پر انسداد بد عنوانی کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن کا بنیادی مقصد لوگوں میں یہ شعور اجاگر کرنا ہے کہ بد عنوانی معاشرتی بگاڑ میں کتنا گھناؤنا کردار ادا کرتی ہے اور اس کے خاتمے سے معاشرے کیسے مہذب ، ترقی یافتہ اور باشعور بن جاتے ہیں ۔
اس دن کی مناسبت سے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ گوجرانوالہ ریجن کے زیر اہتمام گفٹ یونیورسٹی میں ایک سیمینار کا انعقاد بعنوان ’’ترقی کا سفر،شفافیت اور احتساب کے ساتھ‘‘کیا گیا۔
یہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب بریگیڈئر (ر) مظفر رانجھا کے اس وژن کے عین مطابق تھا جو انہوں نے سرکاری اداروں سے بدعنوانی کے مکمل خاتمے کے لئے طے کر رکھا ہے ۔
اس عظیم الشان اور با مقصد سیمینار کی صدارت کمشنرگوجرانوالہ ڈویژن کیپٹن (ر) محمد آصف اور سیادت ڈائریکٹر ا ینٹی کرپشن گوجرانوالہ ریجن فرید احمد نے کی ۔ مہمانان خصوصی میں اشفاق احمد خان سٹی پولیس آفیسر گوجرانوالہ ، چودھری محمد اقبال گجر ایم پی اے ، حاجی عبدالرؤف مغل ایم پی اے، توفیق احمد بٹ ایم پی اے و چیئرمین پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی گوجرانوالہ ، اکمل سیف چٹھہ ایم پی اے ، مظہر قیوم ناہرا چیئرمین ضلع کونسل گوجرانوالہ ، رانا مقصود احمد ڈپٹی میئر گوجرانوالہ ، حافظ محمد عرفان جنرل مینجرپبلک ریلیشنز سٹار ایشیا نیوز، ڈاکٹر حلیم احمد خان ریذیڈنٹ ڈائریکٹر گوجرانوالہ آرٹس کونسل، چودھری نصراللہ گل صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ، انجم ریاض سیٹھی اے سی جی ، محمد انور ڈار چیئرمین گفٹ یونیورسٹی شامل تھے ،جبکہ مہمانان ذی وقارمیں ڈاکٹر عمر نصیر (چیئرمین ) خالد مغل (چیئرمین ) مولانا جواد قاسمی، مولانا خطیب الرحمان، نسیم صادق چیئرمین عام لوگ پارٹی پاکستان شامل تھے۔
تقریب سے پروفیسر عمران گل ، پروفیسر مشتاق احمد ، محمد اسرائیل ایڈووکیٹ اور مس مقدس فردوس جیسے ماہرین علم و فن نے بھی خطاب کیا۔تلاوت کلامِ پاک کی سعادت ملک کے نامور قاری محترم قاری اسد اعوان نے حاصل کی۔ نذرانہ عقیدت بحضور سرور کائناتﷺ حسن نواز قادری نے پیش کیا ،جبکہ قصیدۂ بردہ شریف پیش کرنے کی سعادت قاری محمد فیاض کے حصہ میں آئی ۔
اس باوقار اور بامقصد تقریب کے روح رواں ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن گوجرانوالہ میاں احسان اللہ تھے۔ دھیمے لہجے میں محبت بکھیرنا حافظ عرفان کا طرۂ امتیاز ہے۔ اس پروگرام کو بھی بامعنی اور بامقصد بنانے کے لئے انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اس سیمینار کے حاضرین میں تمام سرکاری محکموں کے سربراہان ، اہم عہدیداران کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد موجود تھے۔اس قدر پروقار اور پر مغز تقریب کے انعقاد پر یہ دونوں احباب خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
فرید احمد تقریباََ دو ماہ قبل ہی بطور ڈائریکٹر اینٹی کرپشن گوجرانوالہ ریجن تعینات ہوئے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی ریجن بھر سے کر پشن کے خاتمے کے لئے بھرپور اقدامات کئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں ریجن بھر میں کرپشن میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ان کی مختصر کارکردگی یہ ہے کہ صرف ڈیڑھ ماہ میں بد عنوانی میں ملوث انسٹھ سرکاری اہلکاروں کو گرفتار کیا گیاہے۔
