ہائی کورٹ بنچوں کا قیام
پنجاب کے پانچ ڈویژنل صدر مقامات فیصل آباد، گوجر انوالہ، سرگودھا، ساہیوال اور ڈیرہ غازی خان میں لاہور ہائی کورٹ کے تحت، بنچوں کے قیام کا مطالبہ گزشتہ دود ہائیوں سے قبل کا چلا آرہا ہے۔ اس مدت کے دوران ان میں شامل شہروں، قصبات اور دیہات کی آبادی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ عام لوگ اور وکلاء صاحبان گاہے بگاہے ماضی قریب میں، اپنا یہ مطالبہ تسلسل سے کرتے آرہے ہیں لیکن حکمران طبقے متعلقہ عدالتی حکام اور جج صاحبان تا حال اس معاملے میں اپنی رضا مندی اور آئینی وقانونی منظوری سے گریز پا ہیں ۔
کیا یہ گزارش ان علاقوں کے اکثر یتی عوام کے روز مرہ مسائل اور مصائب کے حل کے لئے مطلوبہ تجویز اور اقدام درست اور مناسب نہیں ہے؟ جبکہ راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں کئی سال سے لاہور ہائی کورٹ کے بنچ کام کر رہے ہیں۔
اس لئے ان علاقوں کے لوگوں کو لاہور جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یوں ان کی جانب سے قریبی مقامات پر ہائیکورٹ کی عدالتیں دستیاب ہونے سے آمدورفت کی مشکلات اور قیمتی وقت ضائع ہونے کے امکانات خاصے کم ہو گئے ہیں۔ ایسی سہولتیں جلد اور سستے انصاف کی عوام کو فراہمی کے لئے کافی حد تک سود مند اور معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ جب مقدمہ بازی میں ملوث لوگوں کو عدالتوں تک رسائی کے لئے طویل سفر کرنا پڑتا ہے،دور دراز مقامات کے سفری لوازمات کے علاوہ سماعت چند روز یا ہفتوں تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ ایسی کاروائیاں کئی مہینوں اور برسوں تک چلتی رہتی ہیں۔
اگر کوئی ابتدائی عدالت فریقین کے درمیان فیصلہ کر دے تو ابسے فیصلوں کو مخالف حضرات اور خواتین کی خاصی تعداد، ان سے بڑ ی متعلقہ عدالتوں میں چیلنج کر دیتی ہے کیونکہ وہ ماتحت عدالتی فیصلوں میں آئینی وقانونی اور حقائق کے صحیح جائز کاری اور منصفانہ انداز کے اصولوں کے مطابق مناسب جانچ پڑتال کو عدلیہ کے سنیئر جج صاحبان کے سامنے پیش کر کے اور وہاں اپنی گزارشات سنا کر، ماتحت عدالتی فیصلوں کے خلاف اپنی پسند اور مرضی کے مطابق فیصلے حاصل کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں۔
مقدمہ باز حضرات کو علم ہے کہ ہمارے ملک میں، کئی ماہ اور سالوں کے لئے محض بظاہر مختصر نوعیت کے امور بھی، تاخیر اور طوالت کا شکار ہوتے ہیں اور جب تک کسی مقدمے کا حتمی فیصلہ نہ ہو جائے تو اس میں متعلقہ فریقوں کو عدالت مذکور میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ کیونکہ وہاں حاضر نہ ہونے والے فریق کے خلاف یکطرفہ کارروائی ہونے سے، اس کے متعلقہ مفادات کو نقصان ہو سکتا ہے۔
قانونی معاونت کے لئے وکلاء صاحبان کی خدمات لی جاتی ہیں، لیکن مالی اخراجات، متعلقہ فریقوں کو ہی ادا کرنا پڑتے ہیں۔حکومت جنوبی صوبہ کے قیام کے لئے تو بڑی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن بعض امور اس کے اختیارات سے سردست باہر ہیں۔
مثلاً پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت اور ایوان بالا یعنی سینٹ میں بھی، حکمران جماعت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے۔ غالباً اس عددی اکثریت کی کمی، صوبہ پنجاب کے قیام میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔فوری طور پر یہ کمی پورا ہونا ممکن بھی نہیں لگتا شاید آئندہ کچھ مدت میں سیاسی حالات میں کوئی تبدیلی رونما ہونے سے کسی جانب مخالفت یا موافقت میں صورت حال قدرے مختلف ہو جائے تو صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے امکانات روشن یا خراب ہو جائیں، لیکن فی الحال پنجاب حکومت، اس بارے میں اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔
جبکہ صوبہ پنجاب کا صدر مقام کبھی کبھی ملتان یا بہاولپور بنانے کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں کیونکہ ان مقامات کے قریب رہائش پذیر عوامی نمائندے، اپنے لئے بہتر مفادات پر مبنی شہروں کو زیادہ مناسب اور قابل ترجیح قرار دے کر، ان کو حتمی طور پر منتخب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ تا حال وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور اراکین پنجاب اسمبلی کی اکثریت کی جانب سے مذکورہ بالا دونوں مقامات میں سے کسی ایک کو حتمی طور پر تسلیم کرنے کا کوئی فیصلہ یا عندیہ نہیں دیا گیا۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے بھی کچھ عرصہ قبل بہاولپور کی سابق ریاست کو بطور صوبہ پنجاب بحال کرنے کا بیان دیا تھا۔ یاد رہے کہ ہائیکورٹ کے بنچوں کا قیام بااثر محبّ وطن غیر جانبدار اور انصاف پسند، عوام کی نظروں میں، صوبہ پنجاب کے قیام سے کہیں بہتر، قابل ترجیح، جلد قابل قدر اہم اور ضروری مطالبہ ہے۔ لیکن یہ امر افسوس ناک ہے۔
کہ وزیر اعظم عمران خان ، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، جہانگیر ترین اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی اور سینٹ مذکورہ بالا پنجاب کے مقامات پر مطلوبہ بنچوں کے قیام سے تاحال عدم دلچسپی، خاموشی اور چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا کرنا، ان کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔
جبکہ اکثر غیر جانبدار حضرات تسلیم کرتے ہیں کہ معاملہ ہذا میں کوئی مفاد پرستی اور منافقت مضمر نہیں۔ لہذا مذکورہ بالا مقامات پر، ہائیکورٹ بنچوں کا قیام، عوام کو جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لئے اشد ضروری ہے۔