پی آئی سی پر حملہ کرنیوالے 32وکیلوں کو جیل بھیج دیا گیا، پنجاب بھر میں ہڑتال

      پی آئی سی پر حملہ کرنیوالے 32وکیلوں کو جیل بھیج دیا گیا، پنجاب بھر میں ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(نامہ نگار خصوصی،نامہ نگار)انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج عبدالقیوم خان نے پی آئی سی پر حملہ کرنے کے مقدمہ میں پیش کئے گئے 32وکلا ء کو 14روز ہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجواتے ہوئے سرکاری وکیل کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی،عدالت نے ان وکلا ء کوشناخت پریڈ کے لئے جوڈیشل لاک اپ منتقل کرنے سے قبل ان کامیو ہسپتال سے طبی معائنہ کرانے کاحکم بھی دیاہے۔پی آئی سی حملہ کیس میں گرفتار وکلا ء کی جانب سے ضمانت کی درخواستیں دائر کردی گئی ہیں،یہ درخواستیں سپریم کورٹ کے نائب صدر چودھری غلام مرتضیٰ کی وساطت سے دائر کی گئی ہیں،جن کی سماعت آج 13دسمبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کرے گی۔انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پی آئی سی حملہ کیس میں ملوث وکلاء کوپولیس نے سخت سکیورٹی حصار میں کپڑے سے چہرہ ڈھانپ کر عدالت میں پیش کیا،کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سرکاری وکیل نے گرفتاروکلاء کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ گرفتار وکلاء توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی،دہشت گردی اور اقدام قتل کے الزام کا سامنا کررہے ہیں، ملزموں کا15روزہ جسمانی ریماند دیا جائے جس پرسپریم کورٹ بار کے نائب صدر غلام مرتضی چودھری اورسینئر وکیل مقصود بٹرنے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے بے گناہ وکلا ء کو گرفتار کیا گیا ہے، پولیس نے وکلا ء کو تشد کا نشانہ بنایا ہے،عدالت سے استدعاہے کہ تمام وکلا ء کا میڈیکل کرایاجائے،عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد سرکاری وکیل کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے مذکورہ وکلاء کو 14روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا نے کا حکم دے دیاجبکہ وکلا ء کو شناخت پریڈ کے لئے جوڈیشل لاک اپ منتقل کرنے قبل ان کامیوہسپتال سے میڈیکل کرانے کاحکم دیتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیاہے،انسداد دہشت گردی کی عدالت میں وکلاء نے ضمانت کی درخواستیں دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ پی آئی سی پر حملہ کا الزام غلط ہے،پرامن احتجاج پر وکلاء کو گرفتارکیا گیا،جن وکلاء کوانسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا ان میں عدنان بھٹی، بشارت عباس، سجاد رشید، محمد عمران،محمد عظیم، سید ذیشان، مدثر رشید، ملک محمد ارشد، جونید ارشد،رانااسلام، محمد اسد سلیمان، عمران نعیم، ارشد، علی عمران، حسن مرزا، حافط عمیر، فہیم شوکت، شیخ عرفان، علی بن خالد، اسد ظفر، ملک فاروق، حافظ تنویر، دلاور، غیاث احمد، ارسلان رضا، محمد تراب وڑائچ، مطیع الرحمن، رانا کوثر، ساجد حسین، مقصود احمد، حسن علی اورحافظ محمد شکیل شامل ہیں،عدالتی سماعت سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جاسکے،مذکورہ وکلاء کے خلاف تھانہ شادمان پولیس نے مقدمہ درج کررکھاہے۔