یوٹیلیٹی سٹور پیکیج بمقابلہ مہنگائی مافیا
حکومت نے مہنگائی کی کمر توڑنے کے لئے وہی یوٹیلیٹی سٹوروں والا پرانا نسخہ استعمال کیا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے یہ نسخہ استعمال ہو رہا ہے، مگر اس سے فائدہ ہونے کی بجائے اُلٹا قومی خزانے سے اربوں روپے نکل جاتے ہیں، اصل کام تو مافیا کی کمر توڑنا ہے، اُس طرف کبھی کوئی حکمران نہیں آتا، کیونکہ مافیا تو اردگرد گھیرا ڈالے کھڑا ہوتا ہے۔ ان مافیاز کے اس وقت مزید وارے نیارے ہو جاتے ہیں جب یوٹیلیٹی سٹوروں کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کی سکیم متعارف کرائی جاتی ہے، مثلاً چینی کا یوٹیلیٹی سٹور پر ریٹ 70 روپے کلو مقرر کر دیا گیا ہے، جبکہ اس سے پہلے 68 روپے کلو تھا، گویا مافیا سرکاری طور پر دو روپے کلو ریٹ بڑھوانے میں کامیاب ہو گیا، اسی طرح گھی 175 روپے کلو ملے گا، جبکہ پہلے 170 روپے کلو تھا۔ یہاں بھی مہنگائی کی کمر بچ گئی اور غریب کی کمر پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
کوئی یوٹیلیٹی سٹور کی تاریخ پر غور کرے تو معلوم ہو گا کہ اس کے کتنے سکینڈلز سامنے آ چکے ہیں۔ اعلان تو ہو جاتا ہے کہ اتنے ارب روپے کی سبسڈی دے دی گئی ہے…… مگر وہ اربوں روپے جاتے کہاں ہیں، کوئی اس کا بھی کبھی بتائے؟…… کیسے پتہ چلے گا کہ ہر ماہ یوٹیلیٹی سٹوروں کو دو ارب روپے کی جو امداد دی جا رہی،ہے وہ براہ راست عوام تک پہنچ رہی ہے؟ چینی تو ہر جگہ پھر بھی نایاب ہی رہے گی۔ یہ پانچ ماہ میں دس ارب روپے کا جو بوجھ عوام کے نام پر قومی خزانے کی کمر پر لادا جائے گا، اس سے مہنگائی کیسے کم ہو گی؟ کوئی افلاطونی بقراطی اس کے بارے میں بھی کچھ بتائے؟ سنا ہے کہ کچھ وزراء نے اجلاس میں یہ تجویز دی تھی کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے لئے یہ پندرہ ارب روپے کا پیکیج استعمال کیا جائے، اس سے باقی چیزوں کی قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی، مگر اس تجویز کو رد کر دیا گیا، کیونکہ اس کا تو حساب کتاب ہو سکتا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹوروں کے سمندر میں جو کچھ بھی ڈال دو، اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا، یعنی عوام پر احسان بھی اور ان پر مزید بوجھ بھی ڈالنے کی اس سے اچھی سکیم آج تک پاکستان میں متعارف نہیں کرائی جا سکی۔
خیال تھا کہ وزیر اعظم نے سخت نوٹس لیا ہے تو سخت فیصلے بھی ہوں گے، قوم کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے والے مافیاؤں کے خلاف کوئی ایکشن پلان سامنے آئے گا۔ ذخیرہ اندوزوں، بلیک کرنے والوں اور حکومت کی رٹ کو ناکام بنانے والوں کا کڑا احتساب ہوگا، لیکن یہاں تو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا، گھوم پھر کر یوٹیلیٹی سٹوروں اور راشن کارڈ پر بات رک گئی ہے۔ ماضی کے حالات و تجربات شاہد ہیں کہ یہ ریلیف کا نہیں، کرپشن بڑھانے کا راستہ ہے۔ آبادی کے تناسب سے یوٹیلیٹی سٹور آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ چلیں مان لیا کہ بڑے شہروں میں یہ سٹور موجود ہیں، لیکن ستر فیصد آبادی تو دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور غربت بھی وہیں زیادہ ہے۔ وہ لوگ کیا میلوں کا سفر کر کے پہلے کسی شہر میں آئیں، پھر چند روپے سستی اشیاء خرید کر واپس گھروں کو جائیں …… یعنی بچت کی بجائے کرایہ دے کر مزید زیر بار ہوں۔ یہ کیسی گورننس ہے،جو یہ تو بتاتی ہے کہ ملک میں گندم اور چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں، فلور ملوں اور چینی کی فیکٹریوں کی پیداواری استعداد کا بھی حکومتی اداروں کو علم ہے۔ رہی بات سبزیوں اور دالوں کی تو آڑھتی مافیا کو نکال دیا جائے تو وہ کبھی کمیاب ہو ہی نہیں سکتیں۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کو نکیل ڈالنے سے قاصر ہے۔ قوانین موجود ہیں، ریاستی مشینری دستیاب ہے، خفیہ ادارے پل پل کی خبر دے رہے ہیں، پھر عوام کی جیبوں پر مصنوعی قلت پیدا کر کے ڈاکہ ڈالنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟
سب سے زیادہ ہاہا کار آٹے پر مچی ہوئی ہے، حالانکہ اس کا سارا کاروبار حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ حکومت گندم فراہم کرتی ہے اور فلور ملز آٹا بناتی ہیں ……پھر آخر وہ کون سا مافیا ہے جو درمیان میں آ کر آٹا غائب کر دیتا ہے؟ محکمہ خوراک کے پاس تمام اعداد و شمار موجود ہوتے ہیں کہ کس فلور مل کو کتنی گندم فراہم کی گئی ہے۔ اس کے علم میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کتنے آٹے کے ٹرک باہر نکلے ہیں، پھر اسے کنٹرول کرنے میں اتنی دشواری کیوں؟ ظاہر ہے کوئی نہ کوئی مافیا اور اس کا ہاتھ ضرور ہے جو درمیان میں حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے سپلائی کا رخ ذخیرہ اندوزوں کے گوداموں یا بیرون ملک سمگلنگ کی طرف موڑ دیتا ہے۔ آخر اسے نشانِ عبرت کیوں نہیں بنایا جاتا، کون ہے جو ہماری سڑکیں استعمال کرتا ہے، ہمارے شہروں میں گودام بناتا ہے، ہمارے وسائل استعمال کرتا ہے، مگر آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل جاتا ہے؟ آٹے پر ایف آئی اے کی تحقیق و تفتیش جاری ہے۔ یہ اتنا لمبا کام تو نہیں تھا کہ جس پر ہفتوں ضائع کئے جائیں۔
یہ تو آسان کلیہ تھا کہ پاسکو یا محکمہ خوراک کے گوداموں سے فلور ملز کو کتنی گندم سپلائی کی گئی اور کتنی فلور ملز سے نکل کر کہاں کہاں گئی؟ جہانگیر ترین ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کر رہے تھے کہ یہ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ہوا، مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس نا اہلی سے اربوں روپے کا فائدہ کس نے اٹھایا، اس مافیا کے خلاف کارروائی کون کرے گا اور اس سے لوٹی گئی دولت واپس کیسے لی جائے گی؟ حکومت پندرہ ارب روپے کا امدادی پیکیج دیتے ہوئے سو بار سوچ رہی ہے، حالانکہ اگر وہ آٹے کے حالیہ بحران سے مال بنانے والوں کو قانون کی گرفت میں لاتی تو ان سے اربوں روپے برآمد ہو سکتے ہیں۔ مگر یوں لگ رہا ہے کہ حکومت ایسا کرنا نہیں چاہتی۔ وہ یوٹیلیٹی سٹور کو اربوں روپے کی سبسڈی دے کر مافیا کا مقابلہ کرنے کی گھسی پٹی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے، جس سے نہ تو پہلے کبھی عوام کو ریلیف ملا ہے اور نہ اَب ملے گا۔
اسی دوران یہ خبر بھی آئی کہ وزیر اعظم عمران خان نے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔ کیا یہ کوئی بہت خوش آئند خبر ہے؟ کیا پہلے بجلی و گیس کی قیمتیں عوام کی پہنچ میں ہیں کہ ہم اسے عوام کے حق میں کوئی بڑا فیصلہ قرار دیں؟ اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ عوام بجلی و گیس کے بلوں کی وجہ سے معاشی بدحالی کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، جو سینکڑوں میں بل ادا کرتے تھے، اب انہیں ہزاروں روپے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں یوٹیلیٹی بلوں سمیت ہر شعبے میں مہنگائی چالیس فیصد بڑھ گئی ہے، جبکہ آمدنی میں اضافہ تنخواہ دار طبقے کے لئے دس فیصد ہوا تھا اور مزدور طبقے کو تو یہ دس فیصد بھی نہیں مل رہا۔ بے روز گاری کے باعث اجرتیں بڑھنے کی بجائے کم ہو گئی ہیں،ابھی آئی ایم ایف کا عذاب سر پر کھڑا ہے، وہ ٹیکسوں اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے، ایسے حالات میں مختلف شعبوں میں چھپے ہوئے طاقتور مافیاز بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔حکومت اگر ریلیف فراہم کرنا بھی چاہے تو روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال کھاد کی قیمت میں تین سو روپے فی بوری کمی کا معاملہ ہے، جو کسانوں کو نہیں مل ر ہا اور وزیراعظم عمران خان کو اس بارے میں سخت ہدایات دینا پڑی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ کابینہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنے وزیراعظم کا ساتھ دینے کی بجائے مافیا کا ساتھ کیوں دیتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