’اِک گناہ اور سہی۔۔۔‘‘
خواتین و حضرات حکومت نے سگریٹ نوشی پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹیکس سے جمع شدہ آمدنی شعبہ صحت پر خرچ کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق ’’گناہ ٹیکس‘‘ کی آمدن کو وزیراعظم ہیلتھ پروگرام کے تحت استعمال کیا جائے گا۔ 5 تا 15روپے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز زیر غور ہے اور اس سلسلے میں جلد ایک بل پارلیمینٹ میں پیش کیا جائے گا۔
اس معاملے پر سیاسی،علمی، ادبی اور معاشرتی حلقوں میں دلچسپ بحث چھڑ گئی ہے۔ خود فیصل واوڈا نے اسے ’گناہ ٹیکس‘‘ کا نام دینے پر اعتراض کیا ہے۔ اس سے قبل کھلے سگریٹ،یعنی ایک دو سگریٹ فروخت کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جو ایک بہت احسن اور موثر قدم ہے۔
اس سے کم از کم نوجوان طبقے اور سٹوڈنٹس کو جو ایک دو سگریٹ خریدتے تھے اور گھر آنے سے پہلے پی پلا کے آتے تھے، سگریٹ نوشی میں کمی ہونے کا موثر ذریعہ ہیں۔خواتین و حضرات سگریٹ نوشی کو اگر گناہ کے زمرے میں لاتے ہیں تو پھر ادبی حلقوں میں کھلبلی مچ جائے گی، کیونکہ فیض احمد فیض اور احمد فراز، بالخصوص ہر ہر تصویر میں انگلیوں میں سگریٹ/ سگار دبائے نظر آتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ادبی و تخلیقی کام ہوتا ہی چائے اور سگریٹ کا مرہونِ منت ہے۔ اسی طرح صادقین اور خواجہ خورشید انور ہر وقت انگلیوں میں سگریٹ لئے نظر آتے تھے۔ کیا ہم انہیں گناہ کے زمرے میں لائیں گے۔
اپنے شیخ رشید سب سے پہلے دھرے جائیں گے۔سگریٹ کے علاوہ بھی بعض ایسی اشیاء ہیں جو اگر گناہ نہیں تو کم از کم فضول خرچی میں ضرور آتی ہیں۔مثلاً ہوٹلوں اور فوڈ سٹریٹ پر ایک نشست میں ہزاروں کا کھانا کھا جانے والوں پر ’’خوش خوراکی ٹیکس‘‘ لگ سکتا ہے۔
صرف ایک دن استعمال کے لئے لاکھوں روپے کے دلہن اور دلہا کے لباس پر ’’لہنگا ٹیکس‘‘ اور ’’شیروانی ٹیکس‘‘ لگ سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ سب معاشرتی اور ثقافتی معاملات ہیں اور ان کو اخلاقی اور معاشرتی طور پر حل کرنا چاہئے۔
جیسے جھوٹ بولنے، شیخی مارنے، غیبت کرنے، مغرور ہونے وغیرہ پر کوئی تعزیر نہیں لگائی جا سکتی، اسی طرح سگریٹ نوشی کو بطورگناہ،روکنامشکل ہے۔تاہم اس کی قیمت بڑھانے یا کھلے سگریٹ فروخت کر کے ہم سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی ضرور کر سکتے ہیں،لیکن حکومت پہلے ہی سگریٹ پر مختلف قسم کے ٹیکس، ڈیوٹی اور سرچارج لگا کر، کر چکی ہے۔
دوسری جانب ہر حکومت ٹیکس لگانے میں شیر ہوتی ہے اور ٹیکس لگانے کے نت نئے بہانے تلاش کرتی رہتی ہے، موقع پیدا کرتی ہے اور اسے رواج دیتی ہے۔ حکومت کے لئے ایک مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور اپنے آپ کو ٹیکس ادا کرنے کے زمرے میں آنے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، اپنی آمدنی چھپاتے ہیں۔ اکثر حکومت کے لئے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کس طرح اندازہ لگائے کہ کون ٹیکس ادا کرنے کی مد میں آ گیا ہے اور اُس سے انکم ٹیکس لینا ضروری ہو گیا ہے۔
اس مقصد کے لئے ہم حکومت کے لئے چند مشورے دے رہے ہیں، جس سے ان کا کام آسان ہو جائے گا اور لوگوں کی آمدنی کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔اب وہ حالات ہو گئے ہیں کہ ہر شخص انکم ٹیکس دینے سے گھبرانا ہے۔ سیاست دان تو چاہتے ہیں کہ نہ تو اُن سے اُن کی آمدنی کے بارے میں پوچھا جائے اور نہ ہی ٹیکس کی بات کی جائے۔
