پنجاب پولیس سازشوں کا شکار 

پنجاب پولیس سازشوں کا شکار 
 پنجاب پولیس سازشوں کا شکار 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم دیکھتے ہیں کہ یہ محکمہ صرف حاکمان وقت کی غیر مشروط تابعداری تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔انگریز نے مقامی پولیس کو ایک حد تک اپنے خلاف ہونے والی شورشوں کو دبانے اور عوام کو تاج برطانیہ کا وفادار رکھنے کے لیے استعمال کیا مگر اس کے ساتھ ایک ایسا نظام بھی مرتب کیا جس کے تحت پولیس کا محکمہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے تندہی سے کام کرتا تھا اور ہر علاقے کے پولیس اسٹیشن میں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ تمام مکینوں کے بارے میں بھی بنیادی معلومات محفوظ ہوتی تھیں۔ گورے کا دیا ہوا پولیس سسٹم ابھی تک ہماری جان نہیں چھوڑ رہا۔ اصطلاحات کے نام پہ بہت پاپڑ بیلے گئے لیکن حقیقی معنوں میں اصطلاحات نہیں آ سکیں۔ اور لوگ خوف کی ایسی تنگ گلی میں چلے گئے کہ پولیس پہ سے اْن کا اعتماد اْٹھ گیا۔ پولیس کے نظام میں بنیادی خامی،اوئے سے آپ تک ہے۔ پولیس کا جوان یہ سوچنے کے بجائے وہ عوام کا نوکر ہے، یہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ اس میں ایسے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ عام عوام سے اعلیٰ و ارفع ہو گیا ہے۔

یہ سوچ جب تک ان کے ذہنوں سے کھرچ کے نہیں نکالی جائے گی پولیس میں بہتری نہیں لائی جاسکتی  وزیر اعظم پاکستان نے جہاں بہت سارے وعدے کیے وہاں محکمہ پولیس کو بھی یکسر تبدیل کرنے کا عندیہ دیامگر اڑھائی سال گزرنے کے باوجود اس ادارے میں بہتری نہیں لائی جاسکی،افسران بالا کے بار بار تبادلوں سے یہ محکمہ طاقتور نہیں کمزور ضرور ہوا ہے درحقیقت پنجاب میں پولیس تبادلے تو مذاق ہی بنے ہوئے ہیں جو بھی آیا ایک انیٹ کی مسجد بنائی،مرضی کے افسروں کو ساتھ لگوایا خوب کھایا پیا اور چلے گئے،جس سے حکومت کی بیڈ گورننس میں اضاضہ ہوتا رہا،ماسوائے نگران سیٹ اپ کے کسی کوبھی اعتماد کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا اگر نگران دور کے افسران بالا کی کارکردگی کا ان کے بعد آنے والے افسروں کی کارکردگی سے موازانہ کیا جائے تو رزلٹ حوصلہ افزا نہیں،اگر صرف لاہور کو ہی دیکھ لیا جائے تو تعینات ہونے والا ہر آفیسر حکمرانوں کی خوش نویدی حاصل کرنے  اور مبینہ طورپر مال کمانے کے چکر میں مصرو ف رہا۔

بی اے ناصر کے بعدلاہور کی ذمہ داریاں ذوالفقارحمید کو سونپی گئیں،انھوں نے حکمرانوں کو خوش رکھنے کے علاوہ سابق حکمرانوں کو بھی خوب نوازا وہ پنے کمانڈرکویہ باور کروا تے رہے کہ ان سے بڑھ کر کوئی بھی ان کا خیر خواہ نہیں لاہور میں وہ بطور ایس پی،ایس ایس پی انوسٹی گیشن اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن آفیسر کی حثیت سے کامیاب وقت گزار چکے ہیں اور حکمرانوں کی پالیسیوں سے بخوبی واقف ہیں ان کے ہوتے ہوئے پنجاب پولیس بالخصوص آئی جی کو کوئی خطرہ نہیں۔

شعیب دستگیر کا نام بھی وزیر اعظم بڑے احترام سے لیتے تھے  ان سے بہتر کوارڈی نیشن کا انھوں نے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے ماسوائے ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمد خان کے شہر بھر میں اپنی ٹیم تعینات کروائی پوسٹنگ لگژری گاڑی کو خوب انجوائے کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ان کے لائے ہوئے دوستوں نے ہی ان کے لیے مسائل پیدا کیے فارغ ہوئے اور حکمرانوں نے آئی جی پولیس کو بھی چلتا کیا، ان کی وجہ سے بہت سارے دیگر افسران کو بھی پنجاب چھوڑنا پڑا، پھر آگئے عمر شیخ  انھوں نے بھی مرحوم سلطان راہی کی طرح خوب بڑھکیں ماریں اور خود کو حکمرانوں کا بڑا چہیتا قرار دیا اپنی ٹیم بنائی ایسے آفیسرز بھی ساتھ لگا ئے جن کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی کمانڈر انعام غنی نے انھیں سمجھانے اور ساتھ لے کر چلنے کی بھر پور کوشش کی مگر وہ کمانڈر کی ہدایات پر عمل پیرا نہ ہوئے اور ان کے اپنے ہی دوستوں نے خوب کام کیا اور انھیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا ان کے دور میں تو پوری لاہور پولیس وینٹی لیٹر پر لگی رہی  اب آگئے ہیں سی سی پی او لا ہور غلام محمود ڈوگر کام اور گفتگو کی انھیں ملکہ حاصل ہے فرض شناسی کے ساتھ انسان دوست بھی ہیں دن رات حکمرانوں اور اپنے کمانڈر کے احکامات کی بجا آوری کے لیے کوششوں میں مصروف وکھائی دیتے ہیں اپنی صاف ستھری ٹیم بھی تشکیل دینا چاہتے ہیں وزیر اعلی پنجاب اور آئی جی پولیس کی مکمل حمایت بھی انھیں حاصل ہے مگر ان کی صفوں میں بھی دڑایں ڈل چکی ہیں جنہیں یہ اپنا بڑا خیر خواہ سمجھ رہے ہیں وہ کسی اور آفیسر کو پر موڈ کر رہے ہیں اس کے لیے خفیہ ملاقاتیں بھی جاری ہیں انھیں وزیر اعلی اور کمانڈر کی حمایت کے علاوہ  اسلام آباد کی حمایت بھی حاصل ہے غلام محمود ڈوگر کو ان پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ باقی افسران کی طرح لاہور میں کسی بھی آفیسرز کی تعیناتی کو متنازعہ بنانے میں دیر نہیں لگتی۔     

مزید :

رائے -کالم -