احتساب، بلا امتیاز ہو، قومی مفاہمت کی ضرورت!
قومی احتساب بیورو (نیب) کی بدولت سیاست میں گرما گرمی بڑھ گئی اور اختلافات مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر ریلوے قومی اسمبلی کے رکن خواجہ سعد رفیق اور ان کے چھوٹے بھائی سابق صوبائی وزیر پنجاب اسمبلی کے رکن خواجہ سلمان رفیق لاہور ہائی کورٹ کے احاطہ سے پیراگون سٹی سکینڈل میں گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ سعد رفیق اور سلمان رفیق ہائی کورٹ سے تحفظاتی ضمانت حاصل کئے ہوئے تھے۔
گزشتہ روز تاریخ مقرر تھی۔ نیب کی طرف سے اس بار قیصر امین بٹ کے اقبالی بیان پر زیادہ انحصار کیا گیا تھا کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اور ان کے بیان سے استغاثہ کے موقف کی تائید ہوتی تھی۔ اگرچہ خواجہ برادران کے وکیل نے اس بیان کو جبر سے موسوم کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ قیصر امین بٹ کو نشہ آور ادویات استعمال کراکے ان سے مرضی کے خلاف یہ بیان حاصل کیا گیا۔
تاہم فاضل جج نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور عبوری ضمانت منسوخ کرکے درخواست خارج کر دی۔ اس کے بعد نیب نے احاطہ عدالت سے دونوں بھائیوں کو حراست میں لے لیا اور گزشتہ روز احتساب عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ بھی حاصل کرلیا۔
خواجہ سعد اور خواجہ سلمان کی گرفتاری ہی کے روز ایک دوسرا واقع بھی ہوا، پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہبازشریف لاہور ایئرپورٹ سے لندن جا رہے تھے کہ ان کو جانے سے روک دیا گیا اور وہ واپس گھر آ گئے۔ حکام کے مطابق ان کا نام بلیک لسٹ میں ہے۔ بعدازاں بتایا گیا کہ ای سی ایل میں ہے۔یوں ہر دو واقعات نے علیحدہ علیحدہ نوعیت ہونے کے باوجود ایک سیاسی ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
خود خواجہ سعد رفیق نے تو گرفتار ہونے سے قبل احاطہ ہائی کورٹ میں اپنے کارکن ساتھیوں سے خطاب بھی کر لیا اور ان کو پرامن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے نیب پر تنقید کی۔ بہرحال وہ نیب کی تحویل میں ہیں، حراست ان کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ، ماضی میں بھی کئی بار زیر حراست رہ چکے ہیں تاہم نوعیت مختلف تھی اب اور ہے۔
ان حضرات کی گرفتاری سے قبل سابق وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف گرفتار ہوئے جسمانی ریمانڈ پورے کئے اور اب جیل میں ہیں، اگرچہ اس دوران سپیکر قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر کی رو سے وہ اجلاس میں شرکت کے لئے گئے اور اب بھی اسلام آباد میں ہیں، تاہم جب خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کی اطلاع پر اراکین مسلم لیگ (ن) نے ایوان ہی میں کہا کہ خواجہ سعد رفیق بھی رکن ہیں ان کو بھی بلایا جائے تو ڈپٹی سپیکر نے جو صدارت کر رہے تھے معذرت کر لی کہ ان کے پاس یہ اختیارات نہیں ہیں۔
بہرحال یہ فیصلہ بھی سپیکر کریں گے اور خواجہ سلمان رفیق کی پنجاب اسمبلی میں آمد سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے پروڈکشن آرڈر سے مشروط ہے۔ اس کے علاوہ یہ خبر بھی چل رہی ہے کہ سابق وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب کے اثاثوں کی بھی تحقیقات شروع ہے۔ خواجہ آصف اور کئی دوسرے حضرات بھی نیب کے راڈار پر ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کے اراکین اپنا احتجاج کر رہے ہیں تو پیپلزپارٹی اپنے طور پر معترض ہے۔ آصف علی زرداری ، ان کی ہمشیرہ بھی عبوری ضمانت پر ہیں، اومنی کمپنی کے کرتا دھرتا جیل میں ہیں،منی لانڈرنگ سکینڈل کی تحقیقات جے آئی ٹی کر رہی ہے۔
