پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والی آواز خاموش ہوگئی
ہمارے ملک میں خواتین نے ہر کام میں اپنا نام اور مقام بنایا ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، پروفیسر، پائلٹ اور وکیل تک پہنچ گئیں۔ سیاست میں سب سے آگے۔ ان میں ایک نام عاصمہ جہانگیر کا ہے جنہوں نے اپنی آواز بے سہارا، مجبور لوگوں کے لئے بلند کی۔ ان کی آواز کی گرج سے ہر مشکل کام آسان ہونے لگا۔ آج ہم اس بہادر خاتون کو جسمانی حیثیت سے کھو چکے ہیں مگر آواز کی گرج اور انصاف کی آواز ہمیشہ بلند رہے گی۔
27 جنوری 1952ء کو لاہور میں طلوع ہونے والا چراغ زندگی کی 66 بہاریں دیکھ کر 11فروری 2018ء کو لاہور ہی میں غروب ہوگیا۔ جہد مسلسل کا عالمی نام عاصمہ جہانگیر انتقال کر گئیں ۔ وہ آواز خاموش ہو گئی جو ہر ایک مظلوم عورت کے حقوق کے لئے لڑنااپنا فرض سمجھتی تھی۔ جو مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا عورت کا بنیادی حق قرار دیتی تھی اور پاکستان میں عورت کے حقوق کے لیے لڑنا اپنے ایمان کا حصہ اور عبادت سمجھتی تھی۔ عاصمہ جہانگیر نے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو سوگوار چھوڑا۔
عاصمہ جہانگیر نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے والد ملک غلام جیلانی یحییٰ خان کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں سیاسی قیدی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ماں روایتی اور دقیانوسی سوچ کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے شہرت رکھتی تھیں اور جس زمانے میں عورتوں کو اسکول بھیجنا معیوب بات تھی اس وقت کو ایجوکیشن (Co Education) میں تعلیم حاصل کی اور 1965ء میں کپڑے کے مشہور برینڈ کا کاروبار شروع کیا۔ لیکن وہ کاروبار یحییٰ خان کے دور میں سیاسی انتقام کا نشانہ بن گیا۔
عاصمہ جہانگیر نے ابتدائی تعلیم کانونٹ آف جیزز اینڈ میری سے حاصل کی، کنیرڈ کالج سے بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی پاس کیا۔ 1980ء میں لاہور ہائیکورٹ اور 1982ء میں سپریم کورٹ کی ممبر بنیں۔ 1980ء میں جمہوریت کے حق میں آواز بلند کی اور 1983ء میں ضیاء الحق کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں جیل گئیں اور اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
ضیاء الحق کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں آواز اٹھانے سے انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔1987ء میں ہیومیں رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس کی سکیرٹری جزل منتخب ہوئیں۔ 1993ء میں انہیں کمیشن کی چیئرپرسن بنا دیا گیا۔
2008ء میں مشرف کی ایمرجنسی میں گھر میں نظر بند رہیں اور وکلا تحریک میں کامیابی کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوئیں۔ یہ اعزاز صرف انہی کے پاس ہے۔ 2004ء سے 2010ء تک اقوام متحدہ میں مذہبی آزادی کے حوالے سے خدمات سرانجام دیں۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں رائیٹ لولی ہوڈ ایوارڈ، فریڈم ایوارڈ، ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، اور یونیسکو پرائز، مارٹن اینیلز ایوارڈ سمیت کئی عالمی و مقامی اعزازات سے نوازا گیا۔
اْن کی زندگی کا سب سے کامیاب لمحہ وہ تھا جب انہوں نے زیادتی کا شکار ہونے والی ایک مزدور عورت کا کیس اٹھایا۔ مزدور عورت عدالت کا رخ نہیں کرنا چاہتی تھی، عاصمہ جہانگیر نے اسے ہمت دی، اسے یقین دلایا کہ وہ بھی اتنی ہی مضبوط ہے جتنا کہ ظلم کرنے والا مرد مضبوط ہے۔ جب وہ عورت ذہنی طور پر تیار ہو کر سپریم کورٹ آئی اور اس کا مخالف ظالم شخص اس کے سامنے آیا تو اسے دیکھ کر عورت نے اپنا ایک ہاتھ کمر پر رکھا اور دوسرا ہاتھ ہوا میں لہرا کر سینہ تان کر اس ظالم مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پنجابی میں للکارا کہ ’میں وی ہن عدالت آگئی آں۔ ہن میں تینوں ویکھاں گی۔‘
