اِک نظر اِدھر بھی جناب!!
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے کرکٹ نہیں لیکن یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ مقبول ترین کھیل کرکٹ ہے ہاکی نہیں۔ یوں بھی ہم نے ہاکی کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ ہماری مجموعی قومی کارکردگی کا ہی پرتو ہے۔ کبھی ہم ہاکی کے عالمی چیمپئن ہوتے تھے، اب عالمی مقابلوں میں شرکت کے قابل بھی نہیں سمجھے جاتے۔ لگتا ہے کہ ہماری قومی ٹیم گوجرہ اور بہاولپور کی مرہون منت تھی۔ سمیع اللہ، کلیم اللہ اور حسن سردار کے بعد کوئی ایسا ستارہ نہیں چمکا جو زبان زد عام ہو۔ اُس وقت عالمی درجہ بندی میں ہمارا نمبر 17واں ہے جبکہ بھارت پانچویں، جرمنی چوتھے، نیدر لینڈ تیسرے، بلجیئم دوسرے اور آسٹریلیا پہلے نمبر پر ہے۔ کافی عرصہ ہم پہلے تیسرے، چوتھے نمبروں پر رہے مگر اب وہ زمانہ خواب و خیال ہوا۔ قومی کھیل کے ساتھ یہ سلوک کرنے کے بعد ہماری توجہ کرکٹ کی طرف ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کے سانحات کے باعث ہم ایک طویل عرصے تک کرکٹ میچوں کی میزبانی سے بھی محروم رہے۔ ہمیں کھیلنے کے لئے دوسروں کے میدانوں میں اترنا پڑتا تھا پھر بھی کرکٹ سے محبت برقرار رہی اور ہم عالمی کرکٹ کے قابل ذکر ملکوں میں شمار ہوتے رہے۔ کرکٹ تو ہم قیام پاکستان سے ہی کھیل رہے ہیں، تب سے ہی ہم بین الاقوامی مقابلوں میں شریک رہے ہیں تاہم کرکٹ کی عوامی مقبولیت 1992ء کا عالمی کپ جیتنے سے عروج پر پہنچ گئی۔ اُس کی بہت ”مضبوط دلیل“ یہ ہے کہ تب کا مقبول ترین کرکٹر عمران خان آج ”مقبول ترین“ سیاسی رہنما ہے۔ ہم بڑے شوق سے کرکٹ دیکھتے اور سنتے (کمنٹری) ہیں۔ ایک روزہ عالمی کپ میں ہمارا نمبر پانچ واں رہا۔ بھارت چوتھے، آسٹریلیا تیسرے، انگلینڈ دوسرے اور نیوزی لینڈ پہلے نمبر پر تھا۔ عالمی رینکنگ میں بھارت کا نمبر پہلا ہے جبکہ انگلینڈ دوسرے، پاکستان تیسرے، جنوبی افریقہ چوتھے اور نیوزی لینڈ پانچویں نمبر پر ہے۔ ٹیسٹ میچوں کی رینکنگ میں ہمارا نمبر چھٹا ہے۔ اِس طرح دیکھا جائے تو ہمارا شمار بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔
گلی گلی میں کرکٹ ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا صنعتی و سرکاری ادارے سب کی اپنی اپنی کرکٹ ٹیمیں ہیں۔ بڑے شہروں میں شاندار سٹیڈیم اور نجی و سرکاری سطح پر سینکڑوں کرکٹ گراؤنڈ ہیں۔ پی ایس ایل نے عوامی سطح پر کرکٹ کو مزید مقبول بنا دیا ہے جبکہ نوجوان جنون کی حد تک اِس کھیل میں دلچسپی رکھتے اور ہر کوئی کرکٹ سٹار بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ اب تو ایک طویل عرصے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ بھی بحال ہو گئی ہے جس کے لئے کراچی، لاہور، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد اور پشاور میں سٹیڈیم موجود ہیں۔ لوگ شوق سے سٹیڈیم کا رخ کرتے ہیں اور آرام سے گھروں میں بیٹھ کر بھی ٹی وی پر میچوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ غیر ملکی ٹیموں کی آمد سے ملک کا نام روشن ہوتا اور روز گار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ان تمام روشن پہلوؤں کا تو خیر مقدم کیا جاتا ہے اور کیا بھی جانا چاہئے لیکن ایک انتظامی مسئلہ ایسا ہے کہ جس شہر میں غیر ملکی ٹیم آتی ہے وہاں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے جاتے ہیں۔ اُس کا جواز بھی موجود ہے کہ ماضی میں سری لنکا کی ٹیم کی آمد پر لاہور میں اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کی آمد پر کراچی میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے، اُس کا خمیازہ سالہا سال تک ہماری کرکٹ اور شائقین کو بھگتنا پڑا۔ ساری دنیا کی ٹیمیں سہم کر رہ گئیں اور کھلاڑی پاکستان آنے سے ہی انکاری ہو گئے۔ خصوصاً گوروں کو تو اپنی جان بہت ہی پیاری ہوتی ہے، باقی ماندہ ملکوں نے پھر بھی حوصلہ کر لیا۔ ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کے کھلاڑی آنے کے لئے پہلے آمادہ ہوئے پھر دنیا کو یقین آیا کہ پاکستان محفوظ ملک ہے،اگر اب خدانخواستہ خدانخواستہ پھر کوئی چھوٹا موٹا واقعہ ہو گیا تو ہم پھر عالمی کرکٹ سے دور کر دیئے جائیں گے۔ ہماری قومی کرکٹ کو نا قابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے اور ملک کا نام جو بدنام ہوگا وہ الگ، اِسی لئے اب غیر ملکی ٹیم جس شہر میں جاتی ہے وہاں کے بیشتر علاقوں میں کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔ ٹیم جہاں ٹھہرتی ہے جہاں پریکٹس کرتی ہے، جہاں میچ کھیلتی ہے جن راستوں سے گزر کر جاتی ہے، سب جگہیں عوام الناس کے لئے بند کر دی جاتی ہیں۔
اِن شاہراہوں کے تعلیمی ادارے، دکانیں اور کاروباری مراکز بھی بند کر دیئے جاتے ہیں، وہاں کی ساری ٹریفک دوسری سڑکوں کی جانب موڑ دی جاتی ہے چنانچہ دوسری سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ اُن کی گنجائش سے بڑھ جاتا ہے۔ ٹریفک جگہ جگہ جام ہو جاتی ہے۔ عوام شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ پہلا ٹیسٹ میچ تو انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے راولپنڈی میں جیت لیا، اِس سے اگلے ہی روز فاتخانہ انداز میں ٹیم ملتان پہنچی، واحد چار تارہ ہوٹل میں اِسے ٹھہرایا گیا جو شہر کے عین وسط میں مصروف سڑک ابدالی روڈ پر چوک نواب شہر کے قریب واقع ہے۔ پریکٹس کے لئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی بوسن روڈ اور ڈی ایچ اے گالف کورس لے جایا گیا۔ ملتان کی طویل ترین بوسن روڈ پر درجنوں تعلیمی ادارے اور تجارتی مراکز بند کرا دیئے گئے۔ تاجروں کے احتجاجی مظاہروں کے بعد سڑک کھولی گئی اور کاروبار کی اجازت ملی۔ کام کرنے کا احسن طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مقصد بھی پورا ہو جائے بدمزگی بھی نہ ہو اور کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا نہ ہو۔ ٹیموں کی سیکیورٹی بہت ضروری ہے تاہم شہریوں کی روزہ مرہ سرگرمیاں، خصوصاً تعلیمی اور کاروباری سرگرمیاں بھی ضروری ہیں۔ کرکٹ کنٹرول بورڈ کو سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہئے اور ٹیموں کو شہری زندگی مفلوج کر کے رہائش سے میدان تک پہنچانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ تجویز یہ ہے کہ پانچ شہروں کے مرکزی سٹیڈیم کے ساتھ عالمی معیار کے ایسے ریسٹ ہاؤس یاہوٹل تعمیر کر دیئے جائیں جن میں مہمان ٹیم کے بیس، بائیس افراد ٹھہر سکیں۔ مہمان کھلاڑیوں کو ہوائی اڈے سے سٹیڈیم تک ہیلی کاپٹروں سے لے جایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں اِسی طرح پریکٹس کے لئے بھی ایسے گراؤنڈ منتخب کئے جائیں جو رہائشی عمارت کے قریب ہوں۔