پینتالیس کے خلاف جوڈیشل ایکشن لیا جا چکا ہے،جبکہ 7.003ملین روپے کی ریکوری بھی کی جاچکی ہے۔ بلا شبہ یہ فرید احمد کی پیشہ ورانہ مہارت، فرض شناسی اوربلند کردار کی ایک واضح مثال ہے۔
وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں تساہل سے کام نہیں لیتے اور بد عنوان اہلکاروں کے خلاف کارروائی میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے۔ مقررین نے ملک میں موجود بد عنوانی پر روشنی ڈالی اور اس کے سد باب کے لئے مختلف تجاویز پیش کیں۔
مقررین نے کہااس کے بر عکس ہم نے بہت ساری برائیوں اور گناہوں کو اپنی زندگی میں اس طرح شامل کر لیا ہے کہ ان کی بجا آوری میں ہمیں خوف خدا نہیں رہتا یا معاشرے کی ناراضی کا احساس تک نہیں ہوتا۔یہ برائیاں ہماری زندگی میں اس طرح گھل مل گئی ہیں کہ اب یہ برائیاں معمول کا حصہ ہیں اور ان کی بجا آوری گناہ کا تصور تک پیدا نہیں کر پاتی۔
ان برائیوں اور گناہوں میں سے ایک گناہ اور برائی بد عنوانی (Corruption) ہے، جو ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا ناسور ہونے کے باوجود ہمارا معمول ہے۔رشوت لینا تو الگ رہا، رشوت دینا ہماری عادات میں شامل ہو چکا ہے۔
کسی جائزکام کے لئے سفارش بھی کروا لیں تو جب تک اپنے ہاتھوں سے رشوت نہ دے لیں، ہمیں کام ہوجانے کا یقین نہیں ہوتا۔
حکم الہٰی تو یہ ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ ہم اللہ رب العزت کے اس واضح اعلان کے باوجود ہر روزکہیں نہ کہیں جہنم جانے کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ہم میں سے کتنے لوگ ہوں گے جن کے علم میں یہ بات ہو کہ ان کا بیٹا ، بھائی یادیگر جو پچاس ہزار تنخواہ پاتا ہے، لیکن گھر میں ایک لاکھ یا اس سے زائد لاتا ہے اور وہ لوگ اس پر اس کی سر زنش کرتے ہوں۔ شاید ایک بھی نہیں۔۔۔ اگر ہم اپنے بھائی ، بیٹے یا عزیز کو یہ احساس دلا دیں کہ اس کی رشوت کی کمائی حلال اور قابل استعمال نہیں توکیا معاشرے سے بد عنوانی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا؟مطلب یہ کہ معاشرے میں بد عنوانی کے فروغ کے ہم سب ذمہ دار ہیں اور توقع یہ کرتے ہیں کہ معاشرے سے بد عنوانی کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔
پروفیسر عمران گل نے اپنی گفتگو میں ایک واقعہ بیان کیا، اس کا یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ایک شخص اپنے بچوں کے ساتھ چڑیا گھر کی سیر کو گیا۔ وہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کا داخلہ فری تھا ۔
ایک بچہ جس کی عمر پانچ سال دو ماہ تھی، اپنی جسامت کی وجہ سے پانچ سال سے بھی کم عمر نظر آتا تھا۔ٹکٹوں کی خریداری کے دوران اس نے اس بچے کا بھی ٹکٹ مانگا۔ ٹکٹ سیلر نے کہا کہ آپ کا یہ بچہ پانچ سال سے کم نظر آتا ہے، لہٰذا آپ اس بچے کے ٹکٹ کے پیسے بچا سکتے ہیں ، جس پر اس شخص نے جواب دیا کہ بے شک میں اس کی جسامت کا فائدہ اٹھا کر چند روپے بچا سکتا ہوں، لیکن اس کے بعد میرے اس بچے کے ذہن میں دو باتیں ہمیشہ کے لئے بیٹھ جائیں گی کہ میرا باپ ایک کرپٹ انسان ہے اور دوسرا دھوکہ دے کر بدعنوانی کی جا سکتی ہے۔
اس شخص نے اپنے بیٹے کی پر ورش کے لئے چند روپے خرچ کر دیئے، لیکن اپنے بیٹے کے ذہن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ بات ثبت کر دی کہ کردار چند روپوں سے بہت قیمتی ہوتا ہے ۔۔۔محترم قارئین !ذرا سوچئے ہم اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں یا چند روپوں کی بچت کو ترجیح دیتے ہیں ؟ میں اس سیمینار سے یہ بات پلے باندھ کر لایا ہوں ۔ شاید ان سطور کے ذریعے کسی اور کو بھی ان سے سیکھنے کو کچھ ملے۔