اسامہ یا ڈرامہ۔۔۔

ایبٹ آباد میں اُسامہ تھا یا یہ ایک ڈرامہ تھا، ہمارے ہاں یہ معمہ کبھی حل نہیں ہو پائے گا کیونکہ ہماری حالت تو یہ ہو چکی کہ اگر لیاقت علی خان سے بینظیر بھٹو تک ہر قاتل اورمقتول آکر اپنی کہانی خود سنادے تو ہم پھر بھی مطمئن نہ ہوں۔
یکم اور 2مئی 2011ء کی درمیانی رات ،وہ اچانک ہڑبڑا کراْٹھاتو بیڈ کے ساتھ تپائی پر پڑا موبائل مسلسل بج رہا تھا ، اس کی نظر وال کلاک پر پڑی تو رات کے ڈھائی بج رہے تھے، فون کان سے لگاتے ہی اس کی نیند غائب ہوگئی کیونکہ دوسری طرف باس تھا ’’فوراً ایبٹ آباد پہنچو ‘‘ صرف اتنا کہہ کر اِدھر باس نے فون بند کیا تو اْدھر 15منٹ بعد اس کی گاڑی سڑک پر تھی ، رات کے اس آخری پہر خالی مگر ٹوٹی پھوٹی سٹرک پر گاڑی دوڑاتا جب وہ حسن ابدال کراس کر رہا تھا تو موبائل پھر بجا اس مرتبہ کال ایبٹ آباد ہسپتال سے ایک جونیئر افسر کر رہا تھا ، پوری بات سننے اور ایک لمبی سانس لینے کے بعد اس نے یہ کہہ کر فون بندکر دیا کہ ’’ اچھا میں وہیں آتا ہوں ‘‘۔ پھر لمحہ بہ لمحہ موبائل بجتا رہا، اپ ڈیٹ ملتی رہی اور گاڑی کی رفتار بڑھتی رہی اور دو گھنٹوں بعد ایبٹ آباد اسپتال کے ایمرجنسی گیٹ پر گاڑی سے اترنے تک وہ کافی کچھ سمجھ چکا تھا ، انتظار میں کھڑے ایک افسر نے رسمی علیک سلیک کے بعد ہسپتال کے پرائیویٹ رومز کی طرف لے جاتے ہوئے اسے بتایا ’’ سرامریکیوں نے جس گھر میں آپریشن کیا وہاں5لوگ مرے ہیں ،ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہوا ہے، چند خواتین ابھی تک وہیں ،گھر کے اردگرد سیکیورٹی اہلکار تعینات کر دیئے گئے ہیں اور جس زخمی خاتون کو ہم یہاں لائے ہیں وہ چونکہ عربی کے سوا نہ کچھ بولتی اور نہ سمجھتی ہے لہٰذا ہم نے عربی مترجم کو بلوایا ہے ‘‘۔ اسی دوران یہ افسر اسے لے کر ہسپتال کے اْس کمرے میں داخل ہوا جہاں ایک برقع پوش خاتون جس کی ٹانگ پر پٹی کی جا چکی تھی بیڈ پرلیٹی عربی میں چیختے چلاتے ہوئے بار بار عبداللہ، عبداللہ کہے جا رہی تھی۔اْس نے اسی کمرے میں دوسرے بیڈ پر 8سے 12سال کے سہمے ہوئے 4بچے بھی بیٹھے دیکھے۔ابھی 5منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ عربی مترجم آگیا اور پھر اس عورت سے گفتگو کے بعد مترجم نے جو کہانی سنائی وہ سن کر اسے یوں لگا جیسے کسی نے اچانک اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ اس زخمی عورت کا نام امل الصداح تھا اور وہ جس عبداللہ کو بار بار پکار رہی تھی وہ کوئی اور نہیں اس کا خاوند اُسامہ بن لادن تھا۔ اُسامہ کی اس 24سالہ یمنی بیوی نے بتایا کہ ’’ مَیں اور اُسامہ سُو رہے تھے کہ اچانک گھر کی کھڑکیاں اور دروازے ایسے زور زور سے بجنے لگے جیسے باہر شدید آندھی یا طوفان آگیا ہو ، ابھی میں او ر اُسامہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے کچھ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا اور کمرے کا دروازہ دو ٹکڑے ہو کر دور جاگرا ، یہ دیکھ کر مَیں بیڈ پر کھڑی ہوگئی اور اْسامہ بندوق کی طرف بڑھا کہ اسی اثناء میں اک بجلی سی کوندی اور پھر مجھے کوئی ہوش نہیں رہا‘‘، مترجم خاموش ہوا تو اس نے فون پر یہی کہانی جب اپنے باس کو سنائی توبا س نے اسے فوراً اُسامہ کے گھر پہنچنے کی ہدایت کی اور پھر کمرے سے نکلتے ہوئے اس بار اس کی نظر جب بچوں پر پڑی تو حیرت انگیز طور پر گھنگھریالے بالوں والے ان بچوں کی شکلیں اْسامہ سے ملتی دکھائی دیں۔
ہسپتال سے 10منٹ کی ڈرائیوکے بعدجب وہ اُسامہ کے گھر کے سامنے گاڑی سے اتراتو سورج نکلنے ہی والا تھا، اس نے گھر کے اردگرد سیکیورٹی اہلکار اور کچھ فاصلے پر لوگوں کو ٹولیوں میں کھڑے دیکھا ، گیٹ سے داخل ہوتے ہی وسیع وعریض صحن میں آ کر اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی توایک جانب گائے،بکریاں اور مرغیاں، جبکہ دوسری طرف مختلف قسم کی اُگی ہوئی سبزیاں دکھائی دیں ، خالصتاً عربی سٹائل میں بنے اس تین منزلہ گھر کی خار دار تاروں والی دیواریں اتنی اونچی تھیں کہ پہلی منزل کو تو دیواروں نے ہی ڈھانپ رکھا تھا۔ پہلے اسے مین گیٹ کے ساتھ جڑے اس کوارٹر میں لے جایا گیا جہاں ایک مرد کی لاش پڑی تھی (بعد میں پتا چلاکہ یہ اسامہ کے ملازم سوات کے چھوٹے خان صاحب کی لاش تھی ) پھر اسے گھر کے گراؤنڈ فلور کا وہ کمرہ دکھایاگیا جہاں قالین پر ایک مرد اورعورت مردہ حالت میں اوندھے منہ پڑے تھے (بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اُسامہ کے ساتھی اور پیغام رساں بڑے خان صاحب المعروف کویتی اور ان کی بیگم تھی ) ، اس نے دیکھا کہ لاشوں کے ساتھ جھولے میں سال سوا سال کا ایک بچہ اس وقت بھی کھیل رہا تھا ، اس نے کمرے سے نکل کر چند لمبی لمبی سانسیں لیں اور پھروہ فرسٹ فلور پر جانے کے لئے سیڑھیوں کی طرف بڑھا اور ابھی وہ آدھی سیڑھیاں ہی چڑھا تھا کہ اسے ایک درمیانے قد کے نوجوان کی خون میں لت پت لاش نظر آئی (یہ بعد میں اْسامہ کا بیٹا خالد نکلا)، سر گھٹنوں میں اور گھٹنے پیٹ کے ساتھ لگے ہوئے، اس لاش کے ساتھ پڑی رائفل دیکھ کرباآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ جب خالد کو گڑ بڑ کا احساس ہوا تو وہ گراؤنڈ فلور سے تھرڈ فلور پر اُسامہ کی طرف جاتے ہوئے سیڑھیو ں پر ہی مارا گیا۔
وہ لاش کی ایک طرف سے سیڑھیوں پرجمے خون کو پھلانگتا ہوا جب فرسٹ فلور پر آیا تو ایک کمرے میں اسے بیڈ پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر بیٹھی 4برقع پوش خواتین نظر آئیں ( بعد میں پتا چلا کہ ان میں سے اُسامہ کی دو بیویاں اور دو بیٹیاں تھیں )۔ ا س کا جونیئر بولا ’’ سر ہم انہیںیہاں سے لے جانے کی بہت کوشش کر چکے، مگر یہ یہاں سے جانے کے لئے تیار ہی نہیں ‘‘۔ خواتین پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے تھرڈ فلور پر جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں ، وہی تھرڈ فلورجو (بقول اُسامہ کی یمنی بیوی کے )آپریشن کا مرکزی پوائنٹ اور جہاں روزانہ جگہ بدل بدل کر سونے والا بن لادن اس رات موجود تھا ،اس نے تیسری منزل پر آکر دیکھا کہ اس فلور کے سب دروازوں کو بھی دھماکے سے اُڑادیا گیا تھا ، وہ ایک طرف کونے میں واقع اُسامہ کے بیڈ روم میں داخل ہوا، ایک سادہ سے بیڈ ،دوکرسیوں اور کپڑوں کی تین الماریوں والے اس کمرے میں قالین پر ابھی بھی اتنا خون تھا کہ جیسے یہاں کوئی بکرا ذبح کیا گیا ہو ، اس نے فرش پر بیٹھ کر غور سے دیکھا تو قالین کے ایک حصے پر خون آلود باریک چیتھڑے نظرآئے ، وہ ان چیتھڑوں کو دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ مغز کے چیتھڑے ہیں مطلب اُسامہ کو گولی سر میں ماری گئی ،وہ بیڈ روم سے نکل کراسی فلور پر نسبتاً اْس چھوٹے کمرے میں آیا جہاں مذہبی کتابیں ،بلڈ پریشر چیک کرنے والا آلہ ،قد اور وزن ماپنے والی مشینیں ، بے حساب ولایتی دوائیاں اور بے شمار دیسی معجونوں کی ڈبیاں بکھری پڑی تھیں ، بچے کُھچے ہارڈ وئیر اور ڈھیر ساری تاروں کو دیکھ کر اسے یوں لگا کہ جیسے یہاں کمپیوٹر ز تھے اور جو امریکی اپنے ساتھ لے گئے ، ویسے تو پورے گھر کی ہی تلاشی لی گئی تھی مگر اس فلورکا تو کونا کونا چھانا گیا، پھر اس نے سبزیوں ،فروٹ ،کھجوروں ،شہد ،زیتون مطلب کھانے پینے کی اشیاء سے لبالب بھرے کچن میں بھی جھانکا ،وہ مضبوط سلاخوں اور چھوٹی کھڑکیوں والے اس گھر کی چھت پر بھی گیا اور پھر دو گھنٹے کے جائزے کے بعد اسے یہ پکا یقین ہو چکا تھا کہ اس آپریشن کی نجانے کتنی بار ریہرسلز کرنے والی امریکی ٹیم کو اس گھرکے ایک ایک انچ کا پتا تھا ، اس صبح8بجے کے قریب اُسامہ ہاؤس سے نکلتے ہوئے اس نے صحن میں اْس ہیلی کاپٹر کی راکھ اور بکھرے ٹکڑے بھی دیکھے کہ جو جب دیوار سے ٹکرایا تو پھر امریکیوں نے اسے خود ہی تباہ کر دیا اوراس کی نظر اس دُم پر بھی پڑی کہ جسے بعد میں امریکیوں نے واپس لینے کے لئے اس لئے ہر ممکن کوشش کی کیونکہ یہ اس بے آواز سپر ہیلی کاپٹر کی دْم تھی کہ جوایسے میٹریل کا بنا ہوا کہ ریڈار کی نظر میں ہی نہ آسکے۔
اب اگر ہم شکیل آفریدی اینڈ کمپنی کی مخبری اور اس پُر خطر امریکی مہم کو بھول بھی جائیں اور اگر ہم اْسامہ ہاؤس سے نکلے کئی کلو سونے ، بے حساب کیش،جہادی لٹریچر اور بن لادن سے جڑی ہر چیز کو نظر انداز بھی کر جائیں تو بھی 24سالہ امل الصداح، پی ایچ ڈی شریفہ السہام اور ایم اے پاس خیریہ کا یہ بتا نا کہ وہ اُسامہ کی بیویاں، مریم اور سمایا کا کہنا کہ اْسامہ ان کا باپ اور ہم سب اُسامہ کے ساتھ رہ رہے تھے اور پھر اْسامہ کا ڈی این اے بچوں سے matchکر جانا، بھلا اس کے بعد کسی شک وشبہے کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے مگر بات پھر وہی کہ ایبٹ آباد میں اْسامہ تھا یا یہ ایک ڈرامہ تھا، ہمارے ہاں یہ معمہ کبھی حل نہیں ہوپائے گا کیونکہ ہماری حالت تو یہ ہوچکی کہ اگر لیاقت علی خان سے بینظیر بھٹو تک ہر قاتل اور مقتول آ کر اپنی کہانی خود سنا دے تو ہم پھر بھی مطمئن نہ ہوں۔ (بشکریہ: روزنامہ جنگ)