4سالوں میں کراچی کی ترقی کیلئے صرف 10ارب روپے یے گئے: میئر کراچی

    4سالوں میں کراچی کی ترقی کیلئے صرف 10ارب روپے یے گئے: میئر کراچی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی(اکنامک رپورٹر) میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے صرف سوا دس ارب روپے دیے گئے، وزیرا علیٰ سندھ کے اعلان کردہ دو ارب نئے فنڈز نہیں بلکہ گزشتہ بجٹ کے واجبات ہیں، وزیراعظم عمران خان اگر ملک کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو کراچی آکر بیٹھیں۔ انہوں نے کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری(کاٹی) کے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ صدر کاٹی شیخ عمر ریحان، چیئرمین و سی ای او کائٹ زبیر چھایا، سینئر نائب صدر محمد اکرام راجپوت اور نائب صدر سید واجد حسین  نے کاٹی آمد پر ان کا خیر مقدم کیا۔ تفصیلات کے مطابق میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار سالوں میں کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے صرف سوا 10 ارب روپے جاری کیے گئے، وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ پی ایس ڈی پی اسکیموں میں کراچی کے لیے کوئی اسکیم شامل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ دنوں جن دو ارب روپے کا اعلان کیا ہے وہ نئے فنڈ نہیں بلکہ شہری حکومت کے 2018-19 کے لیے مختص بجٹ کی  رقم کے واجبات ادا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی آرٹیکل 140اے کے مطابق مکمل بااختیار مقامی حکومتوں کے قیام کے بغیر کراچی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا ساٹھ فی صد حصہ وفاقی حکومت اور تیس فی صد سندھ حکومت کے پاس ہے، ماضی میں میئر کے پاس 12فی صد شہر کا اختیار تھا اور اب یہ اس سے بھی کم ہوچکاہے۔ انہوں نے کہا کہ میئر 2کروڑ روپے سے زائد کی اسکیم نہیں دے سکتا، ہر ماہ صرف تنخواہوں کی مد میں پانچ کروڑ کے شارٹ فال کا سامنا ہوتا ہے اس کے باوجود کے ایم سی نے شہر کو سنبھالا ہوا ہے۔  وسیم اختر کا کہنا تھا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت صوبائی حکومت کراچی سے جمع ہونے والے ٹیکس پر  شہر کو سیس دینے کی پابند ہے لیکن اس مد میں ابھی تک ادائیگی کی شرح کا تعین ہی نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی کے باعث کے ایم ڈی سی کے ڈاکٹروں کو چار ماہ کی تنخواہ اور فائر بریگیڈ کے عملے کو رسک الاؤنس کی ادائیگی نہیں کی جاسکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بیانات دیے جاتے ہیں کہ کے ایم سی کو گزشتہ تین چار سالوں میں 60یا 70ارب دیے گئے ہیں، اول تو یہ اعداد و شمار درست نہیں، ان میں سے صرف  سوا10ارب ترقیاتی کاموں کے لیے دیے گئے جبکہ باقی ملازمین کی تنخواہ اور پنشن پر خرچ ہوئے اور اس رقم کی بھی مکمل ادائیگی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان کٹھن حالات میں آپ لوگ کام کررہے ہیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت کو آپ کو تمغے دینے چاہییں۔ اس موقع پر کاٹی کے صدر شیخ عمر ریحان نے کہا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ناقص کارکردگی پر صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ میں کورنگی صنعتی علاقے کی  80شکایات پر ایم ڈی واٹر بورڈ نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ہمیشہ ترجیحی بنیادوں پر صنعتی علاقوں کے مسائل حل کیے ہیں جس کے لیے ان کے شکر گزار ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ واٹر بورڈ سے متعلق کوئی بڑا فیصلہ کیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یا تو واٹر بورڈ کی نجکاری کی جائے یا بزنس کمیونٹی سے کسی اہل فرد کو اس ادارے کی ذمے داریاں دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ انفرااسٹرکچر اور بنیادی شہری مسائل پر بھی جب اختیارات کا معاملہ حل نہیں ہوپارہا ہے تو ملک کی معاشی ترقی کیسے ممکن ہوسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان شہری اور مقامی انتظامیہ کو اختیارات اور وسائل کی فراہمی کے لیے فوری نوٹس لیں۔ زبیر چھایا کا کہنا تھا کہ ہمیں میئر اور میئر کو ہمارے مسائل کا علم ہے۔  انہوں نے کہا کہ میونسپل یوٹیلیٹی ٹیکس کی مد میں بھاری واجبات کے ساتھ بل بھیجے جارہے ہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے  فوری کمیٹی بنائی جائے ہم بل ادائیگی کے لیے تیار ہیں لیکن واجبات ختم کیے جائیں۔ ظہرانے میں کاٹی کے سابق صدر احتشام الدین، اکبر فاروقی، نائب چیئرمین کورنگی ڈی ایم سی سید احمر علی، شیخ باسط اکرم اور دیگر بھی شریک ہوئے۔ 

مزید :

صفحہ اول -