بھارت میں ’’تبدیلی ‘‘ ناکام ، مودی کی سیاسی کامیابیوں کو ریورس گیئر لگ گیا

بھارت میں ’’تبدیلی ‘‘ ناکام ، مودی کی سیاسی کامیابیوں کو ریورس گیئر لگ گیا
بھارت میں ’’تبدیلی ‘‘ ناکام ، مودی کی سیاسی کامیابیوں کو ریورس گیئر لگ گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:۔ قدرت اللہ چودھری

سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں، یہ بات دنیا بھر میں درست ثابت ہوتی رہتی ہے اور بھارت کی پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابات کے بعد اس کا جادو یوں سر چڑھ کر بولا ہے کہ مایاوتی کی بہوگن سماج پارٹی نے مدھیہ پردیش میں حکومت بنانے والی کانگرس کو فوری طور پر اپنی حمایت کا یقین دلا دیا ہے، حالانکہ بہوگن سماج پارٹی (بی ایس پی) سمیت کئی جماعتیں ان ریاستوں میں الیکشن سے پہلے کانگرس کے ساتھ تعاون سے گریزاں تھیں، شاید وہ سیاسی تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہی تھیں، لیکن اب جبکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگرس کو حکومت سازی کے لئے واضح اکثریت حاصل ہوچکی ہے اور مدھیہ پردیش میں وہ صرف سادہ اکثریت سے ایک نشست کے فاصلے پر ہے تو بہوگن سماج پارٹی فوری طور پر اس کی کشتی میں سوار ہوگئی ہے۔ جس نے دو نشستیں جیتی ہیں یوں کانگرس کو سادہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ بی جے پی کی 108 نشستیں ہیں، تاہم اسے حکومت سازی میں مشکل ہوگی۔ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات بھی نہ صرف یہ دونوں جماعتیں متحد ہوکر لڑیں گی بلکہ یو پی کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادیو، بہار کے لالو پرشاد یادیو اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی کی جماعتیں بھی کانگرس سے آملیں گی۔ مودی نے پچھلا الیکشن تبدیلی کے نعرے پر جیتا تھا، حکومت کے ابتدائی برسوں میں ان کا طنطنہ دیدنی تھا اور اعتماد کا عالم یہ تھا کہ صدر اوباما کے دورۂ بھارت میں وہ انہیں اپنے ہاتھ سے چائے کی پیالی بنا کر پیش کرتے تھے اور انہیں فخریہ طور پر یہ بھی بتا دیتے تھے کہ وہ بچپن میں چائے کے کھوکھے پر کام کرتے رہے ہیں۔ ویسے تو یہ اچھی بات ہے کہ کوئی شخص غربت کی انتہائی نچلی سطح سے اٹھ کر ملک کا وزیراعظم بن جائے لیکن صدر اوباما کے لئے تو اس میں حیرت کا کوئی مقام نہ تھا کیونکہ ان کے اپنے ملک میں بہت سے صدور نے معمولی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور صدر کے عہدے تک پہنچے، لیکن اب محسوس ہوتا ہے بھارت میں جو تبدیلی آئی تھی وہ رک گئی ہے اور آنے والے دنوں میں کچھ انہونیاں بھی ہوسکتی ہیں، جن پانچ ریاستوں میں اب انتخابات ہوئے ہیں۔ یہ سب بعض دوسری ریاستوں کے ساتھ مل کر لوک سبھا کے انتخابات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور سابقہ الیکشن میں مودی کی کامیابی میں ان کا بہت کردار تھا۔ اگر یہ رحجان جاری رہا اور راہول گاندھی اسی طرح اپنی پارٹی کو آگے بڑھاتے رہے تو امکان یہی ہے کہ کانگرس اگر دوبارہ برسر اقتدار نہیں بھی آتی تو بھی وہ 2014ء کی شکست کا داغ بڑی حد تک دھونے میں کامیاب ہو جائے گی جب وہ لوک سبھا میں 44 نشستوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ بھارت میں کانگرس الیکشن تو پہلے بھی کبھی جیتتی اور کبھی ہارتی رہی ہے لیکن چار سال پہلے جن لوگوں کا خیال تھا کہ اب وہ قصۂ ماضی ہوئی اور اس کا 133 سالہ سیاسی کردار تاریخ کی کتابوں کا حصہ ہو جائے گا۔ وہ درست ثابت نہیں ہوا، کہا جاتا تھا نریندر مودی نے اوتار کا درجہ حاصل کرلیا ہے اور الیکشن جیت کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ گاندھی سے بھی بڑے لیڈر ہیں۔ خود نریندر مودی کانگرس کی سیاسی غلطیوں کا تذکرہ تواتر سے کرنے لگے تھے اور ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب انہوں نے کہا کہ کرتارپور کو بھارت کا حصہ ہونا چاہئے تھا، اسے پاکستان کا حصہ مان کر کانگرس نے بڑی غلطی کی جب کہ پاکستان تو ہمیشہ یہی سمجھتا رہا ہے کہ گورداس پور، فیروز پور اور امرتسر بھی پاکستان کا حصہ ہونے چاہئے تھے۔ یہ تو خیر تاریخ ہے جس کا جائزہ اس وقت کے حالات کو پیش نظر رکھ کر ہی لیا جانا چاہئے جب ہندوستان تقسیم ہو رہا تھا اور ساتھ ہی پاکستان تخلیق ہو رہا تھا، لیکن بھارت میں حالیہ ریاستی الیکشن نے مودی کو ان کی اوقات یاد دلا دی ہے، ویسے تو جب وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ براجمان ہو جاتے ہیں تو بھی ایک تاریخی حقیقت ہی بیان کی تھی، اب کانگرس نے تین صوبوں میں بی جے پی کی حکومتیں چھین کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مودی کو سیمی فائنل میں ہرا سکتی ہے تو بعید نہیں اگلے برس مودی اور ان کی پارٹی کو پورے اقتدار سے باہر کر دے۔ اگر ایسا نہ بھی ہوسکا تو بھی ان کی مسلمانوں کے خلاف مہم جوئی کو ضرور بریک لگ جائے گی۔ مودی نے مسلمانوں کے خلاف اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یو پی کے وزیراعلیٰ آدتیہ جوگی کو انتخابی مہم کا انچارج بنا کر یہ خیال کرلیا تھا کہ اب ہندتوا کا نعرہ ایک بار پھر کامیاب ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ مودی کی ناکامی میں اگرچہ مسلمان ووٹروں کا بھی کردار ہے لیکن اکثریتی ووٹ تو ہندوؤں کا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بھی اب ہندتوا کے سحر سے نکل رہے ہیں اور انتہا پسندانہ سوچ پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ مودی نے بار بار اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا نعرہ لگایا کئی بار تو وہاں اینٹ، سیمنٹ اور بجری بھی اس مقصد کے لئے جمع کر دی گئی لیکن ایک اندرونی خوف کی وجہ سے وہ اب تک اپنے اس ارادے کی تکمیل نہیں کرسکے کیونکہ جو ہندو بابری مسجد گرانے میں پیش پیش تھے وہ اب اپنے کردار پر شرمندہ ہیں، ان میں سے ایک نے تو اپنے گناہوں کے کفارے کے طور پر پورے بھارت میں مسجدیں بنانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے اور بہت سی مساجد تعمیر بھی کی جاچکی ہیں، اس لئے اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی نے مسلمان ووٹروں کو تو ناراض کیا ہی تھا کیونکہ گائے رکھشا کے نام پر انہوں نے بے گناہ مسلمانوں کا خون کیا۔ گائے لے جانے والوں کو پکڑ کر مار ڈالا گیا اور اگر کسی کے گھر کے ریفریجریٹر میں گوشت رکھنے کی اطلاع ملی تو یہ جانے بغیر کہ یہ گائے کا گوشت یا بکرے کا، اسے تہہ تیغ کر دیا گیا، حالانکہ بہت سے ہندو گائے کے گوشت کی ایکسپورٹ کے منافع بخش کاروبار سے وابستہ ہیں۔ کانگرس کی کامیابی کی یہ لہر اگر جاری رہی تو مودی کے چہرے پر پڑا ہوا اوتار کا جعلی نقاب پوری طرح اترنے میں دیر نہیں لگے گی۔
بھارت میں تبدیلی

مزید :

تجزیہ -