سینیٹ میں حقیقی نمائندگی کا سوال
سینیٹ پارلیمنٹ کا ایسا ایوان ہے، جس میں چاروں صوبوں کی نشستیں برابر ہیں، آئین بنانے والوں کی منشاء غالباً یہ تھی کہ قومی اسمبلی میں آبادی کے لحاظ سے نشستیں ہوں گی اور عددی اکثریت کے باعث بڑے صوبے چھوٹے صوبوں کا حق ماریں گے، جس کا راستہ روکنے کے لئے ایوانِ بالا، یعنی سینیٹ کو متوازن رکھاگیا، مگر اس ایوان میں نمائندگی کے حوالے سے ہمیشہ مختلف کہانیاں سامنے آتی رہیں، یہ ایوان جسے قومی ہم آہنگی کا مرکز ہونا چاہئے تھا، پیسے والوں کی آما جگاہ بن گیا۔
یہ آج کی بات نہیں سینیٹ کا ممبر بننے کے لئے ہمیشہ کروڑوں روپے کی بولیاں لگتی رہی ہیں، نجانے اس ممبر سینٹ کے پیچھے کون سا قارون کا خزانہ چھپا ہوا ہے کہ اس پر کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں۔ جب اس راستے سے لوگ آئیں گے تو ان کی کارکردگی بھی وہی ہوگی جو اکثر سینیٹرز کی نظر آتی ہے۔ خیر یہ تو اس سارے معاملے کا ایک پہلو ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سینیٹ میں چاروں صوبوں کی یکساں نمائندگی کے باعث پارلیمنٹ میں سب کی موثر نمائندگی ہوجاتی ہے، تو یہ بھی ایک ڈھکوسلا ہے، ایک خوش فہمی ہے، حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ سینیٹرز وہی کرتے ہیں، جو ان کی سیاسی جماعت کہتی ہے۔
وہ صوبے کی نہیں اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں، ان میں اتنی سیاسی جرأت کم ہی ہوتی ہے کہ اپنے لیڈر کو صوبے کے لئے امتیازی پالیسی سے روک سکیں، یوں یہ بہت بڑا فورم عملاً ربڑ سٹیمپ کی مانند کام کرتا ہے۔
چیئرمین سینٹ رضا ربانی چونکہ منجھے ہوئے سیاستدان اور پارلیمنٹرین ہیں، اس لئے انہوں نے کچھ ایسے کام کئے ہیں جو شاید سیاسی جماعتوں کو بھی اچھے نہ لگے ہوں۔ پیپلز پارٹی نے اچھا کیا کہ انہیں دوبارہ ٹکٹ دے دیا ہے، ایسے لوگوں کی سینیٹ میں موجودگی ضروری ہے، تاکہ ایوان جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرتا رہے۔
سینیٹ میں چاروں صوبوں کو یکساں نمائندگی دینے والوں کی منشا شاید یہ بھی ہوگی کہ ہر صوبہ سینیٹ میں اپنے تمام علاقوں کی نمائندگی کو یقینی بنائے، تاکہ کسی بھی جگہ محرومی کا احساس پیدا نہ ہو۔
جس طرح این ایف سی ایوارڈ میں یہ خامی ہے کہ صوبوں کو توپانی آبادی کے تناسب سے دیا جاتا ہے، مگر صوبے اپنے اندر اس کی تقسیم اس فارمولے کے مطابق نہیں کرتے اور وزیراعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات کسی کو دس اور کسی کو ایک دے کر امتیازی سلوک کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔
جنوبی پنجاب کا بنیادی دکھ ہی یہ ہے کہ صوبے کے تمام فنڈز پنجاب خصوصاً لاہور پر خرچ کردیئے جاتے ہیں، حالانکہ آبادی کے لحاظ سے بجٹ کا نصف حصہ جنوبی پنجاب کو ملنا چاہئے۔ یہی حال سینٹ کی نشستوں کا بھی ہے۔
مثلاً اس بار مسلم لیگ (ن) کے حصے میں پنجاب سے بارہ نشستیں آئی ہیں، اصولاً تو کم از کم چھ نشستیں جنوبی پنجاب کو ملنی چاہیے تھیں، مگر صرف ایک جنرل نشست دی گئی ہے جو رانا محمود الحسن کے حصّے میں آئی ہے، جن کا تعلق ملتان سے ہے۔
