امرتا پریتم کی’’ وارث شاہ‘‘

امرتا پریتم کی’’ وارث شاہ‘‘
امرتا پریتم کی’’ وارث شاہ‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امرتا پریتم نے تقسیم کے موقع پر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم اور جنسی استحصال پر وارث شاہ کو آواز دی تھی اور کہا تھا کہ وہ قبروں سے ان کے لئے بھی بولے جو 47ء کے وارث شاہ کو ڈھونڈ رہی ہیں ، قبر میں پڑے وارث شاہ نے امرتا پریتم کی آواز سنی اور عاصمہ جہانگیر کے لہجے میں ایسا بولنا شروع کیا کہ وہ عمر بھر ہر استحصالی حلقے پر بجلی بن کر گرتی رہیں ، ان کے ہوتے ظالم طبقے دبکے رہتے تھے!وہ امرتا پریتم کی وارث شاہ تھیں!!....یا پھر وراث شاہ کا وہ دھیدو رانجھا تھیں، جس نے ہیر کا روپ دھارا ہوا تھااور ہر کیدو کی گت بنانے کا حوصلہ رکھتی تھیں!!!


وہ صرف پنجاب کے مظلوم لوگوں کی آواز نہ تھیں ،وہ پورے پاکستان کی للکار تھیں ، آج سندھ اور بلوچستان میں بھی ان کا سوگ منایا جا رہا ہے، ان جیسی دبڑ گھسنی اور جی دار خاتون کے ہوتے ملک کے ہر حصے میں موجود مظلوم طبقوں کی ڈھارس بندھی رہتی تھی، ان کے آگے خفیہ ایجنسیاں بھی نہیں کسکتی تھیں، وہ راست بازی کی علامت تھیں، میمو گیٹ سکینڈل میں نواز شریف کے کالا کوٹ پہننے پر معترض تھیں تو 2014ء کے دھرنے میں جب عدالت عظمیٰ سے آواز آئی کہ وہ ثالثی کروانا چاہتی ہے تو عاصمہ جہانگیر جمہوریت کی شمع لے کر پنجاب اسمبلی کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھیں اور دبنگ آواز میں بولی تھیں کہ عدالتوں کا کام ثالثی کروانا نہیں ہوتا، اس نازک لمحے میں عدالت کے کندھے پر سوار ہو کر آنے والے مارشل لاء کو روکنے میں جاوید ہاشمی اور عاصمہ جہانگیر کا کردار پاکستانی قوم پر کسی احسان عظیم سے کم نہیں تھا۔
وکلاء برادری کی قیادت نے ساری زندگی انہیں وہ حفاظتی حصار مہیا کئے رکھا، جس کی موجودگی میں وہ ایک ممولے کی طرح وقت کے ہر باز سے پنجہ آزمائی کرتی رہیں ۔


عاصمہ جہانگیر پاکستانی خواتین کی سلطان راہی تھیں جو عمر بھر جاگیردارانہ ذہنیت، آمرانہ سوچ اور سٹیٹس کو کے ٹوٹے کرتی رہیں!....ستر کی دہائی کے اوائل میں وہ اسی معاشرے سے برآمد ہوئی تھیں، جہاں جنرل رانی بھی تھیں لیکن عاصمہ اور طرح کی خاتون تھیں ، سنگ دل رواجوں کی آہنی سلاخوں سے ٹکرا جانے والی ایک مضبوط خاتون!وہ ایک باوقار خاتون کے روپ میں سرگرم عمل رہیں،آج بھی ان کے شوہر کو لوگ اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ہمارے ہاں عام شوہروں کی بیویوں کے بارے میں جانا جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے فیض کی طرح اپنی شاعری نہیں چھوڑی اور منو بھائی کی طرح ٹی وی ڈرامے نہیں لکھے ، وہ براہ راست دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہیں ، وہ زندہ رہیں تو لوگوں کو حیرت زدہ رکھا ، وہ رخصت ہوئیں تو مزید ورطہ حیرت میں مبتلا کر گئیں، انہوں نے جیتے جی محتاجی اور بے چارگی کی نفی کی اور دنیا سے رخصت ہوئیں تو بھی محتاجی اور بے چارگی کے بغیر، وہ عجیب مانوس اجنبی کی طرح سب کو حیران کرگئیں، وہ جس شان سے جی رہی تھیں اسی شان سے راہ عدم پر نکل گئیں ، وہ جو رکے تو کوہ گران تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے کی عملی تصویرتھیں، ان کی بے خوفی بتاتی ہے کہ وہ زندہ رہنے کے لئے نہیں ،زندگی کے لئے جیتی تھیں اور جب جان خالق حقیقی کے حوالے کی تو بھی توہین عدالت کے ملزم طلال چوہدری کی وکالت کا ارادہ باندھ رہی تھیں۔


