عدل کو صاحب اولاد کرنے کے لئے آپ کی ذمہ داریاں

عدل کو صاحب اولاد کرنے کے لئے آپ کی ذمہ داریاں
عدل کو صاحب اولاد کرنے کے لئے آپ کی ذمہ داریاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اصولی طورپر فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ پارلیمنٹ جب کسی امر پر متفق ہو جائے یا کثرت رائے سے فیصلہ کر لے تو وہ ملک کا قانون بن جاتا ہے۔جمہوری اصول کے مطابق فوجی عدالتیں اب ایک قانون ہے۔ امریکہ میں کانترا سکینڈل کا بہت چرچا ہوا تھا۔ سی آئی اے نے لکارا گوا کے کانترا (مخالفین حکومت) کو اسرائیلی اسلحہ ایران کو بیچ کر مدد فراہم کی تھی۔ کانگریس کانترا کو امداد دینے کے حق میں نہیں تھی۔ آخر اس معاملے کی سماعت کانگرس میں ہوئی۔ کرنل اونیل نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ کانگریس کا فیصلہ غلط ہے۔ اس پر ایک کانگریس مین نے کرنل کو کہا کہ امریکی عوام (اور ان کے منتخب ارکان ) کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غلطی کریں۔ American people have every nght to be wrongاور یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد بھی جمہوری حدود میں رہتے ہوئے کسی معاملے کی مخالفت کی جا سکتی ہے۔ فوجی عدالتوں کے مخالفین عدالت چلے گئے ہیں جمہوری عدالتوں کا فیصلہ بھی ایک قانون ہے اور سب پر اس کا اطلاق یکساں ہوتا ہے خواہ وہ حکومت ہو خواہ مخالفین ۔ اس کے بعد بھی جب عدالتیں انہیں آئینی قرار دے دیں ان کی مخالفت کا حق ختم نہیں ہوجاتا اور کسی سے یہ حق نہیں چھینا جاسکتا کہ وہ ان عدالتوں کے خلاف کوئی دلیل نہ دے یا بات نہ کرے۔
طالبان کو مگر ذراسا بھی شعورہوتو وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ جمہوری نظام جو ان کے نزدیک کفر کا نظام ہے انصاف کے لئے کیسے راہ ہموار کرتا ہے یہ جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے کہ انہیں سزائیں دلانے کے متمنی بھی ان سے کوئی بے انصافی نہیں چاہتے وہ ایسی عدالتیں چاہتے ہیں جو انصاف کرنے کے حوالے سے ہرقسم کے شک وشبہ سے بالا ہوں۔ اور جس آئین کو وہ نہیں مانتے وہی آئین ضمانت دیتا ہے کہ اگر پارلیمنٹ بھی مسلمہ انسانی، سیاسی حقوق یا اسلامی اقدار کے خلاف کوئی قانون پاس کرتی ہے تو وہ نافذ نہیں ہوسکتا اور پاکستان کی عدالتیں اسے کالعدم قرار دے سکتی ہیں۔
فوجی عدالتوں کے جواز کے لئے جو دلائل ہیں وہی اس کے عدم جواز کے دلائل بھی ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ عام عدالتوں سے دہشت گردوں کو سزائیں نہیں ملتیں۔ عدالتیں انہیں ضمانت پر رہا کردیتی ہیں اور ملزم کئی بار ان عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں،حالانکہ یہ آخری دلیل اتنی مضبوط نہیں ہے، کیونکہ اب تک جتنے دہشت گردوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں سب کے سب عام عدالتوں سے سزایافتہ تھے۔ عدلیہ سے متعلق حلقوں اور فوجی عدالتوں کے مخالفین کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کے اہل کار استغاثہ درج کرنے میں نااہلی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی تفتیش ناقص ہوتی ہے اور عدالت میں ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ عدالت کے سامنے ثبوت نہ ہوں گواہ نہ ہوں تو کیسے کسی ملزم کوسزادے سکتی ہے۔ ضمانت کی درخواست پر استغاثہ کو بتانا پڑتا ہے کہ ملزم کی ضمانت کیوں منظور نہ کی جائے۔ استغاثہ دلائل سے محروم ہوتو ملزم کو ضمانت کے قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ججز محض اپنے علم یا صوابدید پر کسی کو سزا نہیں دے سکتے۔ عدل کا ایک مسلمہ سنہری اصول عالمی طورپر مسلمہ ہے اور اسلام بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ کسی مجرم کا سزا سے بچ جانا زیادہ برائی نہیں، لیکن کسی بے گناہ کا سزایاب ہونا باعث تشویش اور عدلیہ کا نقص ہے۔

