پارلیمینٹ اور جمہوریت،تماشائے اہل کرم!
مَیں آج بھی اِس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ وفاقی پارلیمانی نظام ہمارے لئے بہتر ہے۔اس وقت مختلف اطراف سے صدارتی نظام کی جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہ قابلِ پذیرائی نہیں۔ صدارتی نظام کو ہم اچھی طرح دیکھ چکے ہیں،وہ وفاقی اکائیوں کو جوڑ کر رکھنے میں کامیاب ثابت نہیں ہوا۔البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ18ویں ترمیم کے بعد وفاق کی کمزوری کا جو تاثر اُبھرا ہے، اُسے ختم ہونا چاہئے۔پاکستان ایک فیڈریشن ہے، اُسے کنفیڈریشن نہیں بنایا جا سکتا۔
صوبائی خود مختاری ایک اچھی بات ہے،مگر وفاق کے دائرے میں رہ کر، اگر صوبے وفاق سے باہر ہو جائیں یا اُن کا تاثر ایک مضبوط اکائی کا تو بنے، مگر وہ وفاق کو کمزور کر رہے ہوں، تو یہ بات قابل قبول نہیں۔ آج یہ بات عام ہے کہ ہماری پارلیمینٹ وقت کے چیلنجوں پر پورا اُترنے سے قاصر ہے،بلکہ اُس نے جمہوریت کو بڑی حد تک مذاق بنا دیا ہے۔
یہ وہ پارلیمینٹ ہے،جس کے فیصلوں کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کر دیتی ہے، تو گویا پارلیمینٹ کے ارکان کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ وہ جو قرارداد یا ترمیم پاس کر رہے ہیں،وہ آئین سے متصادم ہے۔
جب پاکستان کی پارلیمینٹ نے سپریم کورٹ سے تاحیات نااہل شخص کو سیاسی جماعت کی صدارت کے لئے اہل قرار دیا تھا، تو یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ پارلیمینٹ میں شخصی وفاداری تو موجود ہے، آئین سے وفاداری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا، پھر یہ ہوا کہ سپریم کورٹ نے پارلیمینٹ کی اس ترمیم کو رد کر دیا، اس سے پارلیمینٹ کے ماتھے پر ایک اور کلنک کا ٹیکہ لگ گیا۔
موجودہ پارلیمینٹ کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔اُس کی رہی سہی ساکھ بھی ہر نئے دن کے ساتھ زمین بوس ہو رہی ہے۔ قانون سازی،جو اس کا اصل کام ہے، کسی شمار قطار میں نظر نہیں آتی۔ ایک طرف حکومت کو چلنے نہ دینے کی ضد ہے اور دوسری طرف یہ ضد ہے کہ کوئی سیاسی لچک نہیں دکھانی۔اب پی ٹی آئی والے لکیر پیٹ رہے ہیں کہ انہوں نے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین کیوں بنایا۔ خود ہی اس بات کی دہائی بھی دے رہے ہیں کہ نیب کا ملزم پی اے سی کا چیئرمین کیسے بن سکتا ہے۔
یہ تو پارلیمینٹ کے ساتھ مذاق ہے، ہاں یہ مذاق تو واقعی ہے، تاہم یہ مذاق خود پارلیمینٹ نے اپنے ساتھ کیا ہے۔ یہ پارلیمینٹ ملک کا نہیں سوچتی، بلکہ اس کی تمام تر سوچ شخصیت پرستی کے حوالے سے ہوتی ہے۔ دُنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ پارلیمینٹ سیاسی رہنماؤں کے انفرادی معاملات میں اُن کی حلیف بن جائے۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس یا جرمنی میں کسی حکمران پر بھی الزام لگتا ہے تو اُسے پہلے اپنا عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے، وہاں پارلیمینٹ اُسے بچانے کے لئے اُلٹے سیدھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرتی، نہ ہی اُسے کوئی کلیدی عہدہ دیتی ہے۔ یہاں گنگا اُلٹی بہائی جا رہی ہے۔شہباز شریف یا آصف علی زرداری کے خلاف جاری کارروائی رکوانے کے لئے پارلیمینٹ کا کندھا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پارلیمینٹ کبھی پارلیمینٹ بن کر نہیں سوچتی، بلکہ وہ سیاسی جماعتوں کے دھڑوں کی آلۂ کار نظر آتی ہے، اب ایسی صورت حال میں اُس کی توقیریا حرمت پر سوال نہ اُٹھیں تو اور کیا ہو؟
اس پارلیمانی نظام کی ساری خرابیاں اس بار کی پارلیمینٹ کے باعث عوام پر پوری آشکار ہو گئی ہیں۔ جہاں مضبوط جمہوری سسٹم ہے، وہاں ایک ووٹ کی اکثریت سے بھی حکومت پانچ سال پورے کر جاتی ہے، لیکن پاکستان میں ایسی حکومت پُل صراط پر چلتی ہے اور کسی وقت بھی اُس کے گر جانے کا ڈر ہوتا ہے۔
