فیض:آج تم یاد بے حساب آئے (4)

   فیض:آج تم یاد بے حساب آئے (4)
   فیض:آج تم یاد بے حساب آئے (4)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اب کم ہی لوگوں کو یاد ہوگا کہ اقبال بانو کی زبان سے فیض احمد فیض کی ’ہم دیکھیں گے‘ پہلی بار کہاں اور کِس ماحول میں سُنی گئی۔ یہ ذولفقار علی بھٹو کے پھانسی چڑھائے جانے کے اٹھائیسویں دن کی بات ہے۔ یومِ مئی پر دن چڑھے پاک ٹی ہاؤس لاہور میں اقبال بانو نے صبح ِ انقلاب اور یومِ حشر کو علامتی طور پر یکجا کر دینے والا یہ الوہی ترانہ چھیڑا  تو یومِ مئی پہ ہمارا چھوٹا سا نجی اجتماع بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ فیض احمد فیض جو اُس وقت بیروت میں فلسطینی تنظیمِ آزادی کے ادبی جریدے ’لوٹس‘ کے ایڈیٹر تھے، اُس صبح اپنی غیر حاضری میں شدت سے محسوس ہوئے۔ بالکل اسی طرح ایک ذاتی حوالے سے دنیا سے چلے جانے کے پانچ برس بعد ایک شام لندن میں بھی اُن کی موجودگی اتنی ہی شدت سے محسوس ہوئی تھی۔ 

 یہ لندن کے بیڈن پاول ہال میں پاکستانی ہائی کمشنر شہریار محمد خان کے زیرِ صدارت فیض کے تراجم  The Unicorn and the Dancing Girl کی تعارفی تقریب تھی جہاں صحاٖفی خالد حسن نے تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن چھوڑنے کا قصہ بیان کیا۔ یہ کہانی ایک دلچسپ بائی لنگوئیل تقریر کی صورت میں میری آڈیو ٹیپ پر اب بھی محفوظ ہے۔ اصل واقعہ 1980ء کا ہے جب جنابِ فیض ’لوٹس‘ کے ایڈیٹر کے طور پہ بیروت سے لندن آئے۔ خالد نے، جو جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں پاکستان ہائی کمیشن لندن میں پریس قونصلر کے منصب سے مستعفی ہو گئے تھے، ایک محفل میں فیض صاحب سے کہا کہ الطاف گوہر نے بھی مجھے تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن سے نکال دیا ہے۔ خالد اپنی سادگی میں یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ فیض یہ بات سن کر شاید غصے میں آ جائیں یا کسی اور شدید رد عمل کا اظہار کریں۔ مگر فیض صاحب نے جو اُس گھڑی بھی ’حسن ِ آفاق، جمال لب و رخسار کے نام‘ دل ہی دل میں کوئی پیغام سوچ رہے ہوں گے، نوکری چھوٹ جانے کی ہولناک خبر سُن کر سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور ہلکی سی ’ہوں‘ کر دی۔


 جب خالد حسن نے یہ خبر کچھ ذیلی سُرخیوں کے ساتھ پھر دہرائی تو فیض نے مخصوص گوتمی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا:”بھئی، تم نے کتنے دن الطاف گوہر کے قمار خانہ ء عشق میں کام کیا؟“ جواب ملا کہ دو، ڈھائی سال۔ کہنے لگے:”بس بھئی، بہت ہے۔۔۔ اِتنا ہی ہوتا ہے۔“ آخر خالد حسن سے نہ رہا گیا اور جھنجھوڑنے کے انداز میں کہا کہ فیض صاحب، گھر کا خرچہ، مارٹ گیج لون، بچوں کی تعلیم۔۔۔ مگر فیض کا فیض دیکھیے کس انداز سے جاری ہوا: ”بھئی دل میلا نہ کرو۔ سب ہو جائے گا۔۔۔ ہم دے دیں گے۔۔۔ اور مشرقی جرمنی جانا چاہو تو تمہارے چائے پانی کا بندوبست کر سکتے ہیں“۔ (ابھی دیوارِ برلن مسمار نہیں ہوئی تھی اور مشرقی اور مغربی جرمنی دو الگ الگ ممالک تھے۔) فیض کی نصیحت پر خالد نے دل میلا نہ کیا اور سب ہو گیا۔ یعنی ویانا میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کی نیوز ایجنسی میں معقول تنخواہ پہ روزگار ملا اور اردو ادب پاروں کو انگریزی کے قالب میں ڈھالنے کے لئے وافر فرصت۔ 


