لاہور ریڈیوسٹیشن کی زبوں حالی

لاہور ریڈیوسٹیشن کی زبوں حالی
لاہور ریڈیوسٹیشن کی زبوں حالی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہر سال ریڈیو کے عالمی دن کا ایک موضوع بھی وضع کیا جاتا ہے۔ اس سال کا موضوع ”نئی دنیا کا نیا ریڈیو“' ہے۔ اس کے ساتھ ریڈیو کی اہمیت بطور ارتقاء اختراع اور رابطہ بھی اس سال کے خاص موضوع ہیں۔ ریڈیو ہر جگہ ہر شخص کی دسترس میں ہے۔ ریڈیو اجتماعی طور پر تفریح اور اطلاعات کے ساتھ ساتھ خطرات کی پیشگی آگاہی، قدرتی آفات سے متعلق انتباہ، بیماریوں اور وائرس سے بچاؤ کی تدابیر، معاشی و معاشرتی بحران سے نبردآزما ہونا اور امن و ترقی جیسے موضوعات پر سوسائٹی کی ترویج بھی کرتا ہے۔ انفرادی سطح پر یہ تعلیم اور تفریح کا ایک زبردست ذریعہ ہے۔ ریڈیو سیٹ کے ہوتے ہوئے آپ تنہائی نہیں محسوس کرتے۔ جدید ذرائع کے ہوتے ہوئے دنیا میں آج بھی اوسطاً ہر تین افراد میں سے ایک کے پاس ریڈیو سیٹ موجود ہوتا ہے۔ دنیا میں اس وقت 40 ہزار سے زیادہ ریڈیو اسٹیشنز کام کر رہے ہیں۔ 


ففتھ جنریشن وار فیئر شعور، طرز فکر، معلومات، ثقافت اور اخلاقی اقدار کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ذرائع ابلاغ کے ذریعے غلط معلومات پھیلانے، گمراہ کرنے،طاقت کا ناجائز استعمال اوردنیا کو اپنے اشاروں پر چلانے کی جنگ ہے۔ اسی نظریے پر عمل کرتے ہوئے بھارت اس ففتھ جنریشن وار فیئر کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ پاکستان میں بے اطمینانی پھیلا کر دنیا کے سامنے پاکستان کا غلط تصور پیش کر رہا ہے کہ پاکستان عالمی سرمایا کاری کیلئے ایک غیر محفوظ ملک ہے اور ایک ناکام ریاست ہے۔ بالخصوص وہ یہ اقدامات سی پیک کے حسد میں ڈوب کر کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت،افواج پاکستان اور موجودہ حکومت کے خلاف زہریلا پروپیگنڈاکر کے ملک کو کمزور کر نا چاہتا ہے۔ 


خواتین و حضرات! جہاں تک ریڈیو پاکستان لاہور سٹیشن (جو کہ ایک اہم ترین ریڈیو اسٹیشن ہے) اب بستر مرگ پر ہے اور آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اس کا میڈیم ویو 630 کلو ہارٹس تقریباً ناکارہ ہو چکا ہے۔ جو صرف ریڈیو سٹیشن کی حدود تک ہی سنا جا سکتا ہے۔ لاہور ریڈیو اب لاہور میں صاف نہیں سنا جا سکتا اور بعض علاقوں میں تو بالکل ہی نہیں سنا جا سکتا۔ اسی طرح لاہور ریڈیو کی نشریات FM چینل پر بھی بڑی مشکل سے سنی جاتی ہیں، کیونکہ اس کے دائیں بائیں کے چینلز اتنے پاور فل ہیں کہ یہ ان میں دب کر رہ گیا ہے۔ ریڈیو لاہور، جو پاکستان کی پہچان، علم و ادب کا گہوارہ، ثقافت و معاشرت کی ترویج کا مرکز، خاص طور پر ڈرامے کی فروغ میں کلیدی حیثیت رکھتا تھا، اب جاں بلب ہے۔ ڈرامہ ختم ہو چکا ہے، لکھاری اور صداکار رخصت ہو چکے ہیں اور پروگراموں کا بجٹ ختم کر دیا گیا ہے، جبکہ انتظامیہ اور بجٹ / اکاؤنٹس کے شعبے میں خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ موجودہ ارباب اختیار کے نزدیک ریڈیو کی جگہ سوشل میڈیا اب ہر شخص کے اختیار میں ہے۔ تا ہم یہ میڈیم غیر سنجیدہ اور غیر معتبر ہے،کسی بھروسے اور حوالہ کیلئے ناقابل یقین ہے۔
یہاں یہ امر بھی نہایت افسوس ناک ہے کہ ریڈیو پاکستان لاہور مرکز کے تینوں فون نمبر گذشتہ کئی ماہ سے بوجہ عدم ادائیگی بل بند ہیں۔ اب ذرا تصور کریں کہ ریڈیو اسٹیشن سے کوئی رابطہ نہیں کر سکتا۔ اس سے زیادہ بد قسمتی اور کیا ہو گی۔ 

اس کے برعکس بھارت نے اپنے ریڈیو نیٹ ورک کو بہت پاور فل اور وسیع کر لیا ہے اور 1970-71 ء میں یہ صوتی ہتھیار دوبارہ استعمال کرنے کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی طے کر لی ہے۔ بالخصوص پاکستان کے ساتھ اپنی سرحدوں پر نئے اور طاقتور ٹرانسمیٹر نصب کر رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ملحقہ تین ریاستوں راجستھان، گجرات اور مقبوضہ کشمیر میں آل انڈیا ریڈیو کے 183 سٹیشن اور105 ٹرانسمیٹر کا م کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو دبانے اور آزاد جموں و کشمیر، گلگت  بلتستان اور دیگر پاکستانی علاقوں میں اپنا گمراہ کن پروپیگنڈاکرنے کیلئے سرکاری ریڈیو کے نیٹ ورک میں اضافہ کر لیا ہے اور اسے مضبو ط تر کر دیا گیا ہے۔ 
خواتین و حضرات! آج ریڈیو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ہر جگہ سنا جاتا ہے۔ یونیسکو کی 2015 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں 43 فیصد اور ترقی یافتہ ممالک میں 56 فیصد لوگ روزانہ ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر اپنا عوام سے خطاب ریڈیو پر کرتے ہیں جو ہرماہ ہوتا ہے۔  ریڈیو ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ریڈیو کا کام کمرشل یا بزنس حاصل کرنا نہیں۔ 
ریڈیو ایک طاقت ور آواز ہے جو لوگوں کو اپنے تحفظ کیلئے ہوشیار کرتی ہے اور قوموں کو اپنے دفاع کیلئے تیار کرتی ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے ”ہر دماغ کے اندر ایک ریڈیو نصب ہوتا ہے۔ اسے چلائے رکھنے کی ضرورت ہے“۔ 

مزید :

رائے -کالم -