اب سب نے یہ حالات دیکھے ہیں کہ کس طرح حکومت کی اتحادی جماعتیں بلیک میل کر کے مفادات حاصل کر رہی ہیں۔اگر اتحادی حکومت بن گئی ہے تو پھر اُسے چلنے بھی دینا چاہئے، مگر عوام دیکھ رہے ہیں کہ آئے روز دو، چار سیٹوں والے حکومت کے اتحادی کبھی اتحاد توڑنے کی دھمکی دیتے ہیں،کبھی وزارتیں مانگتے ہیں اور کبھی اپنی ہی اتحادی حکومت پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔اس صورتِ حال کو دیکھ کر اگر عوام پارلیمانی نظام سے بددل ہوتے ہیں تو قصور اُن کا بھی نہیں۔ جس نظام میں ایک نشست رکھنے والی جماعت سب سے زیادہ اہمیت اختیارکر جائے، اُس نظام کی کمزوری کو ہر شخص محسوس تو کرے گا۔
ساری دُنیا میں عمران خان اپنی حکومت کی پالیسیاں بتا اور گنوا رہے ہیں، وہ جو اصلاحات لانا چاہتے ہیں، اُن کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ یہ عزم بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ کرپشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ایک طرف اتنے بڑے دعوے اور دوسری طرف جب یہ خبر آتی ہے کہ اختر مینگل حکومت سے نکلنے والے ہیں۔ اُدھر ایم کیو ایم نے اپنے سات ووٹوں پر ایک وزارت اور مانگ لی ہے اور نہ دینے کی صورت میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔ یا پھر مسلم لیگ (ق) کے حکومت سے اختلاف (اور بعد میں معاملات طے پا جانے) کی خبریں سنائی دیتی ہیں تو لگتا ہے کہ موجودہ حکومت سے کمزور حکومت پاکستان میں کبھی نہیں رہی اور عمران خان سے زیادہ مجبور اور بے بس وزیراعظم کبھی نہیں دیکھا گیا۔اب اِن سب باتوں کو کس خانے میں ڈالا جائے؟۔۔۔ظاہر ہے ان سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا پارلیمانی وفاقی سسٹم چلنے کے قابل نہیں،اس میں قدم قدم پر کاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، قدم قدم پر عوامی و قومی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کی دھول اڑا کر جمہوریت کے چہرے کو آلودہ کیا جاتا ہے۔
اب کسی کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ چھ مہینے میں موجودہ پارلیمینٹ نے کون سی قانون سازی کی ہے؟اس چھ ماہ کے عرصے میں پارلیمینٹ کے اجلاسوں پر جو کروڑوں روپے کے اخراجات ہوئے ہیں، ان کا نتیجہ کیا نکلا ہے، کیا بائیکاٹ، دشنام طرازی، دنگا فساد کے لئے ارکانِ اسمبلی کو عوام نے منتخب کیا ہے؟ یہ سارے مناظر دیکھ کر عوام اسمبلیوں سے مایوس بھی ہو رہے ہیں اور متنفر بھی۔اس میں اپوزیشن کے ارکان صرف یہی دکھڑا سناتے ہیں کہ حکومت ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔
منتخب وزیراعظم کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہہ کر اپنی بھڑاس تو نکال لیتی ہے، تاہم اس کا عام آدمی کو فائدہ کیا ہے۔ ادھر حکومت کے وزراء بھی سارا زور دھواں دار الزاماتی تقریر کرنے پر لگا دیتے ہیں۔ دس دس دن قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس چلتے ہیں، ایک قانون پاس نہیں ہوتا۔ بائیکاٹ کے نعروں سے اجلاس شروع ہوتا ہے اور انہی پر ختم ہو جاتا ہے۔
عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، قوانین میں تبدیلی و اصلاحات کے منتظر ہیں۔۔۔ پولیس کے جابرانہ نظام سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔۔۔وزیراعظم ہاؤس میں شکایات کے لئے جو پاکستان پورٹل بنایا گیا،اس میں نظام کے ستائے عوام کی ڈھیروں درخواستیں آ چکی ہیں۔ یہ سب درخواستیں زیادہ تر حکومتی اداروں اور محکموں سے متعلق ہیں جو عوام کو دھیلے برابر اہمیت نہیں دیتے۔
ایسے مسائل کا ازالہ نظام میں تبدیلی لائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ تبدیلی صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں آئے گی،بلکہ اس کے لئے قانون سازی کرنا پڑے گی۔
ایسے حالات میں قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے،جب حکومت کا منہ جنوب اور اپوزیشن کا شمال کی طرف ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے یہی وہ حالات ہیں، جو اِس خیال کو جنم دیتے ہیں کہ شاید مُلک میں پارلیمانی وفاقی نظام ناکام ہو گیا ہے اور مُلک چلانے کے لئے صدارتی نظام کی ضرورت ہے تاکہ حکومت یکسوئی سے کام کر سکے۔
کیا ہماری سیاسی اشرافیہ عوام سے لاتعلق رہ کر اسی طرح وقت ضائع کرتی رہے گی؟ اور یہ دعویٰ بھی کیا جائے گا کہ جمہوریت اور پارلیمینٹ کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ کیا جمہوریت اور پارلیمینٹ کو کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہے؟