ہال آف شیم بنا دیتے ہیں جس میں سب چیف ایگزیکٹو کی تصاویر ہوں ، لا پتہ صحافی کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس

Dec 13, 2021 | 10:50 AM

اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) لا پتہ صحافی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نےریمارکس دیے  کہ ایک  ہال آف شیم بنا دیتے ہیں جس میں سب چیف ایگزیکٹو کی تصاویر ہوں۔

اسلام آباد ہائیکور ٹ میں لا پتہ صحافی کے کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت اٹارنی جنرل نے  عدالت کو بتایا کہ لا پتہ صحافی کے اہلخانہ کی وزیر اعظم اور  کابینہ کے متعلقہ ارکان سے ملاقات کرائی گئی ، لا پتہ صحافی کے اہلخانہ کی باتیں سن کر وزیر اعظم سب شرمندہ ہوئے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے لوگوں کے لاپتہ ہوجانے کا ذمہ دار چیف ایگزیکٹو ہی ہوتا ہے، کیوں نہ ایک ہال آف شیم بنا دیں جس میں سب چیف ایگزیکٹو کی تصاویر ہوں ، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صرف چیف ایگزیکٹو  ہی کی کیوں ؟، باقی ذمہ داروں کی بھی ہونی چاہئیں ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ حتمی ذمہ داری چیف ایگزیکٹو کی ہی ہوتی ہے، ہمیں ایک فیصلہ تو لکھنے دیں ، کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرائیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ کچھ بیماریوں کا علاج فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے،   دس لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلیں تو لاپتہ ہونے کا سلسلہ رک جائے گا، ایران میں یہ سلسلہ ایسے ہی رکا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ صحافی کے بچے کو عدالت آنے سے پہلے انصاف ملنا چاہیے تھا،  ہمیں توقع تھی بچے سے ملاقات کے بعد وفاقی کابینہ کچھ کرے گی، ہم خود سے اور عوام سے دیانتداری کرتے ہیں۔  

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا اس شہر سے مقامی انتظامیہ کی مرضی کے بغیر کسی کو اٹھایا جا سکتا ہے؟ ، ایک بچے کو اٹھایا جاتا ہے واپس آکر کہتا ہے شمالی علاقوں کی سیر پر تھا، ہمیں نہیں پتہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں،  آزاد میڈیا ہوتا تو لاپتہ افراد کے خاندان کی تصویریں روز اخبار میں ہوتی،  عدالت تو آئین کے مطابق فیصلہ ہی دے سکتا ہے،  آئین کے مطابق معاونت کریں ہم فیصلہ دیتے ہیں،بتائیں، آرٹیکل 6 کے تحت فیصلہ دے دیتے ہیں؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس کو آرٹیکل چھ پر سزا ہوئی ہم اس پر تو عمل نہیں کر اسکے ،  عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس کا آرٹیکل چھ اس کی اپنی کتاب میں اعتراف کیساتھ موجود ہے۔

 چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیے کہ یہاں سابق چیف ایگزیکٹو لوگوں کے اٹھائے جانے کا فخر سے کتابیں لکھ کریڈٹ لیتے ہیں،  ریٹائر ہونے کے بعد سب صوفی بن جاتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ  ریٹائر ہونے کے بعد سارے کتابیں لکھ کر دیانتدار بن جاتے ہیں۔جبری گمشدگی کرپشن کی بدترین شکل ہے، اگر کوئی کرپشن کے خلاف ہے تو اس سلسلے کو بند کرائے، چیف ایگزیکٹو ذمہ داری لیں یا انکو ذمہ دار ٹھہرائیں جو انکے تابع ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ مجھے کچھ مہلت دی جائے ، میں نے اپنی زندگی میں ایسا کیس نہیں لڑا ، میں ضرور معاونت کروں گا،  اپنے خیالات عدالت کو بتاؤں گا ، ریٹائرمنٹ کے بعد کتاب میں نہیں لکھوں گا۔

مزیدخبریں