میاں صاحب ایسا تو نہ کہیں
پروفیسر نعیم اشرف کا کہنا ہے کہ حالات نے میاں نوازشریف کے اندر ایک شاعر کو جنم دیا ہے۔ وہ باقاعدہ شاعری تو نہیں کر رہے،تاہم ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دکھی شاعر کی طرح اپنا حال دل سنانے لگے ہیں۔
یہ انہوں نے میاں صاحب کی اس بات کے جواب میں کہا جو انہوں نے نیب عدالت کے باہر کی، اور کہا کہ اب ہم ہنس تو کیا کھل کر رو بھی نہیں سکتے۔ نعیم اشرف کا کہنا تھا یہ کسی سیاستدان کی لغت نہیں،یہ تو ایک شاعر کی زبان ہے، جس میں وہ نہایت نفیس اور شاعرانہ انداز میں اپنا دکھ بیان کرتا ہے۔ بات نعیم اشرف نے بالکل ٹھیک کی ہے۔
میاں صاحب کے اس جواب نے واقعی دکھی کر دیا۔یہ بات اس شخص نے کی ہے، جو ملک کا تین بار وزیر اعظم رہ چکا ہے، جس کی جماعت کے رہنما ان کے آہنی عزم کی مثالیں دیتے تھے۔ حال ہی میں گرفتار ہونے والے خواجہ سعد رفیق نے تو انہیں لوہے کا چنا قرار دیا تھا، جسے نگلا یا چبایا نہیں جا سکتا، مگر میاں صاحب کی یہ بات سن کر اور ان کی آنکھوں میں تیرتی نمی دیکھ کر دکھ سا ہوا۔
سختیء حالات نے ایک لیڈر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ کیا یہ جملہ خود رحمی کے شکار ایک شخص کا تھا، کیا اسے مایوسی کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا نوازشریف واقعی ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں، کیا انہیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی؟ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ میاں صاحب ایک افسردہ آدمی کا پر تو بن گئے ہیں، جو اپنے ورکروں کو حوصلہ تک دینے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔
ایک سادہ سی بات تو یہ کہی جا سکتی ہے کہ میاں صاحب کو بیگم کلثوم نواز کی وفات نے توڑ پھوڑ دیا ہے۔ ان کی رفاقت میاں صاحب کے لئے یقیناً ایک بڑی طاقت تھی۔ پرویز مشرف کے دور میں شریف خاندان پر جب دور ابتلا آیا تو بیگم کلثوم نواز نے مشکلات کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور اس وقت تک میدان میں ڈٹی رہیں، جب تک خاندان کو مشکلات سے نکال نہیں لیا۔
پھر اتنی طویل رفاقت کا خاتمہ، بچوں سے جدائی، قید و بند، مقدمات، پارٹی کی بے وفائی اور مستقبل کے حوالے سے نا اُمیدی یقیناً ایسے عوامل ہیں جنہوں نے نوازشریف جیسے لیڈر کو مظلومیت کی داستان بنا دیا ہے۔ شاید ہی دنیا کے کسی ایسے لیڈر کی زبان سے، جو تین بار ملک کا سربراہِ حکومت رہ چکا ہو، ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہو، ایسا جملہ سنا گیا ہو جو نوازشریف نے کہا۔ کیا نوازشریف یہ سب کچھ شعوری طور پر کر رہے ہیں یا ان کی کیفیت یہ سب کچھ کروا رہی ہے۔
ابھی تو اس سوال کا جواب بھی نہیں مل رہا کہ میاں صاحب نے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے، سیاست سے لاتعلقی کس وجہ سے ہے اور ان کے لہجے میں جو گھن گرج تھی وہ کیا ہوئی؟ کیا نوازشریف یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے پاناما کیس فیصلے کے بعد جو راستہ اختیار کیا تھا، وہ غلط تھا، کیا ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر انہوں نے فوج اور عدلیہ سے جو محاذ آرائی کی تھی،وہ نامناسب تھی؟ اگر ایسا ہے تو میاں صاحب کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بہت دیر کر دی۔
اس زمانے میں بہت سے لوگ تھے انہیں سمجھانے والے، شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان بھی یہی کہتے تھے کہ محاذ آرائی کا راستہ اختیار نہ کریں، مگر میاں صاحب ان رہنماؤں کے حصار میں تھے جو اس نظریئے کے حامی تھے۔۔۔’’چڑھ جا بچہ سولی، رام بھلی کرے گا‘‘۔۔۔ ایک عام آدمی بھی اس بات کو سمجھتا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جی ٹی روڈ کے احتجاج سے نہیں بدلا جا سکتا، مگر میاں صاحب اسے بدلنے پر بضد تھے۔
سونے پہ سہاگہ مریم نواز کی سخت تنقید اور توہین پر مبنی تقاریر تھیں جو وہ ’’مٹھی بھر‘‘ ججوں کے خلاف کرتی تھیں، سو معاملات تو خود میاں صاحب نے خراب کئے۔ دوش کسی اور کو کیسے دیں؟
نوازشریف کے مایوس ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب بیگم کلثوم نواز سے لندن میں آخری ملاقات کے بعد وہ مریم نواز کے ہمراہ اس وقت پاکستان آئے جب انہیں احتساب عدالت سے سزا ہو چکی تھی، تو ان کا خیال تھا لاہور ایئرپورٹ پر عوام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال کو اُمنڈ آئے گا،وہ اس سے خطاب کریں گے، مرضی ہو گی تو گرفتاری دیں گے وگرنہ جاتی امراء چلے جائیں گے، مگر اس دن جو ہوا وہ تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے۔
