سرکاری کالجوں کے اساتذہ اکیڈمیز اور ٹیوشن سینٹرز سے وابستگی
محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کی طرف سے سرکاری کالجوں کے اساتذہ پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ پرائیویٹ اکیڈمیوں اور ٹیوشن سینٹرز سے قطعِ تعلق کرکے اپنے اصل فرائض منصبی کی طرف توجہ دیں یہ ایک مستحسن اقدام ہے کیونکہ جن سرکاری اداروں سے کالج اساتذہ خطیر رقم پر مشتمل تنخواہیں وصول کر رہے ہیں وہاں اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں ان کی توجہ بٹی رہتی ہے اور ان کا ذہن زیادہ تر پرائیویٹ اکیڈیمز کے ٹائم ٹیبل اور شیڈول پر عملدرآمد کی طرف رہتی ہے۔ یہ ادارے اساتذہ کرام کو بہت زیادہ تنخواہیں نہیں دیتے لیکن اساتذہ کرام سے کم تنخواہوں پر زیادہ کام لیتے ہیں۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن میں سائنس کے مضامین کے علاوہ انگریزی، معاشیات، کمپیوٹر سائنس اور دیگر اہم مضامین کے سینئر اور جونیئر اساتذہ گہری توجہ اور انہماک سے اپنے تدریسی فرائض سرانجام دیتے ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے خطیر رقوم کے خرچ کے باوجود اپنے اصل کالجوں کی طرف اس حد تک توجہ اور لگن سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیتے جس کی توقع ان سے قوم اور حکومت بجا طور پر کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ پرنسپل صاحبان، نظامت تعلیم اور حکومت اساتذہ پر اس پابندی کے فیصلے کو حقیقی اور معنوی لحاظ سے عمل درآمد کروائے۔
پرائیویٹ اکیڈمیوں کا نیٹ ورک اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ اتوار کے اخبارات میں بے شمار کلاسیفائیڈ اور باقاعدہ اشتہارات انہی اکیڈمیوں کی طرف سے شائع کروائے جاتے ہیں۔ محکمہ ہائی ایجوکیشن کے بعض اعلیٰ افسران کے علاوہ تعلیمی اداروں کے بہت سے سربراہ بھی نہ صرف ان اکیڈمیوں کی سرپرستی کرتے ہیں بلکہ نئے داخل ہونے والے لائق اور ذہین طلباء و طالبات کو بھی ان اکیڈمیوں میں داخلے کا مشورہ دیا جاتاہے اور جو اساتذہ ان طلباء کو کالجوں میں پڑھا رہے ہوتے ہیں وہی اساتذہ سہ پہر کے اوقات میں انہیں اکیڈمیوں میں پڑھاتے ہیں بعدازاں یہ اساتذہ کرام عملی امتحانات میں بھی ان طلباء و طالبات کی مدد کرتے ہیں۔ اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء جب تک اکیڈمیوں کا رخ نہ کریں انہیں شاندار کامیابی کا یقین نہیں آتا اور والدین بھی صرف اس بات سے مطمئن نہیں ہوتے کہ ان کے بچے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ،ایف سی کالج یا گورنمنٹ کالج آفس سائنس وحدت روڈ جیسے اعلیٰ معیار کے اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ دوسری شفٹ میں پڑھنے والے طلباء کالجوں سے اپنے آخری دو پیریڈ یا پریکٹیکلز (Practicals) کو چھوڑ کر اکیڈمیوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے کالجوں میں حاضریاں کم ہو جانے پر جرمانے ادا کرکے دوبارہ داخلہ لیتے ہیں تاکہ بورڈ کے امتحانات کے لئے کالجوں کی طرف سے ان کے داخلے بھیج دیئے جائیں۔
پرائیویٹ اکیڈمیوں کے باعث استاد اور شاگرد کے روحانی تعلق میں بھی فرق آ گیا ہے اور اب ہر تعلق ایک کمرشل یا تجارتی تعلق بن کر رہ گیا ہے۔
اگر موجودہ حکومت جس نے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا ہے۔ہائر ایجوکیشن کے شعبے میں بھی تبدیلی لا سکے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اس وقت تعلیم و صحت کے شعبے حکومت کی گہری توجہ کے مستحق ہیں کیونکہ ہمارے ملک کے مستقبل کا دارومدار بڑی حد تک انہی شعبوں پر ہے۔
***