دوسری نشست ٹیکنوکریٹ کی ہے جس پر حافظ عبدالکریم کو نامزد کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ڈیرہ غازی خان سے ذوالفقار علی کھوسہ سینیٹر تھے، جن کی مدت اب ختم ہورہی ہے، جبکہ بہاولپور سے سینیٹر سعود مجید کے پاس ایک نشست ہے، یوں کل ملا کر تین نشستیں بنتی ہیں۔
ایک عام خیال یہ تھا مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب میں اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے زیادہ نشستیں دے گی، مگر ایسا نہیں ہوا، اصولاً تو ملتان کے تین ڈویژنوں کو سینٹ کی دو دو نشستیں دی جانی چاہیے تھیں، یوں چھ نشستیں جنوبی پنجاب کو مل جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا۔
نظر انداز کرنے کا جو سلسلہ ہر شعبے میں جاری ہے، وہ سینیٹ میں نمائندگی کے حوالے سے بھی جاری ہے۔ سینیٹ جو پہلے ہی خاصا متنازعہ ہوچکا ہے کہ اب بولیاں کروڑوں کی بجائے اربوں کی لگنے لگی ہیں، جب پورے ملک کی نمائندگی کا آئینہ بننے کی بجائے سینیٹر چند بڑے شہروں یا مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا گڑھ بن جاتا ہے، تو اس کی وقعت کیا رہ جاتی ہے؟
کل میں عمران خان کا ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو سن رہا تھا، جب اینکر ماریہ میمن نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے ارب پتی لوگوں کو سینیٹ کی ٹکٹیں کیوں دیں تو انہوں نے تسلیم کرلیا کہ یہ لوگ پارٹی کے لئے فنڈنگ کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کے جلسے انہی کی مالی امداد سے ہوتے ہیں، اب اس بات کو کیسے سپورٹ کیا جاسکتا ہے یا دوسرے لفظوں میں سینیٹ کو کیسے ایک جمہوری اور موقر ادارہ کہا جاسکتا ہے؟
اس طرح تو کوئی بھی پارٹی کے لئے فنڈنگ کرے اور ایوانِ بالا کا رکن بن جائے۔ وہ نظریاتی کارکن یا وہ لوگ جو علم و فضل والے ہیں اور معاشرے کے لئے ایوان میں آکر بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں، وہ تو اس ایوان میں آنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔
انتخابی سیاست پہلے ہی کروڑوں روپے کی گیم بن چکی ہے، جس میں عام آدمی حصہ ہی نہیں لے سکتا، اب سینٹ کے انتخابات کو بھی پیسے والوں کے ہاتھ بیچ دیا گیا ہے، کیا اسے جمہوریت کی ترقی کہہ سکتے ہیں، کیا ایسے انتخابات سے جن میں کھلے عام بولیاں لگتی ہوں اور وزیراعظم تک یہ رونا روئے کہ سینیٹ انتخابات کے لئے ضمیر خریدے جارہے ہیں، جمہوریت مضبوط ہوسکتی ہے؟
یہ تو جمہوریت کو مزید کمزور اور عوام کی نظر میں ذلیل کرنے والی بات ہے۔ سینٹ میں مختلف کٹیگری کی مخصوص نشستیں اس لئے رکھی گئی تھیں کہ ایوان مختلف طبقوں اور ماہرین کا ایک گلدستہ بن جائے، مگر عملاً کیا ہورہا ہے، مثلاً حافظ عبدالکریم کے لئے ٹیکنو کریٹ کی نشست کے فیصلے ہی کو دیکھئے، آیا وہ اس کی تعریف پر پورا اترتے ہیں؟ پیپلز پارٹی نے اچھا کیا کہ تھر سے تعلق رکھنے والی ایک پڑھی لکھی لڑکی کو جو ایک کارکن کی بیٹی ہے، خواتین کی نشستوں پر ٹکٹ دیا، مگر اکثریت تو ایسی خواتین کی ہوتی ہے، جو اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والی بیگمات ہوتی ہیں، جن کا ملک کی عام عورتوں کے مسائل سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