پی آئی سی واقعہ میں وکلاء کی گرفتاریوں اور ان پر مبینہ تشدد کے خلاف پنجاب بھر کی طرح لاہور ہائی کورٹ اور لاہور کی ماتحت عدالتوں میں بھی وکلاء نے مکمل ہڑتال کی،لاہور ہائی کورٹ بار میں وکلاء تنظیموں کا مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں آئندہ کے لائحہ عمل اوراقدامات کے لئے وکلاء کے سینئر نمائندوں پر مشتمل وکلاء ایکشن کمیٹی تشکیل دے دی گئی،جس نے بعدازاں لاہور ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس مامون رشید شیخ سے ملاقات کی،وکلاء کی ہڑتال،احتجاج اورسیکیورٹی خدشات کے پیش نظر پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز سمیت متعدد اہم شخصیات کو جیل سے لاکر عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا،وکلاء عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے جس سے ہزاروں مقدمات کی سماعت متاثر ہوئی اور سائلین اگلی تاریخیں لے کر واپس چلے گئے۔لاہور ہائی کورٹ بار میں ہونے والے وکلاء تنظیموں کے مشترکہ اجلاس میں وکلاء کے خلاف درج مقدمات کے خاتمے اورگرفتار وکلاء کی فوری رہائی کامطالبہ کیاگیا،،اجلاس میں خبر دار کیا گیا کہ بصورت دیگر  احتجاج بڑھ بھی سکتا ہے جو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا،وکلاء نے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ بھی کیا،وکلاء نے پولیس کے رویہ کی شدید مذمت کی،وکلاء کے اجلاس میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں توڑ پھوڑ اورپولیس وین کو آگ لگانے کے واقعہ میں ملوث شرپسند وکلاء کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کابھی فیصلہ کیا گیا۔لاہور ہائی کورٹ بار میں پاکستان بار کونسل،پنجاب بارکونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور بار ایسوسی ایشن اور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کا مشترکہ اجلاس ہوا۔جس میں محمد احسن بھون،اعظم نذیر تارڑ، عابد ساقی اورطاہر نصر اللہ وڑائچ نے پاکستان بارکونسل جبکہ وائس چیئرمین شاہ نواز اسماعیل گجر،چودھری غلام سرور نہنگ، رانا سعید اختر اورمرزا ذیشان نے پنجاب بارکونسل کی نمائندگی کی،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری شمیم الرحمن ملک اور نائب صدر چودھری غلام مرتضیٰ کے علاوہ لاہور ٹیکس باراور لاہور ڈسٹرکٹ بار کے منتخب نمائندے بھی اجلاس میں موجود تھے،اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر حفیظ الرحمن چودھری کی سربراہی میں وکلاء ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں محمد احسن بھون، اعظم نذیرتارڑ،عابد ساقی،شاہ نواز اسماعیل گجر،شمیم الرحمن ملک اور چودھری غلام مرتضیٰ سمیت لاہور باراورلاہور ٹیکس بارکے نمائندے شامل ہوں گے، محمد احسن بھون اور دیگر وکلاء راہنماؤں نے کہا کہ 11دسمبرکو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور تمام وکلاء برادری نہ صرف اس پر رنجیدہ ہے بلکہ اس میں شر پسندی کرنے والے عناصر کے خلاف سخت تادیبی کارروائی بھی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ میں فائرنگ کرنے والے اور پولیس وین کو آگ لگانے والے چند ایک وکلاء اگر وہ بار ممبرز ہیں، ان کے خلاف بھی انضباطی کارروائی ضرور عمل میں لائیں گے،انہوں نے کہا اس افسوسناک وقوعہ کا واحد محرک ڈاکٹرعرفان نامی وائی ڈی اے لیڈر ہے جس نے وکلاء برادری کے بارے میں انتہائی اشتعال انگیز نفرت بھری اور تضحیک آمیز تقریر کر کے نہ صرف پی آئی سی لان میں موجود شرکاء سے داد لی بلکہ اسے سوشل میڈیا پر بھی وائرل کیا گیا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا،انہوں نے کہا کہ مقدمہ درج ہونے اوروکلاء کے بارہا مطالبہ کے باوجود کوئی قانونی کاروائی نہیں کی گئی۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ وکلا ء کا جلوس مال روڈ اور جیل روڈ تک مارچ کر کے پی آئی سی گیا مگر کسی جگہ پر پولیس نے اسے روکنے کی کوشش نہ کی بلکہ پی آئی سی پہنچے پر جب فریقین نے خشت باری شروع کر دی تب بھی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، اس اندوہناک واقعہ کے حوالہ سے ہم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے جوڈیشل انکوائری کروانے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اس سازش کے اصل محرکات سامنے آ سکیں۔ سینئر وکلاء نے نوجوان وکلاء سے کہا کہ ہمیں ہر لمحہ اس پیشہ سے وابستہ عزت اور تکریم کی حفاظت کرنا چاہیے، وکلاء اور ڈاکٹرز کسی بھی معاشرہ کے مہذب ترین پیشے ہیں اور ان کے درمیان اس طرح کا واقعہ قابل افسوس ہے۔ اس کے بعد باہمی مشاورت سے طے کیا گیا کہ وکلاء برادری جذبات میں آ کر کوئی سخت اقدام اٹھانے کی بجائے قانونی طریقہ کار اپنائے گی،اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اپنے ادارہ کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں وکلاء کی دادرسی کے لئے رٹ پٹیشن دائر کریں گے جس میں عدالت کے سامنے اصل حقائق پیش کئے جائیں گے،قانونی چارہ جوئی کے ذریعے،جھوٹی ایف آئی آرز کے خاتمہ، گرفتار وکلاء کی رہائی اورزخمی وکلاء کوطبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے گا،وکلاء ایکشن کمیٹی کو اس سلسلے میں اقدامات کا مکمل اختیار دے دیا گیاہے،اجلاس میں پولیس کے رویہ کی شدید مذمت کی گئی۔ بعدازاں وکلاء ایکشن کمیٹی نے لاہور ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس مامون رشید شیخ سے ملاقات کی اور انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔دوسری طرف وکلاء ایکشن کمیٹی نے آج 13دسمبر کوملک بھر میں ہڑتال اور عدالتوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر حفیظ الرحمن چودھری کی سربراہی میں بار تنظیموں کے سینئر راہنماؤں پر مشتمل ایکشن کمیٹی نے ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ اعلان بھی کیا کہ وکلاء اب کسی چیف جسٹس سے بھیک نہیں مانگیں گے،پرامن احتجاج کو اگر کسی طالع آزما نے روکنے کی کوشش کی تو وکلاء نمٹ لیں گے،وکلاء پرامن طریقے سے احجاج کریں گے،انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبہ کا اعادہ کیا کہ گرفتار وکلاء کو فوری رہا کیا جائے،انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری محمد عمیر بلوچ کا لائسنس معطل کرنے اور انہیں توہین عدالت کے تحت نوٹس جاری کرنے کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی۔وکلاء ایکشن کمیٹی نے دھمکی دی کہ وکلاء کو انتہائی قدم اٹھانے پرمجبور نہ کیا جائے،لگتا ہے عدلیہ نے خود کو حکومت کے ساتھ نتھی کرنا مناسب سمجھا ہے،وکلاء ایکشن کمیٹی کے دیگر ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بارکونسل کے رکن محمد احسن بھون نے کہا کہ واقعہ کے اصل محرکات کو نظر انداز کیا گیا،نامزد چیف جسٹس سے بار بار ملاقات کی تاکہ معاملہ حل ہو،لگتا ہے عدلیہ نے خود کو حکومت کے ساتھ نتھی کرنا مناسب سمجھا ہے،وکلاء عدلیہ کے لئے جانوں کے نذرانے دیتے رہے مگر ججوں نے وکلاء کیلئے نوٹس تک کرنا گوارا نہیں کیا،وکلاء عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد کرتے رہے ہیں،گرفتار وکلاء کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا جس کی مذمت کرتے ہیں،گرفتار وکلاء کو فوری رہاکیا جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی آئی سی واقعہ کے خلاف ہنگامہ آرائی پر نوٹس لیتے ہوئے وکلا کو زبردستی عدالت سے نکالنے پر سیکرٹری بار کا لائسنس معطل کردیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے سیکرٹری بار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کا لائسنس بھی معطل کر دیا اور کہا کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کردیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری بار ہنگامہ آرائی کیس 19 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔دوسری جانب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلا کے حملے کیخلاف کارروائی کیلئے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ یہ درخواست ایڈوکیٹ طارق اسد نے دائر کی۔