بلدیاتی انتخابات‘ تحصیل کونسل صوابی نے صوبہ بھر میں اہمیت حاصل کر لی
صوابی(بیورورپورٹ) خیبر پختونخوا میں 19دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل کونسل صوابی نے صوبہ بھر میں اہمیت حاصل کر لی۔اس الیکشن میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قصر کا قریبی رشتہ دار عطاء اللہ خان پی ٹی آئی کی جانب سے امیدوار ہے جب کہ اس کی کامیابی کے لئے سپیکر قومی اسمبلی سمیت حکومتی ارکان ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔دوسری طرف ان کے مد مقابل اے این پی کے اکمل خان، جے یو آئی کے نور الا سلام اور ن لیگ کے رب نواز خان بھی مضبوط امیدوار کے طور پر موجود ہیں۔اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے ملک آمان اور قومی وطن پارٹی کے امتیاز زیب بھی انتخابی میدان میں شامل ہیں۔تحصیل کونسل صوابی کے میئر شپ کی نشست کے انتخاب کے مقابلے کو سرکردہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے بڑا اعزاز سمجھا ہے اور حکمران جماعت کا تمام تر ارتکاز یہاں ہے، تمام وسائل اور اثرورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے 19 دسمبر کو خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ تحصیل صوابی بارہ یونین کونسلوں پر مشتمل ہے یہاں سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ایم این اے جب کہ اس تحصیل میں شامل چار یونین کونسلوں سے معاون خصوصی برائے صنعت وتجارت پی ٹی آئی کے عبدالکریم خان او رآٹھ یونین کونسلوں سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے بھائی عاقب اللہ خان ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں۔ سیا سی تجزیہ کاروں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار عطاء اللہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خونی رشتے دار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سپیکر کی سالمیت داؤ پر لگ گئی ہے کیونکہ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ضلع بھر میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے شروع اور مکمل کیے گئے ہیں اور اگر حکمران جماعتیں الیکشن جیتتی ہیں تو وہ ہر یونین کونسل کے لیے خصوصی پیکیج دیں گے۔ان ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر عطا اللہ صوابی، مانیری اور سلیم خان سے جیت جاتے ہیں تو ان کی جیت کی امید ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے اسدقیصر کو دو مرتبہ قومی اسمبلی کا ٹکٹ، قومی اسمبلی کا ٹکٹ ان کے بھائی عاقب اللہ خان کو اور اب صوابی تحصیل چیئرمین کا ٹکٹ ان کے خونی رشتے دار کو دیا گیا جس پر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں نے سوال اٹھایا کہ تمام پی ٹی آئی امیدواروں کا تعلق صرف ایک خاندان سے ہوگا اور جہاں پچھلی دو دہائیوں میں پارٹی کے لیے بے پناہ قربانیاں دی گئی ہیں۔اے این پی کے امیدوار حاجی محمد ا کمل خان جن کا تعلق بھی سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے گاؤں مرغز سے ہے کو امید ہے کہ وہ پارٹی کی ماضی کی شان دوبارہ حاصل کر لیں گے۔ وہ جس علاقے سے الیکشن لڑتے ہیں وہ ملک کے قیام سے لے کر عام انتخابات 2013 تک اے این پی کا گڑھ تھا۔سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر جنرل کونسل کے لیے الیکشن لڑنے والے اے این پی کے امیدوار واقعی محمد اکمل خان کے لیے مہم چلائیں تو ان کے جیتنے کا روشن موقع ہے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے حکمران جماعت کی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور مقرب خان سابق سلیم خان یونین کونسل ناظم کی حمایت اور پاکستان امن پارٹی کے ایاز خان کے ان کے حق میں دستبردار ہونے سے ان کی پوزیشن مزید بلند ہوئی ہے۔مسلم لیگ ن کے رب نواز نوجوان پرجوش امیدوار ہیں اور وہ رات گئے تک بھرپور انتخابی مہم جاری رکھتے ہیں اور ووٹرز تک پہنچتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں انتخابی نتائج تک آرام نہیں کر سکتا۔ ان کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کا تعلق بڑے شہر صوابی سے ہے اور انہیں سابق ایم پی اے بابر سلیم ضلعی جنرل سیکرٹری حاجی دلدار خان، حاجی افتخار خان اور دیگر سر کر دہ رہنماؤں اور دیرینہ کارکنوں کی حمایت حاصل ہے جو کہ گنجان مانیری علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔کیو ڈبلیو پی پارٹی کے امیدوار امتیاز زیب اور جے یو ایل ایف کے امیدوار نور اسلام بھی مدمقابل ہیں لیکن اصل مقابلہ اے این پی، پی ٹی آئی،جے یو آئی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں میں متوقع ہے لیکن ان کی جیت اس بات سے منسلک ہے کہ وہ بقیہ ایک ہفتے میں کس طرح مہم کرتے ہیں۔
مطابق ہوگا مگر ہمارے ان سیاسی مخالفین کو یہ ترقیاتی اور عوامی فلاحی منصوبے حضم نہیں ہورہے او ر ان اربوں کے منصوبوں نے انکے اوسان خطا کردئے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے اتوار کے روز اپنے انتخابی حلقے پی کے23میں مختلف یونین کونسلوں میں شمولیتی تقاریب سے خطاب کے بعد میڈیا کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہی۔یونین کونسل ڈھیرئی غوربند،ملک خیل کوٹکے،کوزکانا اور دیگر علاقوں میں کہی شمولیتی تقاریب میں مسلم لیگ،عوامی نیشنل پارٹی سے سینکڑوں خاندان ساتھیوں سمیت شوکت یوسف زئی کی قیادت میں تحریک انصاف میں باقاعدہ