گورنر کا عہدہ غیر سیاسی، چودھری محمد سرور نے ملتان آ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا
ملتان کی سیاسی ڈائری
شوکت اشفاق
گورنر پنجاب چوہدری سرور قبل ازیں بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں لیکن وہ اس وقت مسلم لیگ ن کے ساتھ تھے مگر بوجوہ اپنی سیاسی وفاداری تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ کر لی اور ایک مرتبہ پھر گورنر پنجاب بن گئے لیکن اس مرتبہ وہ ماضی کی حکومتوں کو کوستے رہتے ہیں ہر معاشی اور سیاسی بگاڑ کو وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈالتے ہیں بلکہ 20 سالوں سے لئے گئے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کو بھی گذشتہ حکومت کے کھاتے میں لکھ رہے ہیں یہ ان کی سیاسی بصیرت ہو سکتی ہے لیکن زمینی حقائق یقیناًاس کے برعکس ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی اور سیاسی بد حالی محض چند مہینوں یا دنوں میں نہیں آئی بلکہ اس میں جہاں جمہوری حکومتوں کا کردار ہے وہاں ڈکٹیٹر شپ نے بھی کلیدی کردار ادا کیا،لیکن مجال ہے کہ کوئی اس بارے میں ذکر بھی کر دے اور اپنی کارکردگی کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھ لے اب سابق صوبائی سینئر وزیر علیم خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کا معاملہ ہی لے لیں تو اس میں بھی گرفتاری اور کرپشن پر تنقید کی بجائے اس بات کو سراہا جا رہا ہے کہ علیم خان نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے جسے ایک اعلیٰ اخلاقی معیار قرار دیا جا رہا ہے لیکن اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی نہ ہونے پر کوئی تبصرہ نہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ جس طرح سے اپوزیشن کو کرپشن کے حوالے سے آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اسی طرح وہ تحریک انصاف میں بیٹھے کرپشن کے ناسوروں کے خلاف بھی مہم چلائیں تاکہ حکومت میں آنے سے قبل جو وعدے اور نعرے لگائے گئے تھے ان میں سے کم از کم کچھ تو پورے ہو جائیں مگر اس پر توجہ کی بجائے الزام تراشی کی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے خارجہ امور پر ریلوے کا وزیر بیان بازی کر رہا ہے تو ریلوے کے حوالے سے کوئی اور وزیر صاحب بیان جاری کر رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ جس وزیر کو جو مینڈیٹ دیا گیا ہے وہ ان حدود میں ہی کام کریں خصوصاً گورنرز وفاق یعنی ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے اسے کسی ایک سیاسی جماعت کے منشور پر عمل پیرا ہونے کا اخلاقی اور قانونی اختیار نہیں ہے لیکن یہاں گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے گذشتہ روز متعدد سیاسی شادیوں میں شرکت کے لئے ملتان آنے پر گورنر چوہدری سرور نے سرکٹ ہاؤس میں نہ صرف تحریک انصاف کے عہدیداروں، ارکان اسمبلی اور وزراء سے ملاقات کی بلکہ ان ملاقاتوں میں بات چیت کی سرکاری پریس ریلیز سیاسی بیانات پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے جنوبی پنجاب کے لئے علیحدہ سیکرٹریٹ کے ایشو پر مشاورت کا ذکر بھی کیا اور موجودہ معاشی حالات کو ماضی کی حکومت کے غلط فیصلوں کا نتیجہ قرار دیا اور روایتی خوشخبری بھی سنائی کہ عوام جلد تبدیلی دیکھیں گے، اب یہ تبدیلی کب ہو گی اس کے لئے تحریک انصاف کے ہر لیڈر کا الگ موقف ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ملتا، لیکن ایک چیز ملتی ہے وہ یہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح چوہدری سرور نے بھی یہاں دوپہر کا کھانا اس گھر کے ڈرائنگ روم میں کھایا جہاں میاں نواز شریف نے کھایا تھا اور ’’ڈان‘‘ میں چھپنے والا مشہور انٹرویو بھی دیا تھا جو لیگی حکومت کے خاتمہ پر منتج ہوا تھا جبکہ رات کا کھانا سابق سٹی ناظم اور معروف صنعتکار میاں فیصل مختار کے گھر میں کھایا وہاں بھی سابق حکمران کھانے تناول کرتے رہے ہیں اب اس میں سے کون سی تبدیلی برآمد ہو گی اس کے لئے امید کے ساتھ انتظار کرنا ہو گا۔
ادھر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا انہیں بتایا گیا کہ ان کا نام بلیک لسٹ میں ہے اب یہ بلیک لسٹ کیا ہے اس بارے تو حکومتی عہدیدار ہی وضاحت کر سکتے ہیں کیونکہ قبل ازیں ایگزٹ کنٹرول لسٹ ہوا کرتی تھی جو کسی خاص مقدمہ یا وجہ سے ڈالی جاتی تھی لیکن یہ ایک نئی لسٹ بنا دی گئی ہے جس کے تحت سابق وزیر اعظم کو ایک کانفرنس میں جانے سے روک دیا گیا جس پر پارٹی قیادت اور تنظیم نے سخت احتجاج کیا اور اسے انتقامی کاروائی قرار دیا اور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے موجودہ یا سابق حکومت سے کوئی این آر او نہیں مانگا نواز شریف حکومت نے مجھ پر 26 سے زیادہ مقدمات بنائے ہم ان مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں تاہم انہوں نے اس بات کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا کہ وہ تمام سیاسی اختلافات کے باوجود جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے لئے حکومت کی سیاسی مدد کو تیار ہیں اب پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت الگ صوبے کے حوالے سے بار بار حمایت کا جو یقین دلا رہی ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی حکمت عملی ضرور پوشیدہ ہو گی اور حکومت پیپلز پارٹی سمیت ن لیگ کی اس معاملے میں حمایت کو مثبت نہیں لے رہی یہ بھی ایک سربستہ سیاسی راز ہو سکتا ہے ورنہ تمام اپوزیشن جماعتیں جب جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لئے ایک بنچ پر آنے کو تیار ہیں تو تحریک انصاف کی حکومت کو کیا رکاوٹ ہے اس کے لئے پارٹی اور حکومتی سطح پر وضاحت ضروری ہے۔
دوسری طرف سیاسی استحکام کا نہ ہونا اور معاشی ابتری، مہنگائی اور بے روز گاری کے طوفان نے جہاں دوسرے معاشی اور سماجی مسائل کھڑے کر دئیے ہیں وہاں ٹریفک حادثات سے قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور گلی محلوں سمیت کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منظم طور پر منشیات کی سپلائی جاری ہے جس پر نہ صرف ان اداروں کے کرتا دھرتاؤں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے وہاں پولیس اور ذمہ دار ادارے بھی چشم پوشی کر رہے ہیں کیونکہ یہ سرکاری ملازم پوسٹنگ ٹرانسفر کے چکر کے باعث کسی کام میں دلجمعی سے حصہ نہیں لے رہے۔ توقع تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت کم از کم سرکاری ملازمین کی پوسٹنگ ٹرانسفر میرٹ پر کرے گی لیکن ان کا گذشتہ حکومتوں سے بھی برا حال ہے صبح کسی کے آرڈر ہوتے شام کو تبدیل ہو کر کوئی دوسرا ملازم پوسٹ ہو جاتا ہے تاہم حکومت اور ذمہ دار اداروں کو اس پر سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے کہ اب بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں میں بھی یہ وبا برے طریقے سے پھیل رہی ہے جو معاشرے کے لئے ناسور ہے اور اس کو روکنا ہو گا ورنہ تحریک رہے گی اور نہ انصاف ہو گا۔