عاصمہ جہانگیر پاکستانی سوسائٹی کی بڑی آپا تھیں جس سے سبھی بھائی کنی کتراتے ہوں کیونکہ وہ اصول کی بات کرتی تھیں، ایسی بات جس کی پورے خاندان کو ضرورت ہوتی ہے ، انہیں سب کی پرواہ تھی، وہ قول کی نہیں کردار کی قائل تھیں ، اپنے خلاف تنقید کو خندہ پیشانی کے ساتھ سننا اور برداشت کرنا، انہیں کا خاصہ تھا۔متنازعہ ہونے کے باوجود وہ اپنی بلند کرداری کے سبب اپنا راستہ بناتی چلی گئیں ، ان کے دشمن بھی انہیں ایک بڑی خاتون تصور کرتے تھے۔ وہ سینٹ کی امیدوار رہیں نہ انہوں نے قومی اسمبلی کے کسی حلقے میں خدمت خلق کا ڈھونگ رچایا ، وہ ایک آزاد، بے باک اور معاشرے کے محروم طبقات کی آواز بن کر گونجتی رہیں۔وہ پاکستان سے زیادہ پاکستان سے باہر جانی اور مانی جاتی تھیں جیسے ان دنوں شرمین عبید چنائے جانی اور مانی جاتی ہیں، ہم نے نصرت فتح علی کو بھی تب مانا تھا جب وہ دنیا میں مانے گئے تھے ، ایسی شخصیات کی آڈیئنس انٹرنیشنل کمیونٹی ہوتی ہے، عاصمہ اور شرمین جن موضوعات پر کام کرتی رہیں آج پورا معاشرہ ان مسائل سے پیچھا چھڑوانا چاہتا ہے ۔


عاصمہ جہانگیر واقعی اس ادا سے بچھڑیں کہ رت ہی بدل گئی ، انہوں نے اپنے آپ کو بڑے زوروں سے منوایا تھا، وہ ایک مجسم للکارتھیں جوخواتین کے خلاف ظلم ڈھانے والوں کے خلاف، بھٹہ مالکان کے خلاف، آمروں کے خلاف اور آمریت کو سپورٹ کرنے والے ججوں کے خلاف بلند ہوتی رہی...نڈر،بے خوف اور بے باک للکار!
اسلام آباد کی طاہرہ عبداللہ بھی ایسی ہی خاتون ہیں جو چھوئی موئی بن کر رہنے کے بجائے معاشرے میں جاری استحصال پر گرجتی برستی ہیں، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض بھی اسی قبیل کی خواتین ہیں، لیکن ان کے ہاں ویسی للکار نہیں رہی جیسی عاصمہ اور طاہرہ کا خاصہ رہا ہے، شائد اس لئے کہ عاصمہ اور طاہرہ کا ادب سے ویسا تعلق نہیں رہا ہے جیسا کشور اور فہمیدہ کا ہے !
امرتا پریتم کی وارث شاہ عاصمہ جہانگیر کسی نہ کسی آواز میں زندہ رہیں گی ، ان پر شاعری ہوگی، ان کے نام پر ایوارڈ دیئے جائیں گے اور ان کا دن منایا جائے گا!

مزید :

رائے -کالم -