وفاق نے بتایا کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد قبائیلی علاقوں کونسا قانون نافذ ہو گا

وفاق نے بتایا کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد قبائیلی علاقوں کونسا قانون نافذ ہو ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عام انتحابات کا ماحول بنتے ہی خیبر پختونحوا کی سیاسی وفد ہی جماعتوں نے فاٹا اصلاحات کے ایشو پر سیاست کرتے ہوئے قبائیلی علاقوں کے انضمام کے مطالبے کو اپنی اپنی پارٹیوں کا ایجنڈا نمبر ایک بنادیا سیاسی وفد ہی جماعتوں کے مطالبے کے دباؤ میں آکر وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ اور سر تاج عزیز نے عجلت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قباےئلی علاقوں رائنج بدنام زمانہ قانون فرنٹیر کرائمز ریگویشن (ایف سی آر )کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا اس اعلان سے لاکھوں قبائیلی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ایف سی آر کا حاتمہ قباےئلی عوام کا ایک دیر ینہ مطالبہ تھا قباےئلی عوام انگریز سامراج کے بتائے گئے اس قانون کی شق 40سے شدید اختلافات رکھتے ہیں ایف سی آر کی شق 40کے تحت گریڈ 18کے سول سروس آفیسر کو پو لٹیکل ایجنٹ کی حثیت سے لامحدود اختیارات حاصل ہیں پولٹیکل ایجنٹ اس شق کے تحت کسی بھی قبائیلی باشندے کو تین سال قید کی سزا سنا سکتا ہے اور مدت پوری ہونے کے بعداسے مزید تین تین سال کے لئے توسیع دئے سکتا ہے اس شق کے تحت اگر کوئی قبائیلی باشندہ کوئی سنگین جرم کرتا ہے تو پولٹیکل انتظامیہ قومی زمہ داری کے تحت اس مجرم کے قوم سے تعلق رکھنے والے افراد کو گرفتار کر کے ان کی دکانیں مارکیٹں کاروبارحتٰی کہ قائم ہاں تک ضبط کر سکتا ہے انگریزسرکار نے یہ قانون قبائیلی علاقوں میں امن وامان کے قیام کے لئے بنا یا تھا مگر گزشتہ کئی عشروں سے اس قانون کو غلط استعمال کرتے ہوئے ذریعہ آمدن بنا دیا گیا جس نے قبائلی باشندوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی اور یون ایف سی آر کے خاتمے کے مطالبے کے شدت اختیار کرنا شروع کر دیا وفاقی وزیر کی طرف سے ایف سی آر کے خاتمے کے اعلان کے بعد وہاں بنیادی کسی قانون کے نفاذ کا ذکر نہیں کیا ان کے اس ادھورے اعلان سے ایک خلاء پیدا ہونا یقینی ہے لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ اعلان سیاسی ہو اور وہ اس پر فوری عملدرآمد کا ارادہ نہ رکھتی ہو مگر قبائلی عوام اب ایف سی آر پر عملدرآمد کیلئے کسی صورت تیار نہ ہوں گے یہ صورتحال خود حکومت کیلئے مشکلات اور پریشانیاں پیدا کر سکتی ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا کے ملحقہ قبائلی علاقوں کے لاکھوں باشندے اس جدید دور میں بھی زندگی کے بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات سے محروم ہیں قبائلی عوام انصاف کے حصول تک سے محروم چلے آ رہے ہیں ان کو ہائیکورٹ سپریم کورٹ تک رسائی کا حق حاصل نہیں ہے گریڈ 18 کا پولیٹیکل ایجنٹ خود ہی مدعی خود ہی جج کی حیثیت رکھتا ہے پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت سے سنائی جانے والی سخت ترین سزاؤں کو کسی بھی اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے کسٹم فری زون علاقہ ڈکلیئر ہونے کے باعث قبائلی علاقے بیورو کریٹ کیلئے سونے کا انڈہ دینے والی مرغیاں بن گئیں جہاں تعیناتی کیلئے بیورو کریٹس کو کروڑوں روپے رشوت دینا پڑتی ہے اربوں روپے کرپشن میں پیدا کرنے والے یہ علاقے آج بھی پینے کے پانی تعلیمی اداروں صحت کے مراکز حتیٰ کہ سڑکوں کی سہولت سے محروم ہیں دہشت گردی کے خاتمے کے بعد پاک افواج نے قبائلی علاقوں میں تعمیر نو اور ترقی کا سفر شروع کیا ہے جس میں قابل تعریف اور قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے سکول کالجز بنائے جا رہے ہیں کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے سحت کے مراکز بنائے جا رہے ہیں مگر اس بات سے انکار نہیں کیا سجتا کہ 70 سال کی محرومیوں کا ازالہ راتوں رات نہیں ہو سکتا یقیناً اس عمل کو مکمل کرنے کیلئے برسوں پر محیط طویل جدوجہد کی ضرورت ہے قبائلی علاقے خصوصاً پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی اقتصادی راہداری اور عالمی تجارت کیلئے گیٹ وے ہونے کے باعث الگ قسم کی اہمیت کا حامل ہے چنانچہ مستقبل قریب میں شروع ہونے والی عالمی تجارت کو محفوظ راشتہ دینے کیلئے قبائلی علاقوں بارے بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ان فیصلوں کے اعلان اور اطلاق میں پہلے ہی غیر معمولی تاخیر ہو چکی ہے جبکہ حالیہ اعلان بھی عجلت میں کیا گیا سیاسی بیان ہی لگتا ہے تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اسلام آباد میں فاٹا یوتھ کنونشن سے خطاب کر کے قبائلی نوجوانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی جبکہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے نوشہرہ کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے آرمی چیف کو یقین دلایا ہے کہ وہ فاٹا کے حالات کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا فاٹا کے انضمام کا جلد از جلد اعلان کیا جائے اور اس پر عملدرآمد کیا جائے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے اس دعوے کو بھی وفاقی وزیر قادر بلوچ کے بیان کی طرح سیاسی بیان ہی سمجھا جا رہا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختونخوا میں اپنے انتخابی دعوؤں پر عملدراامد کرانے میں بری طرح ناکام رہی ہے جس کا اعتراف ایک سے زائد مرتبہ عمران خان اور خود وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کر چکے ہیں جبکہ دودسری طرف اس حقیقیت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ قبائلی علاقوں کو کنٹرول کرنا ایک مشکل ترین عمل ہے کسی بھی سیاسی یا مذہبی پارٹی کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ تنہا قبائلی علاقوں کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ کرے ممکن ہے کہ بعض سیاسی قوتوں کو یہ بات بری لگے مگر آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ قبائلی علاقوں کو کنٹرول کرنے کیلئے جمہوری قوتوں کو فوج کی معاونت کی ضرورت پیش آئے گی سیاسی قوتوں کو قبئالی علاقوں پر مکمل دسترس حاصل کرنے کیلئے طویل مراحل سے گزرنا ہو گا تاہم یہ بات خوش آئندہ ہے کہ 70 سال بعد لاکھوں قبائلی قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنے علاقوں کی خدمت کر سکیں گے یہ قبائل 70 برسوں تک ہمارے مغربی سرحدوں کے بغیر تنخواہ کے سپاہی کی ڈیوٹی دیتے رہے ہیں پاکستنا کے قبائلی پاکستنا اور اسلام سے بے پناہ محبت کرنے اور اپنی جان دینے والے لوگ ہیں قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد یہ لوگ پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے مغربی سرحدوں کی حفاظت کر پائینگے اور اپنی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کر پائینگے مگر ان اہداف تک رسائی کیلئے سیاسی قوتوں میں سنجیدگی کی ضرورت ہے جو کہ بظاہر فی الحال نظر نہیں آ رہی۔

مزید :

ایڈیشن 1 -