عمران خان چالیس کروڑ کی پیشکش کرنے والے کا نام ظاہر کریں
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سینیٹ کی ایک نشست دینے کے لئے ایک امیدوار نے انہیں 40کروڑ روپے کی پیش کش کی ہے، صوبے میں ارکانِ صوبائی اسمبلی کے ووٹ خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے، اُن کا کہنا تھا کہ وہ خود پشاور جائیں گے اور معاملے کی نگرانی کریں گے انہوں نے تجویز پیش کی کہ قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کے انتخابات بھی براہ راست ہونے چاہیں تاکہ بھاری رقوم کے استعمال کا راستہ روکا جاسکے، یہ صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے اور ہم فکر مند ہیں، لیکن ہم سارے معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، وہ اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران ان خیالات کا اظہار کررہے تھے۔
عمران خان نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جو سینیٹ کی ایک ٹکٹ کے عوض انہیں 40کروڑ روپے کی پیش کش کررہا ہے، عین ممکن ہے اس گمنام شخصیت نے کسی دوسری پارٹی کے سربراہ کو بھی ایسی ہی پرکشش پیش کش کردی ہو، اب تک تو کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا مرحلہ گزر چکا ہے اور یہ امیدوار اگر الیکشن لڑنے میں سنجیدہ ہوگا اور پیسے خرچ کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار بھی تو اس نے ممکن ہے کاغذات نامزدگی داخل بھی کردئے ہوں اِس لئے عمران خان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسے شخص کا نام ظاہر کردیں تاکہ عوام کو معلوم ہوسکے کہ الیکشن میں کیسے کیسے لوگ سر گرم عمل ہیں، ہمیں توقع ہے کہ عمران خان اس شخص کے بارے میں تمام تفصیلات قوم کے سامنے رکھیں گے کیونکہ وہ اپنے دعوے کے مطابق کرپشن کے خلاف جہاد کررہے ہیں اور اس جہاد کا تقاضا یہی ہے کہ جس شخص نے انہیں اتنی بھاری رشوت کی پیش کش کی ہے اس کا نام خفیہ نہ رکھا جائے اس سے پہلے انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے متعلق بھی ایسی ہی بات کی تھی تو انہوں نے نہ صرف اس کی تردید کردی تھی بلکہ ایک عدالت میں اُن کے خلاف ہر جانے کا دعویٰ بھی کررکھا ہے، جس کی سماعت کی کئی تاریخیں مقرر ہو چکی ہیں لیکن عمران خان ابھی اس کیس میں پیش نہیں ہوئے۔
سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خریدوفروخت کا سلسلہ گزشتہ کئی انتخابات سے جاری ہے، اب کی بار تومعاملہ تمام ترحدود و قیود کو عبور کرتا ہوا نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کوبھی کہنا پڑا کہ وہ اُن لوگوں کو شرمندہ کریں گے اور اُن کا مقابلہ کریں گے جو ضمیروں کی خرید کے بعد الیکشن جیت کر سینیٹ میں آئیں گے، عمران خان کے انکشاف سے اس بات کی توثیق ہوجاتی ہے کہ وزیر اعظم نے جو بات کہی وہ واقعی درست ہے، جو سیاستدان یاسینیٹ کا امیدوار عمران خان جیسے شخص کو جن کے بارے میں معلوم ہے وہ کرپشن کے خلاف کھل کر بولتے اور اس کے تدارک کے لئے سرگرم عمل ہیں ٹکٹ کے لئے 40 کروڑ کی پیش کش کرسکتا ہے وہ لازماً اِس معاملے میں سنجیدہ بھی ہوگا اس طرزِ عمل سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ معاملات اس حد تک دِگرگوں ہوگئے ہیں کہ کھلے عام ایسی پیش کشیں ہونے لگی ہیں اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ عمران خان اب اس نام کو خفیہ نہ رکھیں۔