درخواست میں وفاق، سیکرٹری پنجاب اور آئی جی کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ واقعہ میں ملوث وکلا کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔ 
وکلاء ہڑتال


لاہور(جنرل رپورٹر) پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلا کے حملے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر رینجرز کو حفاظتی اقدامات کے پیش نظر تعینات کر دیا گیا ہے۔رینجرز کے اہلکاروں نے پی آئی سی کا چارج سنبھال لیا ہے اور عمارتوں کے باہر رینجرز اہلکاروں نے ڈیوٹیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز وکلا کی بڑی تعداد نے لاہور میں دل کے ہسپتال پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس موقع پر سینکڑوں وکلا ہسپتال کا مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے اور توڑ پھوڑ کی۔اس صورتحال کے باعث علاج معالجہ کے سلسلے میں آئے ہوئے مریض ہسپتال میں محبوس ہو کر رہ گئے۔ دریں اثناپنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی ایمرجنسی، او پی ڈی اور ان ڈور سروسز معطل رہیں، صرف سی سی یو اورسرجیکل آئی سی یو میں پندرہ مریض زیر علاج ہیں۔ادھر وکلا کے پی آئی سی پر حملے کے خلاف پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس نے ہڑتال کی۔ اوپی ڈ یز بند ہونے سے مریضوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔فیصل آباد میں ینگ ڈاکٹرز اور دیگر ڈاکٹر تنظیموں نے وکلا کے خلاف احتجاج کیا۔ بہاولنگرمیں مظاہرین نے مظاہرین نے ڈسٹرکٹ ہسپتال کی ایمرجنسی سے ایم ایس آفس تک ریلی نکالی۔بھکر میں پی آئی سی واقعہ کیخلاف ڈاکٹرز نے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں احتجاج کیا۔ مظاہرے میں سینئر ڈاکٹرز نے بھی شرکت کی اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ حکومت فی الفور ڈاکٹرز کا سیکیورٹی بل منظور کرے۔ادھر وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشدکا کہنا ہے کہ حکومت تشدد کا نشانہ بننے والے ڈاکٹرز کے ساتھ کھڑی ہے۔ ڈاکٹروں کی گاڑیوں اور سرکاری املاک کے نقصان کا ازالہ کریں گے۔ وکلا نے مریضوں کا علاج روک کر حکومت کی رٹ چیلنج کی۔ حملے میں ملوث تمام ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ضلعی انتظامیہ نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں نقصان کی ابتدائی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ پی آئی سی حملے میں تقریباً 7 کروڑ روپیکا نقصان ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وکلا کے حملے میں 10 کارڈیک مانیٹرز، 4 ایکومشین، 3 وینٹی لیٹرز اور 15 ٹیلیفون توڑے گئے۔ سپتال کے داخلی اور خارجی دروازوں اور 2 واک تھرو گیٹس کو نقصان پہنچا۔اس کے علاوہ 4 دروازوں اور 6 کھڑکیوں کے شیشے توڑے گئے۔ ایمرجنسی میں انفارمیشن کاؤنٹرز، کھڑکیاں اور کمپیوٹرز کو نقصان پہنچایا گیا۔ وکلا نے شیشے کے دروازوں اور 6 پودوں کو نقصان پہنچایا۔وکلا کے حملے میں جیلانی بلاک کے داخلی دروازے اور سسٹر کیبن کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ 16 گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے اور 2 گاڑیاں مکمل تباہ کی گئیں۔