امریکہ میں یہ دونوں باتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اکثر بے گناہ سزاپاجاتے ہیں لیکن گناہ گار بھی سزا سے بچ نہیں سکتے۔ قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ کسی گناہ گار کے سزاسے بچ نہ سکنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں تفتیش کا نظام بہت اچھا ہے۔ تفتیشی افسر تفتیش کے نتائج کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ اگر عدالت میں مقدمہ ثابت نہ ہوسکے تو تفتیشی افسر کے کیریئر پر برا اثر پڑتا ہے۔ آئیے آپ کو ایک حقیقی واقعے سے اس کی مثال سمجھاؤں ۔

ایک پاکستانی تاجر نیویارک شہر کی ایک مارکیٹ میں چمڑے کی جیکٹوں کا کاروبار کرتا تھا اس بازار میں ایک سپینش(جنوبی یاوسطی امریکہ کے کسی ملک کا باسی) منشیات کا کاروبار کررہاتھا۔پاکستانی تاجر کے اس سے کسی طرح تعلقات قائم ہوگئے پاکستانی تاجر نے ایک سری لنکن باشندے سے منشیات منگوانا شروع کر دیں۔ منشیات فروش کی بہن پاکستانی تاجر کی گرل فرینڈ بن گئی اس نے پاکستانی تاجر کو مکان اور گاڑی لے دی اور یوں چمڑے کی جیکٹوں کے ساتھ ساتھ منشیات کا دھندا خوب چلنے لگا۔ ایف بی آئی نے سری لنکن کو پکڑ لیا۔ (لیکن ایف بی آئی نے ہماری پولیس کی طرح یہ نہیں کہا کہ اصل مجرم بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ) ایف بی آئی سمجھتی تھی کہ سری لنکن محض کوریئرہے اصل مجرم بیچنے والے ہیں انہوں نے سری لنکن کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اصل مجرموں تک ان کی رہنمائی کرے گا۔ ایف بی آئی نے سری لنکن سے ملنے والی معلومات پر پاکستانی تاجر کی نگرانی شروع کردی۔ کئی مہینے لگا کر ٹھوس ثبوت جمع کئے اور ایک روز اس کی دکان میں آکر اسے گرفتار کرکے لے گئے۔
سپینش منشیات فروش کو علم تھا کہ پاکستانی تاجر کو سزا ہوگئی یا اس نے بھی ایف بی آئی کو میرے بارے میں سب کچھ بتا دیا تو پھر میں نہیں بچ سکوں گا۔ اس کی بہن کا معاملہ بھی تھا۔ پاکستانی تاجر اور سپینش منشیات فروش کے پاس منشیات کی کمائی کا پیسہ بھی بہت تھا۔ انہوں نے پاکستانی تاجر کے لئے ایک بہت اچھے وکیل کا بندوبست کیا۔ امریکہ میں صفائی کے وکیل اپنے موکل کو جھوٹ نہیں سکھاتے اور وکیل استغاثہ (سرکاری وکیل یا ڈسٹرکٹ اٹارنی ) کے ساتھ مقدمے کے بارے میں تبادلہ خیال بھی کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی تاجر کے وکیل کو چونکہ ابھی اتنا موقع نہیں ملا تھا کہ وہ استغاثہ کے پاس موجود ثبوتوں کے بارے میں تفصیل حاصل کرسکتا اس نے صرف اس بنا پر پاکستانی تاجر کی ضمانت کی درخواست دائر کردی کہ پاکستانی تاجر ایک معزز تاجر ہے، جس کا فلاں بازار میں چمڑے کی جیکٹوں کا کاروبار ہے اس لئے اگر اس کی ضمانت ہو جائے تو وہ بھاگ نہیں جائے گا۔ جسے یہاں ’’فلائٹ رسک‘‘ کہا جاتا ہے جب ضمانت کی درخواست کی سماعت ہوئی تو جج نے وکیل کو ایک وڈیو دکھائی جس میں پاکستانی تاجر سری لنکن کی بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ فکر نہ کرو اگر تمہارے شوہر کا سری لنکن پاسپورٹ نہ بن سکا تو میں تمہارے شوہر کو پاکستانی پاسپورٹ بنوادوں گا اور اسے ملک سے بھگا دوں گا۔ ظاہر ہے کہ ایسے ثبوت کی موجودگی میں ضمانت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور ضمانت نامنظور ہوگئی۔