اس وقت سینیٹ کے جو امیدوار میدان میں ہیں معدودے چند کو چھوڑ کر سب کے سب ماشااللہ ارب پتی ہیں اور یہ معاملہ کسی ایک جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ہر جماعت نے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتے وقت اس امر کا خصوصی طور پر اہتمام کیا ہے کہ ٹکٹ ایسے لوگوں کو ملے جن کے پاس وافر دولت ہو،غالباً ایسا کرتے وقت یہ پہلو بھی مَدِ نظر رکھا گیا ہے کہ عین ممکن ہے ان امیدواروں کو بھی پیسے خرچ کرنے پڑ جائیں اس سلسلے میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران جب عمران خان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بڑی صاف گوئی سے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری پارٹی کے لئے فنڈنگ کرتے ہیں اور ہم جو جلسے کرتے ہیں اُن کے اخراجات بھی ایسے ہی لوگ اُٹھاتے ہیں اس لئے ہم اِن کو ٹکٹ جاری کرنے میں ترجیح دیتے ہیں۔
فی زمانہ سیاست ویسے بھی پیسے کا کھیل بن کر رہ گئی ہے، اب تو ایک ایک جلسے پر لاکھوں بلکہ کہیں کہیں کروڑوں بھی اٹھ جاتے ہیں وہ زمانہ گذر گیا جب جلسے سننے والے مقررین کی محبت میں یا ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے جلسہ گاہ میں آتے تھے اور ننگی زمین پر بیٹھ کر جلسہ سنتے تھے، زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا تھا کہ اگلی صفوں میں دریاں بچھا دی جاتی تھیں اب تو بڑے اہتمام کے ساتھ کرسیاں لگائی جاتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ پانچ ہزار کرسیاں لگا کر دعویٰ تیس ہزار کا کردیا جاتا ہے، پھر ان کرسی نشین سامعین کے لئے بریانی کے بکس بھی تیار کرائے جاتے ہیں اور سٹیج سے باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے کہ لوگ جائیں نہیں کھانا آرہا ہے، لیکن سامعین کا موڈ نہ ہو تو کھانے کی اس دعوت کے باوجود کرسیاں خالی رہ جاتی ہیں، اب ایسے جلسوں کی کامیابی کا خرچہ تو ظاہر ہے پارٹی کے ہمدردوں نے ہی اٹھانا ہوتا ہے، کروڑوں کا یہ خرچ دو دو چار چار روپے چندہ جمع کرکے تو پورا نہیں کیا جا سکتا اس کا بوجھ تو لازماً کسی ایسے رہنما یا کارکن پر ہی ڈالا جا سکتا ہے جو کروڑوں میں کھیلتا ہو۔ سیاسی جماعتوں کے اندر اخراجات تو اسی طرح ہی پورے ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ جماعتیں سیاست میں بری طرح ناکام ہو گئیں جن کے پاس یہ بھاری اخراجات اٹھانے کا یا تو حوصلہ نہیں تھا یا پھر وہ بوجوہ اس کا انتظام کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔جن سیاسی جماعتوں نے دال روٹی سے کام چلانے کی کوشش کی وہ بہت تھوڑے وقت میں سیاست کے میدان سے رخصت ہو گئیں کوئی مانے یا نہ مانے سیاسی میدان میں وہی رہنما کامیاب ہیں جو بے حد و حساب وسائل رکھتے ہیں انہی وسائل کی بنیاد پر ہی سیاست میں مقام بنایا جاتا ہے اور پارٹی سربراہ کی قربت حاصل کی جاتی ہے۔ اب تو سنا ہے جو لوگ اپنی پارٹیاں چھوڑکر کسی ایسی جماعت میں شمولیت کرتے ہیں جس کی کامیابی کے امکانات ہوتے ہیں تو وہ اس نئی جماعت میں اپنی جگہ اور مقام بنانے کے لئے پیشگی کروڑوں روپے ’’پارٹی فنڈ‘‘ میں دے دیتے ہیں۔ یہ پارٹی فنڈ بھی عملاً پارٹی کے سربراہ کے تصرف میں رہتا ہے اور پارٹی اخراجات کے لئے انہی رہنماؤں کی جانب نگاہیں اٹھتی رہتی ہیں جو پارٹی کے اخراجات اٹھانے کی شہرت رکھتے ہیں۔
ہم انہی کالموں میں یہ تجویز پیش کر چکے ہیں کہ سینیٹ کے بالواسطہ الیکشن کا طریق کار تبدیل ہونا چاہئے کیونکہ اس طریق کار میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ وزیر اعظم عباسی اور اپوزیشن لیڈر عمران خان دونوں کے ارشادات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ سینیٹ الیکشن میں پیسے کا استعمال ہو رہا ہے آنے والے دنوں میں اس کا استعمال مزید بڑھے گا۔ اگر پارلیمنٹ کے موقر ایوان کی نشستیں اس طرح خریدی اور بیچی جاتی رہیں تو سیاست جلب زر کے کھیل کی نذر ہو جائیگی اور یہ ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں ہو گی۔ اس لئے اس کی حوصلہ شکنی کے لئے ضروری ہے کہ پیسے کے زور پر سیاست کرنے والوں کو ناکام کیا جائے اور یہ اسی صورت ہو سکتا ہے جب ان چہروں سے نقاب اتارا جائے، امید ہے عمران خان اس نیک کام کا آغاز کر دیں گے۔