ادھر ڈاکٹرز نے پی آئی سی بچاؤ تحریک مہم کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے ک جمعہ کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے مشعل جلائی جائیں گی۔ڈاکٹر ذیشان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عام شہری وکلا گردی سے جاں بحق افراد کے لیے پی آئی سی میں جمع ہوں گے اور ریلی نکالی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کو ہی پی آئی سی کی ایمرجنسی کھولنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سانحہ پی آئی سی لاہور سولہ دسمبر کو یوم سیاہ منائے گی جبکہ پی آئی سی پر حملے میں ملوث تمام لوگوں پر دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کئے جائیں اورایک مضبوط جے آئی ٹی بنائی جائے جس میں آئی ایس آئی، آئی بی اور پی ایم اے کے نمائندگان ہوں اور اس کیس کو خصوصی عدالت میں چلایا جائے۔ان خیالات کا اظہار پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے میڈیا سے گفتگو کے موقع پر کیاانہوں نے مزید کہا کہ اس سارے سانحہ کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر قانون پنجاب، محکمہ داخلہ پنجاب کے ذمہ داران پر عائد ہوتی ہے۔ ہم اِن تمام ذمہ داران کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ڈی آئی جی آپریشن اور سی سی پی او لاہور کو فی الفور معطل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وکلاء ریلی کا اجازت دی گئی ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کی سکیورٹی کا بل جو کہ عرصہ دراز سے التوا کا شکار ہے اسے فی الفور آرڈیننس کے ذریعے نافذ العمل کیا جائے۔ میں جو 100گاڑیاں توڑی گئی اور اربوں کی مشینری برباد کی گئی اِس کا نقصان اِن مجرم وکلاء سے پورا کیا جائے۔ پنجاب حکومت وکلاء کو علاج کیلئے دی گئی ترجیحی مراعات کا نوٹیفکیشن فی الفور واپس لے۔وکلاء کی پریکٹس کو مانیٹر کرنے کیلئے ہیلتھ کیئر کمیشن کی طرح ایک خود مختار ادارہ بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سانحہ پی آئی سی لاہور پر سوموار مورخہ 16دسمبر کو ملک بھر میں یوم سیاہ منائے گی۔ صوبائی وزیرصحت ڈاکٹریاسمین راشدکی زیرصدارت پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔اس موقع پرایڈیشنل سیکرٹری محکمہ سپیشلائزڈہیلتھ کئیراینڈمیڈیکل ایجوکیشن ڈاکٹرآصف طفیل، چیف کارڈیالوجسٹ پروفیسرڈاکٹرثاقب شفیع، ایم ایس پی آئی سی ڈاکٹرمحمدامیراورفیکلٹی ممبران نے شرکت کی۔ وزیرصحت پنجاب ڈاکٹریاسمین راشد نے پی آئی سی حملہ کے تمام پہلووں کاجائزہ لیا۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹریاسمین راشد نے کہاکہ حکومت تشددکانشانہ بننے والے ڈاکٹرزکے ساتھ کھڑی ہے۔ حکومت تمام ڈاکٹرزکی گاڑیوں اورسرکاری املاک کے نقصان کاتخمینہ لگاکرمالی امدادکرے گی۔ کسی بھی شخص کوہسپتالوں پرحملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ڈاکٹریاسمین راشدنے کہاکہ پی آئی سی حملہ کے حوالہ سے میری ہمدردیاں ڈاکٹربرادری کے ساتھ ہیں۔صوبائی وزیرصحت نے پی آئی سی میں ہونے والے ظلم کی بھرپورمذمت کی اور کہاکہ کل سارادن یہاں بیٹھ کرمشتعل افرادکوباہرنکالتے رہے۔ مشتعل وکلاء نے زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلامریضوں کے علاج معالجہ روک کرحکومت کی رٹ کوچیلنج کیاہے۔ پی آئی سی حملہ میں ملوث تمام ملزمان کوکیفرکردارتک پہنچایاجائے گا۔صوبائی وزیر صحت نے مزید کہاکہ عوام کی خدمت کرنے والے مسیحاؤں پرحملہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ میرے سمیت حکومتی وزراء پرتشددکیاگیا لیکن ہم ڈاکٹربرادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرزاورمریضوں کومکمل تحفظ فراہم کیاجائے گا۔
پی آئی سی نقصان

مزید :

صفحہ اول -