عاصمہ نے کہا کہ، ’اس غریب لاچار اور کمزور عورت کے اندر میری وجہ سے جو جرات آئی وہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ تھا، مجھے لگا کہ میں آج کامیاب ہو گئی ہوں۔‘ ان کی زندگی کی ساری خوشیاں انسانی حقوق کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔
انہوں نے اپنی ساری زندگی مخالف سمت میں پرواز کیا ہے۔ وہ ضیاء الحق کا زمانہ ہو یا مشرف کی زیادتیاں ہوں، انہوں نے ہمیشہ وہ بات کی جسے وہ حق اور سچ سمجھتی تھیں۔ ان کی آزادانہ سوچ اور حکمرانوں کی نانصافیوں کے خلاف آواز کی وجہ سے انہیں جیل اور قید و بند کی صعبتیں برداشت کرنی پڑیں لیکن وہ کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ جو کہا اس پر ڈٹ گئیں جو کیا سینہ تان کر کیا، جو کہا ببانگ دہل کہا۔ پھر آگے جو آیا ان کی شخصیت کے سامنے بلڈوز ہوتا چلا گیا۔
عدالتیں ان کا بہت احترام کرتی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر نے ایک دن عدالت میں دعویٰ کیا کہ وہ آج ضمانت لے کر ہی عدالت سے نکلیں گی، گو کہ بظاہر ناقابل یقین تھا کیونکہ مخالف پارٹی کا وکیل طبیعت خرابی کا بہانہ بنا کر چھٹی پر چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس اقبال سندھوکی عدالت تھی، پاکستان کے بڑے بزنس ٹائی کون کا کیس تھا اور عاصمہ جہانگیر بزنس ٹائی کون کی وکیل تھیں۔ عدالت کھچا کچھ بھری ہوئی تھی۔ کیس کی آواز لگی اور عاصمہ جہانگیر عدالت میں پیش ہوگئیں۔ کیس شروع ہوا تو نیب کے نمائندے نے کہا کہ آج ہمارا وکیل حاضر نہیں ہوسکا کیونکہ وہ بیمار ہے ہمیں اگلی تاریخ دیدی جائے۔
جج صاحب تاریخ دینے ہی لگے تھے کہ عاصمہ جہانگیر نے جسٹس اقبال سندھو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس صاحب میں کینسر کر مریضہ ہوں اور خاتون ہوں۔ میرے پروفیشن کا تقاضا ہے کہ اگر میرا کیس آج لگا ہے، عدالت میرا انتظار کر رہی ہے اور اس عدالت کے لگنے میں عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ ہورہا ہے تو میں کسی بھی حالت میں عدالت پہنچوں۔ مائی لارڈ میں کینسر کی مریضہ ہوں۔ ڈاکٹر نے مجھے بیڈ ریسٹ کے لیے کہا ہے۔ لیکن اگر میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر بھی عدالت آئی ہوں تو سرکاری وکیل عدالت کیوں نہیں آجاتا۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں کینسر جتنا بڑا مرض نہیں لاحق ہوگا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ انہیں ابھی بلائیں میں آدھا گھنٹا انتظار کرلیتی ہوں۔
جج صاحب اور سرکاری نمائندے نے عاصمہ جہانگیر کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بضد رہیں۔ مجبوراً عدالت نے سرکاری وکیل کو آدھے گھنٹے میں بلانے کے احکامات جاری کرنے پڑے۔ سرکاری وکیل آدھے گھنٹے میں عدالت پیش ہوا۔ کیس سنا گیا اور عاصمہ جہانگیر کیس جیت کر عدالت سے باہر آئیں۔
اگر ہمارے نوجوانوں کو بہتر زندگی چاہیے تو انہیں اپنی آؤٹ لک بدلنی ہو گی۔ دقیانوسی سوچ اور حْلیے کبھی آپ کو آگے نہیں جانے دیں گے۔ یہ آپ کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آنے والے وقت کے تقاضے سمجھو۔ وہ کہتی تھیں کہ ہمیشہ کھلی فضا میں سوچیں۔ تنگ اور گھٹن والے ماحول سے باہر نکلیں اور اصل زندگی بھی یہی ہے۔
عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی خبر دنیا بھر میں دکھ اور افسوس سے سنی گئی ہے۔ قومی لیڈروں کے علاوہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور بہبود کے لئے کام کرنے والے اداروں اور افراد نے بھی عاصمہ جہانگیر کی اچانک رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے کی جارہی ہے کہ عاصمہ کی اچانک وفات سے پاکستان اپنی ایک باوقار اور طاقت ور آواز سے محروم ہوگیا ہے جس نے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ ایک فوجی آمر کی طرف سے اپنے والد کی قید کے خلاف شروع ہونے والی جدوجہد صرف ان کے لئے انصاف کے حصول تک محدود نہیں رہی بلکہ عاصمہ جہانگیر نے مظلوموں کی مدد کرنے اور جمہوریت کے خلاف فوجی آمریت کی چیرہ دستیوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا، جس پر وہ آخری سانس تک کاربند رہیں۔