ہمارے ہاں ہاتھی کو مار مار کر تسلیم کرالیا جاتا ہے کہ وہ ہرن ہے ۔ لیکن جب مقدمہ عدالت میں پہنچتا ہے تو ہاتھی اپنے بیان سے منحرف ہوچکا ہوتا ہے۔ امریکہ میں پہلے ثبوت جمع کئے جاتے ہیں اور پھر اقبال جرم محض مقدمے کو طوالت سے بچانے کے لئے کرایا جاتا ہے۔ ملزم اس میں باقاعدہ اقرار کرتا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے وہ عدلیہ کا وقت اور پیسہ بچانے کی خاطر اقرار جرم کرتا ہے اور عدالت سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس سے نرم رویہ اختیار کرے گی۔ایسا اقبال جرم مؤکل اور اس کے وکیل کی موجودگی میں کرایا جاتا ہے اور اس سے منحرف ہونے کی کوئی صورت نہیں ہوتی ماسوا اس کے کہ اس سے منحرف ہوکر سزا پائے اور اصل مقدمے کے ساتھ ایک اور جرم بھی شامل ہو جائے۔
پنجاب میں اینٹی ٹیررسٹ فورس کے قیام سے کچھ توقعات پیدا ہوئی ہیں جنہوں نے تفتیش کے لئے جاسوسی کو بھی تفتیش کا حصہ بنانے کی سوچی ہے۔ اس کا بھی ایک قصہ سُن لیجئے کہ یہاں جاسوس کو کس چابکدستی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک پاکستانی ٹریول ایجنٹ کو ایف بی آئی پکڑ کر لے گئی کمیونٹی کے ایک نہایت بااثر امام کو اس بات کا پتا چلا تو وہ ایف بی آئی کے ہیڈکوارٹر چلے گئے اور کہا کہ ٹریول ایجنٹ کو چھوڑ دیا جائے۔ انہوں نے امام صاحب سے کہا کہ جناب امام صاحب اس ٹریول ایجنٹ نے کچھ دہشت گردوں کو ٹکٹ بیچے اور انہیں پاسپورٹ بھی بنوا کر دیئے ہیں یہ نہایت خطرناک جرم ہے اس لئے بہتر ہے آپ اس میں نہ پڑیں ۔ امام صاحب جب دفتر سے باہر نکل رہے تھے تو ایک سیاہ فام نے انہیں ہیلو کہہ کر ہاتھ ہلایا اور کہا امام مجھے پہنچانا ؟ امام نے کہا کچھ یاد آتا ہے کہ کہیں دیکھا ہے، لیکن پہچان نہیں پایا۔ معاف کیجئے آپ ہی بتا دیں۔ سیاہ فام نے ایک خاص لہجے میں کہا۔ ’’مجھے ایک ڈالر دو‘‘ یہ بھیک مانگنے والوں کا خاص انداز ہے۔ اس وقت امام صاحب کو یاد آیا کہ یہ شخص مکی مسجد کے سامنے بھیک مانگا کرتا تھا اور مسجد کے ساتھ والی بلڈنگ کے اوپر ٹریول ایجنٹ کی ٹریول ایجنسی تھی۔
یہاں اکثر خطرناک گروہوں کو توڑنے کے لئے سرکاری جاسوس ان میں شامل کردیئے جاتے ہیں جو ان گروہوں کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ بھی کرتے ہیں ان سے غلط کام بھی کراتے ہیں اور انہیں ایسے موڑ پر لے آتے ہیں کہ سارے کا سارا گروہ دھر لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چھاپہ مارا جاتا ہے تو نچلے درجے کے لوگ پکڑے جاتے ہیں اصل مجرم بھاگ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مجرم گروہوں میں سرکاری جاسوسوں کے برعکس ہماری پولیس سی آئی ڈی وغیرہ میں مجرموں کے جاسوس ہوتے ہیں جو مجرموں کو کسی بھی کارروائی سے خبردار کردیتے ہیں اور ہمارے مجرم سزایافتہ ہو کر جیل جاتے ہیں تو وہاں سے بھی وارداتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ فوجی عدالتیں دوسال کے لئے ہیں خود وزیراعظم انہیں عبوری مدت کا فیصلہ قراردے رہے ہیں اگر یہ دوسال رہنی ہیں تو کم از کم اس عرصے میں تمام عدالتوں میں ججوں اور عملے کی تعداد پوری کرنے پر بھی توجہ دی جائے تفتیشی نظام کو بھی بہتر بنایا جائے۔ فوجی عدالتیں کیسی ہی عبوری کیوں نہ ہوں یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ اگر آپ کو احساس ہے کہ ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ وبازار میں تو عدل کو صاحب اولاد ہونا چاہئے کہنے سے کام نہیں چلے گا عدل کو صاحب اولاد کرنے کے لئے آپ کو بھی کچھ کرنا ہوگا۔

مزید :

کالم -