طاہر القادری کی روانگی موخر، منہاج القرآن سیکرٹریٹ مرکز بن گیا

طاہر القادری کی روانگی موخر، منہاج القرآن سیکرٹریٹ مرکز بن گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری اس بار ماہ مبارک میں آئے تو ان کی آمد کا مقصد سالانہ میلادؐ کانفرنس میں شرکت اور خطاب تھا جو ہرسال 12-11 ربیع الاول کی شب ہوتی ہے، گزشتہ برس یہ شاہراہ قائد اعظم پر ہوئی، تاہم اس سال انتظامیہ نے حجت کئے بغیر مینار پاکستان پر انعقاد کی اجازت دے دی اور یہ عمل خاموشی سے ہوگیا، مینار پاکستان اور ملحقہ گریٹر اقبال پارک کے سبزے اور پودوں کو جو نقصان پہنچا اور جو گند پھیلا اس کی تلافی بھی پی، ایچ، اے اور دوسرے متعلقہ اداروں نے کی۔ ڈاکٹر طاہر القادری معمول کے مطابق میلادؐ کانفرنس کے بعد مقررہ وقت پر واپس روانہ ہونے والے تھے، وہ خود کہتے ہیں کہ ان کو عمرے کی ادائیگی کے لئے جانا تھا، اس عرصہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے عدالتی تحقیقات کی رپورٹ کے بارے میں فصلہ آگیا اور عدلیہ نے جسٹس نجفی کی رپورٹ شائع کرتے کی ہدائت کردی، صوبائی حکومت نے اس کو بے ضرر جانا ا ور 30روز کی مہلت سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا اور رپورٹ شائع کردی۔
اس رپورٹ کے شائع ہوتے ہی محترم طاہر القادری نے عمرے پر روانگی موخر کردی اور رپورٹ سے از خودہ نتیجہ اخذ کرکے قرار دیا کہ اموات کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ پر عائد ہوتی ہے اور ان کو نہ صرف مستعفی ہونا چاہئے بلکہ ان کے خلاف قتل عمدکے مقدمات چلنا چاہئیں۔ اب یہ تنازعہ بن گیا اور ڈاکٹر طاہر القادری نے مہم بھی شروع کردی اور تحریک شروع کرنے کا اعلان کرنے لگے، اس مرتبہ رپورٹ کے باعث ڈاکٹر طاہر القادری کے دفاتر منہاج القرآن سیکرٹریٹ آباد اور سیاسی جماعتوں کے راہنما اظہار یکجہتی کے لئے آنا شروع ہوگئے، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بھی وفد لے کر آئے اور چودہ افراد کے قتل کا ’’قصاص‘‘ حاصل کرنے کے لئے عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دینے کا اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی اس سلسلے میں تحریک میں معاونت کرے گی۔ بات یہیں تک نہ رہی تحریک انصاف کے جہانگیر ترین بھی وفد کے ساتھ آئے، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے بھی آکر تحریک میں ساتھ دینے کا اعلان کیا اور ان سب کے علاوہ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہٰی نے بھی آکر اپنے تعاون کا یقین دلایا۔پی،ایس، پی کے مصطفی کمال بھی آئے تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے وزیر اعلیٰ اور وزیر قانون سے مستعفی ہونے اور ان کے خلاف مقدمات کا مطالبہ کیا اور کرتے چلے آرہے ہیں، یوں ان کے قیام میں اضافہ ہوگیا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے رپورٹ پر بھی بحث جاری ہے کہ رپورٹ میں تحقیقاتی کمشن کے سربراہ نے از خود کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا اور اختتام پر یہ کہا کہ لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے، بہر حال جب سانحہ ہوا تو اس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے سرکاری طور پر قتل اور زخمی ہونے والوں کے لئے امداد کا بھی اعلان کیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اس کا تعلق سانحہ اور مقدمے سے بالکل نہیں ہوگا لیکن عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اسے قبول نہ کیا اب تحریک کی فکر میں ہیں۔
اس رپورٹ کی اشاعت سے پہلے فیض آباد دھرنا اور اس کے اثرات بھی صوبائی دارالحکومت پر سایہ فگن ہوئے، دھرنے تو ختم ہوئے مگر ان کے نتیجے میں ایک نیا مطالبہ شروع ہوگیا وہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے استعفے کا ہے، اتوار کو فیصل آباد میں ختم نبوت کانفرنس بھی ہوئی اوراس میں رانا ثناء اللہ سے استعفا مانگا گیا کہ استعفے نہ ہوا تو اراکین اسمبلی استعفے دیں گے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے پانچ حضرات نے استعفے جمع کرادیئے جبکہ متعدد بلدیاتی عہدیدار بھی مستعفی ہوگئے اب اگلی کانفرنس لاہور میں منعقد کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے، حکومت اور خود رانا ثناء اللہ نے مطالبہ پورا یا منظور کرنے سے انکار کردیا ہے اور اب یہ الگ تنازعہ شروع ہوچکا ہے، انجام کیا ہوگا اللہ جانے، بہرحال لاہور سرگرم رہا۔
ادھر جمعیت علماء اسلام (ف) کا کاسہ روزہ اجلاس یہاں ہوا، مولانا فضل الرحمان صدارت کے لئے آئے تو انہوں نے آتے ہی آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی پر طنز کی اور اسے یتیم پارٹی قرار دے دیا جواب میں پیپلز پارٹی نے بھی بہت کچھ کہا اور اب پرانے رفیقوں اور حلیفوں کے درمیان بھی سیاسی کھینچا تانی شروع ہوگئی جمعیت علماء اسلام کے اجلاس میں ملک میں امن اور استحکام کی ضرورت پر زور دیا گیا اور مولانا فضل الرحمن نے انتخابات کی بروقت حمائت کا مطالبہ کرکے اپنا وزن مسلم لیگ (ن) کے پلڑے ہی میں ڈالا۔
اورنج لائن میٹرو ٹرین کی تکمیل میں رکاوٹ دور ہوئی، سپریم کورٹ نے اپیل کا فیصلہ سنادیا اور شرائط عائد کرکے اس منصوبے کو مکمل کرنے کی اجازت دے دی، میاں شہباز شریف ایک نئے جذبے کے ساتھ تکمیل میں مصروف ہوگئے اور اس فیصلے سے ان کو بہت فائدہ بھی ہوا ہے، اب وہ دن رات ایک کرکے یہ منصوبہ اپنے دور میں ہی مکمل کرکے چلانا چاہتے ہیں۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ سیاسی انتشار کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں، اشیاء ضروری اور خوردنی بدستور لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں پیاز ٹماٹر سستے ہوکر بھی مہنگے ہیں اور سبزیاں بھی سیزن کے حوالے سے متعین نرخوں تک نہیں آرہیں، انتظامیہ اور حکومت وجوہات دور نہیں کرپارہیں بلکہ پرچون فروشوں کو پکڑنے کا سلسلہ جاری ہے، فارمی مرغی کا گوشت 150روپے سے 210روپے فی کلو ہوگیا جبکہ انڈے (فارمی) 125 روپے درجن سے کم نہیں ہو پارہے، مٹر ایک سو روپے اور پیاز ساٹھ روپے کلو بک رہا ہے اور یہ نرخ سبزی منڈی میں پھڑیوں(دوکان داروں) کے پرچون ہیں، اللہ بھلا کرے میتھی اور گوبھی تک اسی روپے فی کلو بک رہی ہے۔ یہ مہنگائی انتخابی مسئلہ ہی بنے گی اس وقت تو اپوزیشن بھی آواز بلند نہیں کررہی۔

مزید :

ایڈیشن 1 -