اُن کی اور عام لوگوں کی، جو ٹیکس دینے سے گریزاں ہیں، ٹیکس دھندہ کہلانا ہی نہیں چاہتے۔اُن کے نزدیک ٹیکس دینے والے ٹیکس دھندگان نہیں، بلکہ ’’ٹیکس زدگان‘‘ ہیں۔ یہ ایک بالکل نئی اصطلاح ہے۔
جیسے سیلاب سے متاثرہ ’’سیلاب زدگان‘‘ کہلاتے ہیں، زلزلہ سے متاثر ہونے والے ’’زلزلہ زدگان‘‘ کہلاتے ہیں، اب بادل ناخواستہ ٹیکس جمع کرانے والے ’’ٹیکس زدگان‘‘ کہلائیں گے، کیونکہ یہ انکم ٹیکس کی زد میں آ گئے ہیں۔
اگر حکومت خفیہ دولت مند اور ٹیکس نہ ادا کرنے والوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتی ہے تو یہ کارروائی کرے۔اگر کسی شخص کو تلی ہوئی مچھلی خریدتا دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ اُس کے پاس خوب فالتو پیسہ ہے کہ وہ سات سو سے ایک ہزار روپے کلو تک کی تلی ہوئی مچھلی کس بے نیازی سے خرید رہا ہے۔ اگر کوئی شخص پھل کی دکان سے تین چار کلو سیب یا انار تلوائے تو سمجھ لیں کہ یہ شخص بھی ٹیکس زدگان میں آتا ہے۔
اسی طرح رکشہ میں سفر کرنا بھی اب ایک عیاشی ہے۔ایسا شخص بھی ٹیکس زدگان میں شمار ہوتا ہے۔ان سب پر آمدنی سے زیادہ اخراجات کرنے کا مقدمہ بھی آسانی سے بن سکتا ہے۔
خواتین و حضرات سبزی فروش کو آپ معمولی آدمی نہ تصور کریں۔کسی کو سبزی بیچتا دیکھیں تو سمجھ لیں کہ آپ کسی لکھ پتی کو دیکھ رہے ہیں۔ایسے بے شمار لوگ ہیں،جو کاروبار تو لاکھوں کا کر رہے ہیں اور کما بھی خوب رہے ہیں،مگر وہ ٹیکس زدگان نہیں۔
ہر وہ دکاندار جو آپ کو سامان کی رسید نہیں دیتا اور رسید طلب کرنے پر آپ پر طنز کرتا ہے، ٹچکریاں کرتا ہے وہ بھی ٹیکس ادا کرنے کی زد میں آتا ہے۔ رہ گئے بے چارے سگریٹ نوش، تو اس قوم کو سگریٹ نوشی کی اتنی بڑی سزا نہیں دینی چاہئے کہ اُنہیں گناہ گار سمجھ کر گناہ ٹیکس لگا دیا جائے۔
حکومت بے شمار اشیاء اور مدوں میں ٹیکس وصول کر رہی ہے تو ان لوگوں کو جو سگریٹ پر پہلے ہی کئی قسم کے ٹیکس، ڈیوٹی اور سرچارج وغیرہ ادا کرتے ہیں، اب گناہ ٹیکس کی زد میں بھی آ جائیں گے۔ یہ لوگ خاصے پریشان ہیں اور گھبرائے ہوئے پھر رہے ہیں۔اس کی تصویر سید زاہد رمزی کا یہ شعر ہے،جو ترمیم کے ساتھ پیشِ خدمت ہے:
کیسے گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں
تیرے محسن تیرے ٹیکس زدگان
خواتین و حضرات اس سلسلے میں ہمیں استاد دامن کی سوچ کی داد دینا پڑے گی۔انہوں نے آج سے بہت سال پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مُلک میں ٹیکسوں کی بے جا بھر مار ہے۔ فرماتے ہیں:
اج زمین تے ٹیکس مکان تے ٹیکس
لگا تھڑے تے ٹیکس دکان تے ٹیکس
ایتھے ڈیوڑھی تے ٹیکس دلان تے ٹیکس
لگا ہویا اے ہر انسان تے ٹیکس
روٹی بُھکیاں نُوں کدے دین ناہیں
لا دیوندے نیں رج کھان تے ٹیکس
ایس واسطے دامن میں بولدا نئیں
کِتے لگ نہ جاوے زبان تے ٹیکس
اگر آپ کو یاد ہو تو صبیحہ خانم کی ایک فلم ’’اِک گناہ اور سہی‘‘ کے آخری سین میں، جس میں انہوں نے ایک نائیکہ کا کردار ’ممی ‘ ادا کیا تھا، ایک گاہک کی بدسلوکی سے تنگ آ کر اُسے گولی مار دیتی ہے اور یہ ڈائیلاگ بولتی ہے،’’ممی نے اپنی زندگی میں بہت گناہ کیے ہیں۔۔۔ اِک گناہ اور سہی‘‘۔۔۔اسی طرح اگر سگریٹ نوشی کرنے والے یہ گناہ (اگر یہ گناہ ہے) کر رہے ہیں تو اس گناہ کی سزا کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑا جائے، حکومت اسے اپنے ہاتھ میں لے کر ’’گناہ ٹیکس‘‘ عائد کر کے گناہ گار نہ بنے۔