بابر اعظم کی مایوس کن کپتانی ، فائنل میچ کے لیے تبدیلیاں ناگزیر

بابر اعظم کی مایوس کن کپتانی ، فائنل میچ کے لیے تبدیلیاں ناگزیر
بابر اعظم کی مایوس کن کپتانی ، فائنل میچ کے لیے تبدیلیاں ناگزیر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگر آپ کا مین سٹرائیک باؤلر ٹی ٹوینٹی میچ میں اپنے پہلے ہی اوور میں وکٹ لے کر دے اور دوسرا وکٹ میڈن اوور کروائے وہ بھی محض چھے رنز کے عوض تو کم ٹوٹل کا دفاع کرتے ہوئے آپ اپنا باؤلر بدلیں گے یا مخالف ٹیم پر پریشر بڑھائیں گے؟ یقیناً آپ وہ باؤلر برقرار رکھیں گے، مزید وکٹیں گرانے کی کوشش کریں گے اور مخالف ٹیم پر پریشر مزید بڑھائیں گے۔

بابر اعظم کی اپنی بیٹنگ فارم تو قابل تشویش ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی بطور کپتان بری کارکردگی ان کی کمزوریاں عیاں کررہی ہے۔ پہلے ٹی ٹوئنٹی میں بھی ان کی فیلڈ پلیسنگ اور فیلڈ سیٹنگ پر بہت سوالات اٹھے تھے جو محمد رضوان کی عمدہ اور یادگار بلے بازی کی بدولت سمیٹے جانے والی جیت کی وجہ سے دب گئے تھےحالانکہ محض تین رنز سے فتح بیشک فتح ہوتی ہے لیکن وہ آپ کو متوجہ کرتی ہے کہ آپ اپنی چھوٹے مارجن کی فتح سے سیکھیں اور جن جن شعبوں میں آپ پرفارمنس نہیں دکھا سکے ان میں اپنے آپ کو بہتر کرتے ہوئے اگلے مقابلے کی تیاری کریں۔ 
پہلے ٹی ٹوئینٹی میں بھی رضوان نے ہی تمام بلے بازوں کا بوجھ اٹھایا اور دوسرے ٹی ٹوینٹی میں بھی وہی حالات رہے۔ مطلب ہم نے کچھ نا سیکھنے کی قسم کھائے رکھی۔ وہ تو بھلا ہو فہیم اشرف کا جس نے دوسرے ٹی ٹوینٹی کے آخری پانچ اوورز میں دیگر بلے بازوں کے ہمراہ اڑتالیس رنز جوڑے تو ایک قابل عزت ٹوٹل ایک سو چوالیس رنز سکور بورڈ پرسجانے میں کامیاب ہوئے اور میچ کھیلنے کی کوئی امید نظر آئی۔ایک سو چوالیس ایسی پچ پر کوئی برا ٹوٹل نہیں مگر حارث رؤف کی آغاز میں ہی بری باؤلنگ اور پھر بابر اعظم کی مایوس کن کپتانی نے جنوبی افریقہ کے لیے یہ ٹوٹل نہایت آسان بنا ڈالا، اگر اسی اپروچ کے ساتھ کل بھی میدان میں اترے تو یقیناً فتح تو پاکستانی ٹیم کا ہرگز مقدر نہیں بن سکے گی۔ 
مین آف دی میچ پری ٹورس کی ریکارڈ بہترین باؤلنگ کے علاوہ دونوں ٹیموں کے درمیان بنیادی فرق سپنرز کے آٹھ اوورز کا رہا۔  جنوبی افریقہ کے سٹرائیک سپنرز سمٹ اور تبریز شمسی نے صرف چھتیس رنز اپنے آٹھ اوورز میں دیے  جبکہ پاکستان کے سٹرائیک  سپنرز کو اپنے آٹھ اوورز میں ان سے تقریباً دو گنا زیادہ ستر رنز کی پٹائی برداشت کرنا  پڑی۔خاص کر عثمان قادر کو رنز روکنے کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ عثمان قادر ایک باصلاحیت باؤلر ہیں۔ ٹی ٹوینٹی ایک مشکل فارمیٹ ہے جس میں سٹرائیک باؤلر کو رنز روکنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ڈاٹ بالز کرنا ہوتی ہیں یا پھر وکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ وکٹس اور ڈاٹ بالز  دونوں ہی صورتوں میں مخالف ٹیم پر پریشر بڑھتا ہے۔ ایسے میں اگر آپ ڈاٹ بالز اور وکٹس لینے کے بجائے آسان رنز دینا شروع کردیں تو پھر اچھی ٹیموں کے خلاف میچ جیتنا محض معجزہ ہی ہوسکتا ہے۔ 
 کپتان فیلڈ پلیسمنٹ کو بہترین طریقے سے استعمال کرے اور باؤلرز کے حساب سے فیلڈ سیٹ  کرے۔ جیسے آج جنوبی افریقہ نے فیلڈنگ کا عمدہ مظاہرہ کیا اور اپنے باؤلرز کا بھرپور ساتھ دیا ،ہمیں بھی ویسا معیار باؤلنگ اور فیلڈنگ میں دکھانا ہوگا۔سب سے بڑھ کر پاکستانی بلے بازوں کو بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور جنوبی افریقی فیلڈ پلیسمنٹ میں گیپس تلاش کرتے ہوئے زیادہ رنز سکور کرنا ہوں گے۔ 
بابر اعظم کے ساتھ ساتھ ٹاپ بلے بازوں میں شامل حسین طلعت اور افتخار احمد کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔حارث رؤف اور افتخار احمد اول تو سیریز کے آخری ٹی ٹوئینٹی فائنل میں ٹیم کا حصہ بنتے نظر نہیں آتے کیونکہ حالیہ سیریز میں اب تک دونوں کھلاڑی مکمل ناکام نظر آئے ہیں۔ 
خوشدل شاہ بلے بازوں میں ایک ایسے بلے باز ہیں جو پاور ہٹنگ کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔بیٹنگ آرڈر میں تھوڑی تبدیلی کرتے ہوئے خوشدل شاہ کو ٹاپ آرڈر میں لانا ہوگا۔شروع میں ہٹنگ کے لیے محمد رضوان کا ساتھ دینے کے لیے خوشدل شاہ کو حسین طلعت سے پہلے بھیجنا ہوگا۔حیدر علی سے بھی سیریز کے فائنل میچ میں بہت توقعات وابستہ ہیں۔
  یہ بھی درست ہے کہ ایسا موسم اور پچ کی صورتحال ہو تو ٹاس نہایت اہمیت اختیار کر جاتا ہے اور پہلے دونوں ٹی ٹوینٹی میچز میں ٹاس جنوبی افریقہ جیتتا رہا ہے۔اس حوالے سے کپتان بابر اعظم بدقسمت رہے ہیں۔کل کے میچ میں بھی ٹاس نہایت اہمیت رکھتا ہے۔امید ہے کل بابر اعظم ٹاس جیت کر ایسے موسم اور کنڈیشنز میں پہلے باؤلنگ کرتے ہوئے جیت کی بنیاد رکھیں گے۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

کھیل -بلاگ -