مخصوص طبقہ افواہوں کے ذریعے ملک میں غیر یقینی ماحول چاہتا ہے
تجزیہ: چودھری خادم حسین
پاکستان کی سیاست میں جو اتار چڑھاﺅ آتے ہیں ان کی وجہ سے ہی عوام میں بددلی پھیلتی اور مایوسی کا غلبہ ہوتا ہے۔ ماضی میں ایسے حالات ملک کو آمریت کی گود میں دھکیلنے کا باعث بنتے رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ فرق یہ پڑا ہے کہ افہام و تفہیم کے ڈھیلے ڈھالے انداز کے باوجود موجودہ نظام پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میعاد پوری کر رہا ہے اور یہ پہلی پارلیمنٹ اور اسمبلیاں ہوں گی جن کی آئینی مدت پوری ہو گی اور اب بات ایک اور انتخابات تک آ گئی ہے۔ اس کے باوجود شک کے بادل چھائے رہتے ہیں جس کی بڑی وجہ تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی حکمت عملی ہے کہ عوام میں مقبولیت کے لئے محاذ آرائی کا دروازہ کھولا ہوا ہے۔ اب تو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ بات پھر سے 1988ءاور 1990ءتک پہنچ چکی ہے۔ فریقین مل بھی نہیں پا رہے اور شاید اسی وجہ سے ٹیکنو کریٹ اور تین چار سال والے خوش بھی ہو رہے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ جماعتی اور سیاسی مصلحتوں کے باوجود یہ دونوں بڑے فریق عام انتخابات کی حد تک یکسو ہیں۔ جہاں تک وفاقی حکومت کا تعلق ہے تو مخالفانہ پبلسٹی مہم کے باوجود اس طرف سے انتخابات کو موخر کرنے کی کوئی حرکت نہیں ہو رہی۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر طاہر القادری کے تانے بانے پیپلز پارٹی کے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ،صدر اور وزیر اعظم کے واضح اعلانات کے علاوہ سید خورشید شاہ کا بیان کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رٹ منظور ہوئی تو پریشان کن صورت حال پیدا ہوگی اگرچہ الیکشن کمشن تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت سے یہ استدعا کی کہ وہ میرٹ پر فیصلہ کرتے ہوئے رٹ درخواست خارج کر دے، اٹارنی جنرل نے میرٹ پر ہی دلائل دینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا اور درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر اعتراض سے گریز کیا کہ درخواست کی سماعت تو بہرحال شروع ہو ہی چکی ہے۔ اس سے وفاقی حکومت کا موقف عدلیہ کے سامنے آ گیا ہے، اس لئے شک کو جھٹک دینا ہو گا۔ اس حوالے سے ذرا قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان کی بات کو بھی وزن دیں۔ وہ کہتے ہیں اگر طاہر القادری کی رٹ منظور بھی ہو جائے تو بھی انتخابات میں تاخیر نہیں ہو سکتی اور انتخابات کے مخالفوں کی امیدیں پوری نہیں ہوں گی کہ سات روز کے اندر اندر نیا الیکشن کمشن بن جائے گا۔
جہاں تک ٹیکنو حکومت کی افواہ سازی اور غیر یقینی پیدا کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں سیاسی تجزیہ نگارحضرات کا خیال اب یہ ہے کہ یہ بھی ایک مخصوص گروہ کی مخصوص چال ہے کہ عام انتخابات کا ٹیمپو نہ بن سکے، بے یقینی اور بددلی ہو تو انتخابی نتائج ایک مرتبہ پھر معلق پارلیمنٹ والے ہوں جیسا کہ 1988ءسے 1990ءاور93ءکے بعد اب 2008ءمیں بھی ہوا۔ اس سے پہلے 2002ءمیں بھی صورت حال تو معلق والی تھی جسے جبراً اکثریت والی بنا لیا گیا، اب خیال یہی ہے کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل کرنے سے روکنے ہی کے لئے ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور مہرے آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ اب یہ اہم سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس غیر یقینی صورت حال کو ختم کریں، حزب اقتدار اور حزب اختلاف پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
یوں بھی خود سیاسی جماعتوں کے اندر بھی یکسوئی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کے ملاپ کو بھی نظر لگانے کی کوشش جاری ہے اور اس کے دشمن باہر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، اتحاد کے اندر ہی موجود ہیں۔ خود نائب وزیراعظم پرویز الٰہی چودھری احمد مختار کی نشست پر الیکشن لڑنے کا اعلان کہ یہ آبائی نشست ہے جہاں سے چودھری شجاعت حسین ہارے تھے۔ اب جیتنے والے چودھری احمد مختار کہتے ہیں کہ وہ ہر قیمت پر انتخاب لڑیں گے۔
دلچسپ صورت حال چودھری احمد مختار اور سید فیصل صالح حیات کے بیانات نے پیدا کردی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کا اتحاد چلنے والا نہیں۔ فیصل صالح حیات بھی پیپلزپارٹی کے ایم این اے تھے اور پیٹریاٹ ہو کر ق لیگ والے بنے تھے، اب آزاد الیکشن لڑنا چاہتے اور مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کے انضمام کی خواہش رکھتے ہیں جو شاید ممکن نہ ہو۔ ایسی باتیں بھی کنفیوژن کا باعث بنتی ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں، سیاسی بڑوں کا فیصلہ ہے کہ الیکشن ہوں تو ہوں گے تاہم ان کو خود غیر یقینی ختم کرنا چاہئے کہ اسے پری پول رگنگ کہا جائے گا۔
مخصوص طبقہ