اس سے قبل ڈاکٹر عاصم جیل یاترا کے بعد ضمانت پر اور شرجیل میمن جیل میں ہیں، اب ایف آئی اے نے بلاول بھٹو زرداری کو بھی طلب کیا ہے، دونوں باپ بیٹے کو آج (جمعرات) راولپنڈی میں پیش ہونا ہے۔ بلاول پہلے سوالنامے کا جواب دے چکے ہیں اور اب ان کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ذاتی طور پر جائیں یا وکلاء پیش ہوں۔(تادم تحریر اس اجلاس کی کارروائی جاری ہے)۔۔۔یوں صورت حال یہ بنی کہ ماضی میں برسراقتدار رہنے والی دو جماعتوں کے رہنما ماضی کا کیا ’’بھگت‘‘ رہے ہیں۔سابق وزرائے اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی مشکل میں ہیں۔
چنانچہ دکھ سانجھا ہوا تو درد بھی اٹھا اور اب آصف علی زرداری نے کھل کر خواجہ برادران کو حراست میں لینے کی مذمت کر دی ہے، جبکہ پنجاب سے سینٹ کے ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے اعلان کرکے ووٹ مسلم لیگ (ن) کو دیئے اور اب خواجہ سعد رفیق کی خالی کردہ صوبائی اسمبلی 168کی نشست پر بھی پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمائت کر رہی ہے۔
اس صورت حال میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ آصف زرداری اور نوازشریف کی سیاست ختم اور ان کو اب جیل میں رہنا ہوگا، ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ شریف اور خواجہ فیملی یا آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات ان کی حکومت سے پہلے کے ہیں اور ان کی حکومت نے نہیں بنائے۔ تاہم پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) تو انتقام کا الزام لگا کر تحریک انصاف کی حکومت کو قصور وار ٹھہرا رہی ہے، اور یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ اعظم سواتی کے خلاف ’’انصاف‘‘ کیوں نہ ہوا اور علیمہ خان کو کوئی نہیں پوچھ رہا، جہانگیر ترین نااہل ٹھہر کر بھی مزے لے رہے ہیں اور ان کے اپنے بیان کے بعد بھی ان سے تعرض نہیں کیا جا رہا، اس کے علاوہ خود تحریک انصاف کی صفوں میں جو حضرات پناہ لئے ہوئے ہیں وہ انصاف کے کٹہرے میں کب آئیں گے۔
یوں بھی یہ دلچسپ کھیل ہے جو سالہا سال سے ہوتا آ رہا ہے کہ برسراقتدار مزے میں اور اپوزیشن تکلیف میں ہوتی ہے اور اب بھی وہی صورت حال ہے ۔
حالانکہ یہ صورت امتیازی سلوک کی بنتی ہے جو نہیں ہونا چاہیے، پاکستان سنگین معاشی اور اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ عوام غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور جرائم کے ہاتھوں پس کر رہ گئے ہیں۔ بیرونی جارحیت، مداخلت اور دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں۔ امریکہ کا حالیہ اقدام تعصب پر مبنی تاہم مزید دباؤکا حربہ ہے، ایسے میں ہم نے ہمیشہ قومی مفاہمت کی بات کی اور اب بھی کہتے ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی دو آرا نہیں ہر کوئی چاہتا ہے کہ ایسا ہو۔
لیکن اجتماعی قومی مفادات کو تو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا یہ قومی مفاہمت کا تقاضا کرتے ہیں جہاں تک احتساب کا تعلق ہے تو اس پر بھی اتفاق رائے ممکن ہے کہ بلا امتیاز اور غیر جانبدارانہ احتساب ہو۔
ہم نے اپنی طرف سے رائے نہیں دی کہ حالات کا عکس ہی دکھانا مقصود ہے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام کے لئے راہیں تلاش کی جائیں۔ ہم کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کرتے کرپشن جس نے بھی کی وہ جواب دہ ہو۔ لیکن یک طرفہ کارروائی کا تاثر نہیں ہونا چاہیے، اس پر بہت کچھ کہنے کو جی تو چاہتا ہے لیکن جگہ کی قلت آڑے ہے۔ پھر سہی!