شہباز شریف صبح سے جلوس کی قیادت کرتے لاہور کی سڑکوں پر گھومتے رہے، لیکن ایئرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ باقی قیادت بھی اپنے قائد کا استقبال کرنے ایئرپورٹ تک نہ آئی، وہ بے چارگی کے عالم میں ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کر کے اسلام آباد لے جائے گئے اور واپسی کے ڈرامائی شو کی کہانی بری طرح فلاپ ہو گئی۔ یہ نوازشریف کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ میرا خیال ہے مسلم لیگ (ن) سے لاتعلق ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، جس پارٹی کو وہ اپنی طاقت سمجھتے رہے، وہ عین موقع پر دھوکہ دے گئی۔ اس کا احساس تو انہیں جی ٹی روڈ پر لانگ مارچ کے دوران بھی ہو گیا تھا، لیکن سزا سنائے جانے کے بعد لندن سے گرفتاری دینے آنا ایک بڑا فیصلہ تھا اور میاں صاحب کی توقعات بھی بہت اونچی تھیں،تاہم سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا اور میاں صاحب ایک عام سے لیڈر کی طرح اڈیالہ جیل میں قید کر دیئے گئے۔
نیب عدالت میں روزانہ پیشی بھی تو ایک بڑی سزا ہے۔عام آدمی بھی عدالت میں روزانہ طلب کیا جائے تو زچ ہو جاتا ہے، یہاں تو معاملہ ایک 67 سالہ شخص کا ہے، جو ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم رہا ہے، روزانہ کٹہرے میں کھڑے ہونا، انسان کے اعصاب شل کر دیتا ہے۔ پہلے کسی کی تاریخ نکلتی تھی تو وہ چار دن پہلے اس کی تیاری شروع کر دیتا تھا۔ میاں صاحب کو تو روزانہ یہ ’’ڈیوٹی‘‘ اداکرنا پڑ رہی ہے، پھر عدالت میں کہنے کو کچھ ہے بھی نہیں، سوائے ہر بات سے انکار کے، سو ایسے میں ایک اور سزا کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلے کے لئے24 دسمبر کی ڈیڈ لائن بھی مقرر ہے، سو میاں صاحب کے لئے یہ کہاں ممکن ہے کہ دھواں دھار سیاست کریں، نظام کو للکاریں۔
پھر ایسا کر کے وہ حاصل بھی کیا کر سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ کر کے تو انہوں نے دیکھ لیا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ اپنے سخت مؤقف کی وجہ سے پارٹی کے چند سر پھروں کے سوا باقی سب انہیں چھوڑ گئے تھے۔ حالت یہ ہے کہ کل سعد رفیق کی گرفتاری کے وقت جتنے کارکن موجود تھے، یا شہباز شریف کی نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر جتنے کارکن آتے رہے ہیں، نوازشریف کے لئے اتنے کارکن بھی نہیں آتے، حتیٰ کہ خود سعد رفیق نے بھی ان کی پیشی پر نیب عدالت اسلام آباد میں جانا چھوڑ دیا تھا۔
سو یہ سارے حقائق نوازشریف کے سامنے ہیں، خود وہ عملی سیاست کے لئے تا حیات نا اہل ہو چکے ہیں، یہاں تو سب اقتدار کی سیاست کو مانتے ہیں اور اسی کی وجہ سے کسی کے گرد اکٹھا ہوتے ہیں، اب تو پارٹی کی ساری توجہ شہبازشریف کی طرف ہے جو اپوزیشن لیڈر بھی ہیں اور نا اہل بھی نہیں ہوئے، لیکن ان کے حالات بھی کچھ زیادہ سازگار نہیں۔
فی الوقت وہ جیل میں ہیں اور نیب ان پر مزید مقدمات بنانے کے ارادے لئے ہوئے ہے۔ پھر سلمان شہباز اور ان کے داماد ملک سے فرار ہو چکے ہیں، نیب ان کی تلاش میں ہے، حمزہ شہباز کو لندن جانے سے روک دیا گیا ہے۔
سو دونوں اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود شدید مسائل کی زد میں ہیں۔اب ایسے میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی، شاید یہی وہ حالات ہیں جنہوں نے نوازشریف سے یہ جملہ کہلوایا کہ اب ہنس تو کیا رو بھی نہیں سکتے۔۔۔لیکن مَیں سمجھتا ہوں، میاں صاحب کو ایسا نہیں کہنا چاہئے۔ یہ کسی لیڈر کے شایان شان نہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ کروڑوں لوگ اب بھی انہیں چاہتے ہیں، اب بھی لیڈر مانتے ہیں۔
انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سیاست میں اچھے اور برے دن آتے رہتے ہیں۔۔۔’’ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘۔۔۔ اگر وہ ایسی باتیں کریں گے تو ان کا وہ بیانیہ اپنی موت آپ مر جائے گا کہ وہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت لانا چاہتے ہیں، عوام کی حقیقی حکمرانی والی جمہوریت اور اس کے لئے انہیں جو قربانی بھی دینا پڑی دیں گے۔
میاں صاحب کو تو صرف قید کی سزا کا خطرہ ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو تو پھانسی کی سزا ہوئی تھی، مگر وہ ٹوٹے نہیں تھے، انہوں نے آمر سے گڑگڑا کر زندگی کی بھیک نہیں مانگی تھی، میاں صاحب رونے دھونے کی بات نہ کریں، اپنا عزم بلند رکھیں۔ ان کی سیاست ملک کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اسے مایوسی اور نا امیدی پر ختم نہ کریں۔ بہتر ہے وہ موجودہ حالات میں اس شعر کو سامنے رکھیں:
اے شمع تیری عمرِ طبعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے