ہائے! یہ سموں کی تصدیق اور عوام؟
موبائل فون پر کمپنی والوں کی طرف سے پیغام تھا کہ حکومت کی ہدایت کے مطابق موبائل سموں کی تصدیق جاری ہے، لہٰذا آپ اپنے قومی شناختی کارڈ کے ساتھ نزدیکی کسٹمر سروس یا سنٹر حاضر ہو کر سم کی تصدیق کرا لیں ورنہ سم بند کر دی جائے گی۔ ہمارے پاس پرانا نمبر پری پیڈ ہے جو ہم نے خود شناختی کارڈ کی بنیاد پر لیا اور یہ باقاعدہ ہمارے نام پر ہے۔ سوچا کچھ وقت ہو گا اس لئے دفتری امور کے بوجھ کی وجہ سے ایک روز کی تاخیر ہوئی،رات کو فون استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایک رسیلی آواز والی ریکارڈنگ سنائی دی:معزز صارف! آپ کا نمبر سم تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ سم کی تصدیق کے لئے نزدیکی کسٹمر سروس سے رجوع کریں، صدمہ ہوا، دُکھ تو یہ تھا کہ ایک روز کا بھی وقت نہیں دیا گیا اور پھر یہ نمبر تو باقاعدہ ہمارے اپنے نام پر ہے، درمیان میں ایک بار موبائل گم ہوا، تو سم بند کرانے کے بعد نئی حاصل کرنے کے لئے بھی شناخت کے مرحلے سے گزرے اور اپنے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی بھی جمع کرائی تھی۔
بہرحال مرتا کیا نہ کرتا،صبح دفتر آ کر پہلا کام کسٹمر سروس پر حاضری تھی، نوجوان لیپ ٹاپ پر کھڑے تصدیق ہی کا کام کر رہے تھے۔ شناختی کارڈ دیا اور فون نمبر بتایا،ہمیں دائیں ہاتھ کا انگوٹھا، کمپیوٹرائز (اسے شاید بائیو میٹرک کہتے ہیں) آلے پر رکھنا پڑا، جواب ملا تصدیق نہیں ہو رہی۔عرض کیا یہ کیسے ممکن ہے۔ ہم نے خود باقاعدہ کوائف جمع کرا کے نمبر لیا تھا، انہوں نے پھر سے انگوٹھا رکھنے کو کہا اور نتیجہ پھر وہی تھا،جب ہم نے تھوڑا اصرار کیا اور یہ بھی بتایا کہ فون گم ہونے پر دوبارہ سم بھی کوائف سمیت جمع کرا کر لی گئی، مذکورہ نوجوان نے اپنے قریبی ساتھی سے مدد لی۔ انہوں نے کوئی دم درود بتایا، محترم نے کی بورڈ سے چھیڑ چھاڑ کی اور مژدہ سنایا کہ دو گھنٹے تک نمبر کھل جائے گا، ہم منتظر رہے اس عرصے میں کمپنی کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ یہ نمبر آپ کے نام پر تبدیل کر کے رجسٹر کر دیا گیا ہے، ہمارے لئے یہ افسوس کا مقام تھا، چنانچہ فون پرموبی لنک کی کسٹمر سروس سے رجوع کیا اور آپریٹر سے بات کی ہماری شکایت تھی کہ ہمارا نمبر اول روز سے ہمارے نام پر ہے،ایسا کیوں کیا گیا۔ چند لمحوں پر جواب دیا گیا۔ جی! نہیں! آپ کا یہ نمبر آپ ہی کے نام پر ہے اور سوری کہہ کر جان چھڑا لی گئی۔
یہ تو موبائل کمپنی والوں کی اپنی کارکردگی کا عالم ہے، جبکہ اب ہر سم کی تصدیق پر صارف کے اکاؤنٹ میں سے 10روپے وصول کر لئے جاتے ہیں کہ یہ بائیو میٹرک تصدیق کی فیس ہے، اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق مُلک میں دس کروڑ سے زائد سمیں چل رہی ہیں۔ ایک ایک صارف کے پاس مختلف کمپنیوں کی دو دو تین سمیں ہیں۔خود ہمارے اپنے دو بچوں نے اپنے اپنے موبائل فون کے لئے ہمارے شناختی کارڈ پر سم لی ہوئی ہے ان کی تصدیق ہونا ہے۔ یہ الگ قصہ ہے، جو عرض کرتے ہیں۔ فی الحال تو یہ بتا دیں کہ حکومت نادرا کے بائیو میٹرک سسٹم کے نام پر اب تک ایک ارب روپے وصول کر چکی اور جب تک مکمل تصدیق ہو گی حکومت کو ایک کھرب روپے کی آمدنی ہو چکی ہو گی اور ٹیکس وصول کرنے کے اہداف کی کمی کو یوں بھی پورا کیا جا سکے گا۔
اس وقت مُلک میں سب سے بڑا کاروبار ہی موبائل کمپنیوں کا ہے، ان کمپنیوں نے ہی تو تشہیرکر کر کے بازاروں اور چوراہوں پر پھٹے اور کیبن لگا لگا کر سمیں فروخت کیں اور تصدیق کئے بغیر کیں، حالانکہ جب ہم نے باقاعدہ کسٹمر سروس سے شناختی کارڈ کے اندراج کے بعد سم لی تو شناختی کارڈ کی تصدیق وہیں کر لی گئی تھی۔ ان کیبن اور پھٹے والوں کے پاس تو ایسا کوئی نظام نہیں تھا، اب ان کمپنیوں کی غلطی یا لالچ کی سزا صارفین بھگت رہے ہیں، جن کے جائز نمبر ہیں وہ پریشان ہیں، جن کے جعلی ہیں ان کو نمبر بند ہونے کی کوئی فکر نہیں کہ وہ کوئی اور راستہ تلاش کر لیں گے کہ آج کل نادرا آفس سے حقیقی فرد کو اصلی کارڈ حاصل کرنے کے لئے دھکے کھانا پڑتے ہیں، جبکہ جو حضرات غلط کام کرتے ہیں۔ وہ غلط ناموں، غلط تصویر اور غلط پتوں والے اصل شناختی کارڈ بھی حاصل کر لیتے ہیں اور ایسے کارڈوں پر حاصل کئے گئے نمبروں کی تصدیق بھی ہو جائے گی۔
اب حکومت کی طرف سے تصدیق پر زور دیا گیا تو موبائل کمپنیوں نے یہ بوجھ بھی صارفین پر ڈال دیا۔ گزشتہ روز ہم اپنے دو بچوں کی سموں کی تصدیق کے لئے کمر بستہ ہوئے تو پتہ چلا کہ جس کمپنی کی سم ہو گی تصدیق بھی اُسی کے کسٹمر سنٹر سے کرانا ہو گی۔ہم وارد کے سنٹر پر گئے تو حیران رہ گئے کہ چھوٹی سی دکان پر لوگ بھرے پڑے تھے اور صرف ایک صاحب لیپ ٹاپ سامنے رکھے تصدیق کا کام کر رہے تھے، اب یہ امر واضح ہے کہ نمبر بہت زیادہ ہیں،درست کسٹمر سنٹر بہت کم ہیں کہ سموں کی فروخت تو بازاروں میں کی گئی، تصدیق اس سنٹر سے ہو گی،جو آلات اور سازو سامان سے لیس ہے ایسے مراکز کم ہیں۔ قدرتی طور پر بھیڑ لازم ہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ ان کو تصدیق کے لئے پورا دن خوار ہونا پڑا کہ درمیان میں جب لوڈشیڈنگ ہوتی تو یہ کام بھی ٹھپ ہو جاتا اور برقی رو کی بحالی پر پھر شروع ہوتا تھا۔
یہ درست کہ جرائم پیشہ حضرات اور دہشت گرد موبائل استعمال کرتے اور ان کے ذریعے جرائم بھی کئے جاتے ہیں، لیکن عام صارف کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں وہ تو موبائل استعمال کرنے کا مجرم ہے۔ جرم کرنے والے تو اب بھی شناخت کرا کے الگ ہو رہے ہیں یا پھر نمبربند کرا کے نیا انتظام کرنے میں مصروف ہیں، ہماری اطلاع تو یہ بھی ہے کہ جرائم پیشہ جو سم جرم کے سلسلے میں استعمال کرتے اسے پھینک دیتے ہیں اور نئی سم استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارا سوال تو یہ ہے کہ عوام اور صاف ستھرے شہریوں کے لئے پہلے مصائب کم ہیں کہ ان کو ایک نئے چکر میں ڈال دیا گیا، بعض دوستوں کا خیال ہے کہ موبائل بائیکاٹ مہم چلائی جائے۔ ابتدا میں ایک سے زیادہ سمیں واپس کی جائیں، جب ایسا ہو گا تو ان کمپنیوں کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ہم بھی اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ ضرورت ہے تو ایک ہی سم رکھیں اور کمپنی اپنی پسند کی لیں۔ کیا حکمران عوام کو مالی نقصان اور پریشانی سے نجات دلائیں گے؟
قومی اسمبلی کے سپیکرایاز صادق بھی مشکل میں پڑے، ان کے انگوٹھے کے نشان سے شناخت نہ ہوئی، واپس چلے گئے۔ معلوم نہیں، بیرونی ممالک کے دروے کیسے کر لئے؟