پاکستان میں اصولوں کی سربلندی کے جد و جہد کرنے اور اس راستے میں سامنے آنے والی ہر مشکل کا مقابلہ کرنے والوں کی فہرست تیار کی جائے تو یہ بہت طویل نہیں ہوگی۔ ہمارے معاشرے کی ساخت اس طرح بنتی جارہی ہے کہ ذاتی مفاد کو قومی ضرورتوں اور فرد کی سہولت کو ایک گروہ یا طبقہ کی آسائش پر فوقیت دینے کا چلن عام ہو چکا ہے۔ اسی لئے جمہوریت اور انسانیت کے لئے کام کرنے والے بڑے بڑے دعویداروں کے قدم کسی نہ کسی مرحلے پر ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود اور ملک میں انصاف پر مبنی جمہوری معاشرہ تشکیل دینے کا خواب دکھانے کے باوجود ذاتی خواہش اور ضرورت کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اسی لئے انسان دوستی اور سماجی اصلاح کے لئے کام کرنے والے بے لوث لوگوں کی فہرست بہت طویل نہیں ہو سکتی لیکن عاصمہ جہانگیر کا نام اس فہرست میں جلی حروف سے لکھا جائے گا۔
عاصمہ جہانگیر نے شہرت، مقبولیت اور سماجی اور سیاسی طور سے قد آور شخصیت ہونے کے باوجود کبھی کوئی سیاسی عہدہ حاصل کرنے کی خواہش نہیں کی۔ ورنہ ان کے لئے یہ کام کوئی مشکل نہیں تھا۔ انہوں نے چند بنیادی اصولوں کے لئے اپنے کام کا آغاز کیا اور ساری زندگی ان کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی رہیں۔ اس راستے میں آنے والی کوئی رکاوٹ یا دھونس و دھمکی ان کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ وہ پاکستان میں جمہوری نظام کی حامی تھیں اور کسی بھی عذر پر قومی امور میں فوج کی مداخلت کو برداشت کرنے کے خلاف تھیں۔ وہ عدلیہ کو خود مختار ادارے کے طور پر دیکھنے کی خواہش مند تھیں اور اس مقصد کے لئے انہوں نے ہمیشہ کام کیا۔
زندگی بھر عاصمہ کو ایک خاص گروہ کی جانب سے مفاد پرست، بھارت کی ایجنٹ اور اسلام دشمنی کے طعنے سننے پڑے۔ سوشل میڈیا کے عام ہونے کے بعد سے ملک میں انصاف اور مساوی حقوق کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دینے کی جدوجہد کے خلاف مہم جوئی کرنے والے عناصر تواتر سے عاصمہ جہانگیر کے خلاف زہر اگلتے رہے تھے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کے مرنے کے بعد بھی جہاں قومی اور عالمی لیڈر اس عظیم نقصان کا احاطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو عاصمہ جیسی اولالعزم خاتون کے انتقال کی وجہ پاکستان کے علاوہ مظلوم انسانوں کو اٹھانا پڑا ہے تو دوسری طرف عناد اور جھوٹ کی بنیاد پر کیچڑ اچھالنے کے عادی لوگ اس وقت بھی مرحومہ کو معاف کرنے یا ان سے درگزر کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اب جبکہ عاصمہ کا معاملہ رب کی بارگاہ میں پیش ہو چکا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں بدنام کرنے اور ان کی برائیاں بیان کرنے میں زبانیں اور قلم تیز کئے جارہے ہیں۔ یہ رویہ عاصمہ کی شخصیت سے زیادہ ہمارے زوال پذیر قومی مزاج اور سماج کی نشاندہی کرتا ہے جس کی بہتری کے لئے عاصمہ جہانگیر ساری زندگی ہر قسم کی مزاحمت کے باوجود سینہ سپر رہیں۔ الزام تراشی کرنے والے پاکستان کو متعصب، تنگ نظر اور قرون اولیٰ کی طرز کا جابر معاشرہ بنانے کے خواہش مند ہیں۔ عاصمہ نے ساری زندگی اس مزاج کو شکست دینے کی کوشش کی تھی۔
عاصمہ جہانگیر نے انسانوں سے محبت اور مظلوموں کے لئے انصاف کے حصول کا جو دیا جلایا تھا، اس کی روشنی پاکستانی سماج کے گھپ اندھیرے میں امید کی کرن کی طرح جگمگاتی رہے گی۔ وہ تو ہم میں نہیں رہیں لیکن انسان دوستی کے لئے قائم کی ہوئی ان کی روایت ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس روایت کو آگے بڑھا کر ہی ایک کامیاب اور باوقار قوم کے طور پر پاکستان کی شناخت کو تسلیم کروایا جاسکتا ہے۔
۔۔۔***۔۔۔