 تو کیا فیض صاحب کی طرف سے بدیہی معاملوں کی چشم پوشی کا یہ رویہ کسی شعوری حکمتِ عملی کا حصہ تھا یا اُن کے جبلی میلان کا شاخسانہ؟ اِس دلچسپ سوال کا جواب فیض کی شاعری کے علاوہ دورانِ قید ایلس کے نام خطوط ’صلیبیں میرے دریچے میں‘ بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ پھر دورانِ اسیری شائع ہونے والے دوسرے شعری مجموعے ’زنداں نامہ‘ کے شروع میں جیل کے ساتھی میجر محمد اسحاق کی ’رودادِ قفس‘ سے لے کر ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘ والے ڈاکٹر ایوب مرزا، آغا ناصر اور ڈاکٹر آفتاب احمد خاں کی تحریریں ہیں، جن میں جابجا ایسے اشارے ملیں گے کہ فیض کا یہ طرزِ عمل یا تکلیفوں کو کمیوفلاج کر لینے کی عادت اُن کی وضع داری تھی۔ لیکن اگر یہ محض وضع داری ہے تو راولپنڈی سازش کیس میں چار سال سے زائد مدت کی اسیری کے دوران غیر فطری بندشوں کے ہوتے ہوئے اِس ایک رنگ کا برقرار رہنا حیران کُن ہے۔ 

 خود فیض احمد فیض کی ذاتی تحریروں سے اُن کے ’بھلکڑ‘ ہونے کا پتا چلتا ہے۔ مگر اِس کے باوجود سیاسی، سماجی، ادبی اور جمالیاتی اہمیت کے ہر موضوع پر اُن کا موقف خود اپنے ذہن میں بالکل واضح ہوتا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ کسی وقت وہ اِس کی وضاحت آئندہ کے لئے اٹھا رکھیں۔ مَیں نے ڈاکٹر ایوب مرزا کے ہارلے اسٹریٹ راولپنڈی والے گھر میں کئی موقعوں پر فیض صاحب کو یہ کہتے ہوئے بحث سے دامن بچاتے دیکھا کہ ”ہم سے سند مت مانگو“ یا ”بھئی، کوئی ڈھنگ کی لڑائی ہو تو آدمی‘ لڑے بھی‘‘۔ ایک دفعہ اِسی گھر میں صاحبِ ِ خانہ کی نثری نظموں کی تعارفی نشست میں گھیرا تنگ ہونے کے باوجود نظم اور نثر کے لغوی معانی کا سہارا لے کر کچھ کہنے کی آزمائش سے بچ نکلے: ”بھئی، یہ نثری نظم کی اصطلاح تو ہماری سمجھ میں آئی نہیں، نظم اور نثر تو دو متضاد چیزیں ہوئیں جن میں سے ایک مربوط ہے، دوسری بکھری ہوئی کو کہتے ہیں۔ تو آپ اِس کا کوئی اَور نام رکھ لیں۔۔۔ باقی یہ کہ اتنے لوگوں نے تعریف کی ہے تو کتاب اچھی ہی ہو گی۔۔۔ اور یار، کوئی چائے وائے پلواؤ۔ کیا لمبی لمبی تقریریں کروا رہے ہو۔“


 اِس طرح کی گفتگو کرتے ہوئے فیض کے لہجہ میں ایک بھولپن سا ہوتا، جو پیشہ ورانہ خطابت سے نہیں، بلکہ گداز دلی اور فکری سہج سبھاؤ کے امتزاج سے پھوٹتا ہے۔ کئی لوگ کہتے کہ فیض جتنے اچھے شاعر ہیں پڑھتے اُتنا ہی خراب ہیں۔ منڈی کی طاقتوں کو حتمی حقیقت ماننے والے شاید یہ سمجھ سکیں یا نہیں کہ سچا فنکار اگر تخلیق صرف اپنی شرائط پہ آپ کے سامنے رکھتا ہے تو یہ اُس کا حق ہے۔ آج فیض ہوتے تو اپنے نام پہ ہونے والی تقریبات کو دیکھ کر پہلے تو پوچھتے کہ بھئی، یہ تھیٹر لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر اطراف میں کچھ آوازیں گونجتیں تو لہجہ اَور مصالحانہ ہو جاتا: ”بھئی وہ کہہ رہے تھے کہ ہونا چاہیے، ہم نے کہا کہ ہو جائے“۔ کھڑی شریف میں پنجابی صوفی شاعر میاں محمد بخش کے عرس پر اپنی دستار بندی کے موقع پہ فیض صاحب نے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ یہی کہا تھا۔     (جاری ہے) 

مزید :

رائے -کالم -