شیخ مجیب چاہتے تھے کہ بنگالی فوج میں بھرتی ہوں ، ملک توڑنا نہیں چاہتے تھے :شیخ مجیب الرحمان کے جیل کے محافظ جمیل اختر غوری کے انکشافات
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اہم کردار شیخ مجیب الرحمان کے جیل کے محافظ جمیل اختر غوری نے کہاہے کہ شیخ مجیب چاہتے تھے کہ بنگالی فوج میں بھرتی ہوں، پاکستان توڑنا نہیں چاہتے تھے ،انتہائی مومن او ر پانچ وقت کے نمازی تھے ۔
دنیا نیوز کے پروگرام ”نقطہ نظر “ میں گفتگو کرتے ہوئے جمیل اختر غوری نے کہاہے کہ جب شیخ مجیب الرحمان جیل سے جانے لگے توان کی آنکھوں میں آنسو تھے اوراگلے دن وہ واپس چلے گئے ، شیخ مجیب الرحمان انتہائی مومن آدمی اور پانچ وقت کے نمازی تھے ۔ انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب کاخیال تھا کہ بنگالیوں کوفوج میں بھرتی ہوناچاہئے ، شیخ مجیب الرحمان نے مجھے کہا تھا کہ رب قوموں کے اعمال دیکھتا ہے اورہمارے اعمال اچھے نہیں ہیں، شیخ مجیب ہیرو کی موت چاہتے تھے اورکہتے تھے کہ میں نے موچی دروازے پر چھ نکات کااعلان کرناتھالیکن وہاں پانی چھوڑ دیا گیا اور میں وہاں جلسہ نہ کرسکا ، شیخ مجیب نے بتایا تھا کہ میں ملک کوتوڑنا نہیں چاہتا ، میرے اور بھٹو کے درمیان رابطہ رہاہے اور وہ ذہین آدمی ہے۔بھٹو صاحب کے بارے میں شیخ مجیب نے بتایا تھا کہ میں نے یحییٰ خان کو بھڑیئے والی رائے دی تھی اورجیل میں پڑا ہوں اور بھٹو نے اس کو لومٹر والی رائے دی تھی اور وہ باہر پھررہاہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایک موقع پر شیخ مجیب نے تین باتیں کی تھیں اورکہا تھا کہ باڑ اتنی بڑھ چکی ہے کہ فصل کی جگہ بہت کم رہ گئی ہے ، دوسری بات کہ میں نے گرفتاری مسئلے کے حل کیلئے دی تھی لیکن میرے خلاف مقدمہ شروع کردیا گیا اورتیسر ی بات تھی کہ نتیجہ میری سوچ کے برعکس نکلا ، اگر مجھے سزادیدی گئی تو میں ہیرو کی موت مروں گا اور میری قوم مجھے یاد رکھے گی ۔
ان کا کہناتھاکہ قید میں شیخ مجیب اپنے بچوں کا بھی تذکرہ کیا کرتے تھے اوربتایاتھا کہ جب مجھ گرفتار کرنے کیلئے کارروائی کی گئی تو میرے اہل خانہ موقع پر آگئے اورمیرے بیٹے بلال نے رائفل نکال لی لیکن میں نے ان کووہاں سے جانے کاکہا اورخود کوگرفتاری کیلئے پیش کردیا ۔جمیل اختر نے بتایاکہ ان کی بہت سے باتوں کا ہم کوبعدمیں پتہ چلا جب بھارت کی طرف ردعمل آنا شروع ہوا ، جیل سے جاتے ہوئے شیخ مجیب آسانی محسوس کررہے تھے ، جیل میں شیخ مجیب کوکسی قیدی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی ،سیل میں صرف ڈیوٹی افسر تھے جیل کاعملہ بھی نہیں آتا تھا ، ان کوقیدتنہائی میں رکھا گیا تھا جب وہ باتیں کرتے تو ہم سمجھتے تھے کہ یہ وقت گزار ی کے لئے باتیں کرتے ہیں لیکن جب وہ جانے لگے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اوردعابھی کروائی ، پھر ہمیں احساس ہوا کہ یہ شخص پاکستان کومتحد رکھنے کی باتیں کرتا اوریہ بھی کہتاہے کہ میں نے ڈھاکہ پلٹن میدان میں آزادی کا اعلان نہیں کیا ، اس کی باتوں میں کچھ وزن ہے ۔
جمیل اختر نے بتایاکہ جیل میں قید کے دوران ہم نے کبھی شیخ مجیب کے ساتھ سختی نہیں کی اورنہ کبھی شیخ مجیب نے ہمارے ساتھ کوئی ڈانٹ ڈپٹ کی ، و ہ کبھی کبھی ہمارے ایک افسر کے ساتھ ناشتہ یا کھانا کھا لیا کرتے تھے ۔ ان کو اچھاکھانا دیاجاتاتھا ، ان کے پاس دوکتابیں تھیں جوان کے سرہانے پڑی رہتی تھی ، شیخ مجیب کوسیل سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی ، نماز بھی سیل کے اندر ہی پڑھا کرتے تھے ٹہل بھی سیل کے اندر ہی لیتے تھے ۔