پاکستان میں فلسطین مخالف پراپیگنڈا
جناب عزت مآب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب اور وزیر اعظم عمران خان صاحب ! میری اس تحریر کا مقصد آپ کی خدمت میں ایک سو برس سے صہیونیوں اور برطانوی استعمار سمیت امریکہ کی ناپاک سازشوں کا نشانہ بننے والی ملت فلسطین سے متعلق کچھ عرائض پیش کرنا ہے تا کہ ملک و ملت کے دیگر اہم مسائل کی طرح آپ کی خدمت میں امت مسلمہ اور انسانیت کے سب سے بڑے مسئلہ فلسطین کے بارے میں آپ کی خدمت میں کچھ باتوں کو دہرا دوں ۔
بات یہ ہے کہ غاصب صہیونیوں نے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے بعد اب دنیا بھر میں مسلمانوں کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ساتھ ساتھ عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر فلسطین کی شناخت کو ختم کر کے فلسطینیوں کو فلسطین سے مکمل طور پر بے دخل کر کے فلسطین پر اسرائیل نامی جعلی ریاست کا مکمل تسلط چاہتے ہیں ، صہیونیوں کے ایجنڈے میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر اسلام و پاکستان علامہ اقبال کی فلسطین پالیسی کو موجودہ دور میں واضح اور بھرپور انداز میں بیان کیا جائے۔ چند عناصر غیر ملکی آقاؤں کی ایماء پر پاکستان کی شناخت کو داؤ پر لگانے اور بانیان پاکستان کے نظریات کا قتل کرنے کے در پہ ہیں تاہم پاکستان میں موجود قائد و اقبال کے نظریات و افکار کا قتل کرنے والے صہیونی ایجنٹوں کی بیخ کنی کی جائے اور حکومتی سطح پر ایسے افراداور عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
جناب صدر مملکت اور جناب وزیر اعظم صاحب ! قائد اعظم محمد علی جناح دنیا کے وہ واحد رہنما تھے کہ جنہوں نے فلسطین پر غاصبانہ طور پر قائم کی جانے والی جعلی ریاست اسرائیل کی اس کے قیام سے قبل ہی مذمت کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول مرتب کئے گئے تو واضح طور پر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اصول طے کیا گیا تاہم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بانیان پاکستان کے افکار و اصولوں کے خلاف سرگرم عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔چاہے وہ حکومتی صفوں میں موجود ہوں یا اپوزیشن کی صفوں میں یا پھر کسی اور صف میں۔پاکستان کے عوام اپنے عظیم قائدین کے سنہرے اصولوں کے مطابق فلسطین کو فلسطینی عوام (فلسطینی عرب) کا وطن تسلیم کرتے ہیں اور اسرائیل کو بانیان پاکستان کے اصولوں کے مطابق جعلی اور غاصب ریاست سمجھتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو قطعا نظریہ پاکستان کی نفی اور آئین پاکستان سے غداری تصور کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا میں بسنے والے یہودی مذہب کے پیروکاروں کی بہت بڑی تعداد اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کرتی اور اسرائیل کے فلسطین پر قیام کو ناجائز قرار دیتی ہیں اس کی ایک مثال یہودی مذہب کے پیروکاروں کی عالمی تنظیم Neturei Karta موجود ہے۔ جبکہ فلسطین پر قبضہ کرنے والے صہیونیوں کی دہشت گرد تنظیمیں ھاگانا اور آئرگن ہیں کہ جنہوں نے فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کے لئے ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام اور انہیں جبری طور پر وطن سے بے دخل کیا۔
پاکستانی قوم قائد اعظم و اقبال کے بتائے گئے اصولوں پر مبنی پالیسی کے تحت فلسطین کو فلسطینیوں کا وطن قرار دیتے ہیں اور فلسطین فلسطینی عربوں کو ریاست ہے تاہم باہر سے آ کر بسائے گئے صہیونیوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فلسطین کے جغرافیہ کو تبدیل کریں اور فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال دیا جائے۔ پاکستان کے عوام فلسطین کی عرب ریاست کی حمایت کرتے ہیں کہ جہاں ہمیشہ سے یہودی، عیسائی و مسلمان عرب شناخت کے ساتھ فلسطین میں بستے رہے ہیں جبکہ غیر فلسطینی یہودیوں کو جن کو باہر سے لا کر آباد کیا گیا ہے ان کا فلسطین پر کوئی حق نہیں۔یہ فلسطینیوں کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن واپس آئیں۔ وہ تمام فلسطینی کہ جن کو صہیونیوں نے فلسطین سے بے دخل کیا ہے اور وہ مختلف سرحدی ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے حق واپسی کی عالمی سطح پر بھرپور حمایت کی جائے تا کہ فلسطینی عرب اپنے وطن لوٹ آئیں اور آزاد ریاست کے قیام کو یقینی بنائیں۔
براہ کرم پاکستان میں فلسطین مخالف پراپیگنڈا کی اجازت ہر گز نہ دی جائے اور اس کی روک تھام کے لئے سخت سے سخت اقدامات سے گریز نہ کیا جائے اور اس عنوان سے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کئے جائیں تا کہ مستقبل میں صہیونی ایجنٹوں کے ناپاک ارادے خاک ہو جائیں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کاذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