شنید ہے کہ اس بار کے تلخ تجربوں کے بعد سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار کو بدلنے کے بارے میں سنجیدہ سوچ بیچار ہورہی ہے، اللہ کرے ایسا ہو۔ عمران خان نے تو اعلان بھی کردیا ہے کہ ان کی جماعت کو اکثریت ملی تو سینیٹ کے طریقہ انتخاب میں ترمیم کرکے اسے متناسب نمائندگی کے تحت کرائیں گے،مگر کیا ایسا ممکن ہے، کیا جن کے منہ کو لہو لگ چکا ہے وہ اربوں روپے کے اس کاروبار کو بند ہونے دیں گے؟
مجھے تو یہ بات نا ممکن نظر آتی ہے۔ پوری دنیا میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے، ایک مقتدر ایوان اپنی ساکھ کو بری طرح پامال ہوتا دیکھ رہا ہے، رہی سہی کسر ایم کیو ایم نے نکال دی ہے، جس کے سینیٹ کی صرف چار نشستوں کے لئے حصے بخرے ہوچکے ہیں۔
ایوان جس کو بنانے کا مقصد قومی اسمبلی پر نگرانی رکھنا تھا تاکہ وہ من مانی قانون سازی نہ کرسکے، اب خود من مانی صورتِ حال سے دوچار ہے۔
اب اس بات کا جواب بھی مل گیا ہے کہ نواز شریف کو نا اہلی کے بعد پارٹی صدر بنانے کا بل ایوانِ بالا سے کیسے پاس ہوگیا تھا؟ حالانکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تو اس کی مخالف تھیں۔ تو یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ سینیٹ کی رکنیت حاصل کرنے کے وقت جو اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے، وہ قانون سازی کے وقت بھی کسی نہ کسی انداز سے جاری رہتا ہے۔
یہ بڑی شرمناک بات ہے اور اس حوالے سے ہماری جمہوریت کو نائجیریا کے برابر لا کھڑا کرتی ہے۔ ایک مقدس ایوان میں آنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑیں اور پھر چھ سال ان پیسوں کو منافع سمیت واپس لینے کا عمل جاری رہے تو پھر کون سی جمہوریت اور کہاں کی جمہوری روایات؟
بہت شورسنتے تھے کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوں گے، ان سے پہلے اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی، نگران حکومتوں کی مدت آئین میں دیئے گئے وقت سے زیادہ ہوگی، لیکن یہ باتیں تو پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ سینیٹ کے انتخابات بر وقت ہورہے ہیں، لیکن ان کے بارے میں جو کچھ سامنے آرہا ہے، وہ شرمندہ کردینے والا ہے۔
اس کے بارے میں سن کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف تو ہم جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے، آمریت کو ہمیشہ بُرا بھلا کہتے ہیں، لیکن جمہوریت کے نام پر کیا گل کھلا رہے ہیں، وہ ایوان جسے معاشرے کے ذہین ترین، ایماندار اور اپنے شعبوں کے ماہر افراد کا مجموعہ ہونا چاہیے، دولت مندوں کی آماجگاہ بن گیا ہے اور دولت بھی وہ جو کالے دھن کی صورت میں ووٹ خریدنے کے لئے خرچ ہوتی ہے۔