ہوشیار ! حکومت جانے والی ہے؟

ہوشیار ! حکومت جانے والی ہے؟
 ہوشیار ! حکومت جانے والی ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پیپلز پارٹی کے منظور وسان عجیب و غریب خواب دیکھنے اور ان کی الٹی سیدھی تعبیریں بنانے کی وجہ سے مشہور ہیں مجھے نہیں یاد کہ موصوف نے گزشتہ کئی سالوں سے جتنے خواب دیکھے یا جتنی پیش گوئیاں کیں ان میں سے کبھی کوئی پوری ہوئی ہو ، منظور وسان شیخ رشید سے متاثر ہیں یا پیر پگاڑا سے اس بارے میں انہوں نے کبھی نہیں بتایا۔ آج کل انہوں نے ایک اور پیش گوئی کی ہے جس میں کہا ہے کہ مارچ اپریل کے مہینوں میں قوم کو خوفناک سرپرائز ملیں گے اسی طرح پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما مولا بخش چانڈیو نے بھی منظور وسان کی پیروی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ حکومت جانے والی ہے اس کی وجہ موصوف نے یہ بتائی ہے کہ پانامہ کیس کی وجہ سے حکومت بالکل پاگل ہو چکی ہے لہٰذا حکومت ختم ہو جائیگی۔ منظور وسان ہوں مولا بخش چانڈیو ہوں پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان ہوں یا پھر عوامی لیڈر شیخ رشید سب کے سب یہ تو کہتے ہیں کہ حکومت جا رہی ہے صبح گئی یا شام گئی مگر ان میں سے کوئی دوست یہ نہیں بتاتا کہ ایک منتخب حکومت آخر جائے گی کیسے۔ پانامہ کیس میں بھی اگر فیصلہ وزیر اعظم کیخلاف آتا ہے تو اس صورت میں بھی زیادہ سے زیادہ وزیر اعظم نا اہل ہو سکتے ہیں ان کی جگہ (ن) لیگ میں سے کوئی دوسری شخصیت آسانی کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہو سکتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں (ن) لیگ کے پاس واضح اکثریت موجود ہے اور جہاں تک پانامہ کیس میں ثبوتوں ، دلائل اور فاضل ججز کے ریمارکس کا تعلق ہے ان میں سے کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی ہے جس کی بنیاد پر ابھی سے ہم اس نتیجہ پر پہنچ جائیں کہ کل حکومت جا رہی ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ عدالتی فیصلوں اور ججوں کے ریمارکس میں بہت فرق ہوتا ہے اور ویسے بھی عدلیہ تحقیقاتی ادارہ تو ہے نہیں عدلیہ کے سامنے دن دیہاڑے قتل بھی ہو جائے تب بھی عدلیہ کو ملزم کو مجرم بنانے کیلئے گواہوں اور ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کیلئے ظاہر ہے عدلیہ کو ریاستی اداروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور آج کے حالات میں اگر عدلیہ ایف آئی اے ، ایف بی آر یا نیب کو حکمران خاندان کا سچائی پر مبنی ریکارڈ پیش کرنے کیلئے حکم دیتی ہے تو آپ کو کون سے ادارے کا کون سا فرد ایسا نظر آتا ہے جو اپنی نوکری کو رسک میں ڈال کر یہ اعلان کریگا کہ وہ یہ ریکارڈ لیکر صبح سپریم کورٹ میں جا رہا ہے خاص کر ایسے حالات میں جب عالمی سطح پر سروے رپورٹس ایسی آ رہی ہوں جس میں میاں نواز شریف سب سے زیادہ پاپولر سیاسی لیڈر اور مسلم لیگ (ن) سب سے موثر سیاسی جماعت قرار پائے اور حکمران یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہوں کہ 2018 ء کا انتخاب تو ہم جیت چکے ہیں۔ ہماری نظر تو 2023 ء کے انتخابات پر ہے۔ ملک میں کوئی شخصیت کوئی ادارہ حکمرانوں اور حکمران جماعت کو عملاً چیلنج کرنے یا ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہا، تو ایسے حالات میں چند سر پھرے اگر حکمرانوں کیخلاف روزانہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے چکر لگاتے بھی رہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے اور پھر سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان نواز شریف پر کرپشن کے جو الزامات لگا کر سمجھ رہے ہیں کہ (ن) لیگ اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نیست و نابود ہو جائے گی کیا (ن) لیگ کے ووٹرز کے نزدیک لندن میں دوچار فلیٹ خریدنا جرم بھی سمجھا جاتا ہے ؟ باقی رہ گئی بات پانامہ کیس کے مصدقہ ثبوتوں کی تو اس حوالے سے ایف بی آر کی طرف سے کسی بھی وقت سپریم کورٹ میں اس نوعیت کا جواب داخل کروایا جا سکتا ہے کہ جن ممالک میں آف شور کمپنیاں قائم کی گئی تھیں ان سے تحریری طور پر مصدقہ ریکارڈ مانگا گیا ہے مگر ان ممالک نے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کی ایک توجیح یہ پیش کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کا ان ممالک کے ساتھ دستاویزات کے تبادلہ کا کوئی معاہدہ نہ ہے اور دوسری دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ پانامہ کا ریکارڈ چونکہ مختلف فرموں سے چوری شدہ ہے اور اصل ریکارڈ پرائیویٹ فرموں کی ملکیت ہے لہٰذا اس میں حکومت کیا کر سکتی ہے یہ وہ کہانی ہے جس پر ساتھ ساتھ کام جاری ہے کئی حکومتی کلاکار دن رات ایسے کاغذات تیار کر رہے ہیں اور باشادہ سلامت کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ جہاں تک آج کل ہمارے تجزیوں میں بعض حضرات اچانک سیاست و حکومت اور حکمرانوں کو اعلیٰ ترین اخلاقی معیار اور ماڈل کے مطابق پرکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ حکمران اخلاقی طور پر پانامہ کیس کی وجہ سے تباہ ہو گئے ہیں تو ایسے حضرات کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کب اور کس نے اخلاقیات کی بنیاد پر سیاست کی اخلاق کی بنیاد پر الیکشن جیتا اور پاکستان میں کب سیاست اخلاقیات کے اعلیٰ ترین معیار پر پوری اتری تھی، پاکستانی سیاست میں تو ہمیشہ یہ فارمولا چلتا رہا ہے کہ
جیہڑا جنا لُچا او اوہناں اوچا
ہمارے ہاں تو اہل سیاست نے سیاست کو فل ٹائم بزنس سمجھ رکھا ہے اور آج کل سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے اہل سیاست جس چیز کو گھر چھوڑ کر آتے ہیں وہ عزت ہی ہے۔ ہمارے اردگرد کا ماحول بدل گیا ، سیاست بدل گئی ، اطوار بدل گئے ، انسان بدل گئے، زمانہ بدل گیا، عزتوں کے معیار بدل گئے اور خاص کر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ کا جب سے ٹرمپ صدر بنا ہے اس کے بعد تو پوری دنیا میں سیاست اور سیاست میں عزت اور شرافت کے معیار بدل گئے کیونکہ امریکہ ٹرینڈ سیڑ کا درجہ رکھتا ہے ، لہٰذا اب آئندہ انتخابات میں اخلاقیات وغیرہ کی بنیاد پر نہ الیکشن لڑا جا ئیگا اور نہ ہی لوگ اس بنیاد پر ووٹ دیں گے پاکستان میں سیاست کل بھی مینجمنٹ کا نام تھی آج بھی یہی ہے لہٰذا آنے والے کل میں بھی سیاست اور انتخابات مینجمنٹ کی بنیاد پر ہی جیتے اور ہارے جائیں گے اس کام میں کون زیادہ مہارت رکھتا ہے کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں لہٰذا مجھے مولا بخش چانڈیو کی حکومت جانے کی منطق سمجھ نہیں آ سکی۔

مزید :

کالم -