پہلی جنگ
پہلی جنگ ہی آخری جنگ میں کامیابی کی نشاندہی کرتی ہے۔ پہلی جنگ پوری طاقت سے لڑی جاتی ہے، طاقت کے ساتھ، مگر حکمت و تدبر،مبادا شکست ہو جائے تو پھر حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ہجرت کے پہلے 2سال کائنات کے سب سے عظیم سپہ سالار نے اپنے لشکر کو مجتمع کیا اور جب ایمان کی طاقت سے لبریز صحابہ جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو پھر کامل حکمت و تدبر سے کفر و اسلام کی پہلی جنگ ”بدر“ کا کارنامہ رقم ہوا۔جب اللہ نے اس عظیم فتح پر فرمایا: تاکہ حق کی تقویت کرے اور باطل کی بنیاد اکھاڑے(سورة الانفال) اور پھر اس حق و باطل کے معرکے کو فتح مکہ کے موقع پر اپنے پیارے پیغمبر کے ان الفاظ میں مکمل فرمایا: ....(حق آ گیا اور باطل چلا گیا، باطل جانے والی چیز ہے“۔
فجر کی اذان نے ایک بار پھر عجیب کیفیت طاری کردی....الصلوٰة خیرمن النوم.... یہ گنہگار انسان اکثر فجر کی نماز کے لئے الارم لگا کر سوتا ہے، لیکن کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اذان سے پہلے خود بخود ہی آنکھ کھل جاتی ہے تو الصلوٰة خیر من النوم کے الفاظ عجیب کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔دانشور سے پوچھا کہ ان الفاظ میں ایسا سحر کیوں ہے تو اس نے کہا،یہ اللہ کا نقارہ بج رہا ہوتا ہے،کیونکہ شیطان کے خلاف دن کی پہلی جنگ کا آغاز ہے۔ فجر کی نماز کے لئے ہر حال میں اٹھو، یہ شیطان کے خلاف تمہاری دن کی پہلی جیت ہے،اگر پہلی جنگ ہی ہار گئے تو پھر حوصلے پست ہو جائیں گے، باقی چار پہر کی لڑائی میں بھی شیطان حاوی رہے گا،اس لئے اللہ اپنے بندے کو پہلی جنگ میں فتح کے لئے اٹھنے کا حکم دے رہا ہوتا ہے۔
میاں نوازشریف کی مسلم لیگ نے اقتدار سنبھالا تو اس کے سامنے بے شمار چیلنج تھے۔ قوم نے میاں صاحب کی بصیرت اور ایک تجربہ کار سیاستدان سمجھ کر انہیں مینڈیٹ دیا تھا۔میاں صاحب اور ان کی ٹیم نے فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پہلی جنگ کا آغاز کس کے خلاف کرتے ہیں۔ دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، خستہ حال اکانومی، مہنگائی، غربت، ناخواندگی اورلاقانونیت میں سے کسی ایک کے خلاف جنگ کی حکمت عملی ترتیب دینی تھی اور ترجیحات کا تعین کرنا تھا کہ ان سے کیسے نمٹنا ہے؟....قوم کو وہ اپنی ترجیحات سے آگاہ کرکے اس کا مکمل اعتماد حاصل کر سکتے تھے، مگر میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اپنے اردگرد پھیلے ان دشمنوں میں سے کسی کے ساتھ نبردآزما ہونے کی مربوط منصوبہ بندی کرنے کی بجائے ایک نیم مردہ اژدہے کے تنِ مردہ میں جان ڈال کر اس سے جذباتی و انوکھی جنگ لڑنے کے لئے آرٹیکل 6کا نقارہ بجا ڈالا اور بقاءکی تمام جنگوں کو چھوڑ کر ایک ہاری ہوئی جنگ لڑنے کے لئے خم ٹھوک کر میدان میں کود پڑے۔
اس جنگ کا اعلان اپنے سب سے جوشیلے کمانڈر چودھری نثار کی گرج دار آواز میں کرا ڈالا۔چودھری نثار نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ سابقہ وزیرداخلہ رحمن ملک سے کسی بھی طور کم نہیں، پتہ نہیں کیوں ہماری سیاسی کلاس وقت کے ساتھ ساتھ فہم و فراست سے عاری ہوتی جا رہی ہے۔ جب جنوں کو دانش سے الگ کرکے فیصلے کئے جائیں تو پھر اکثر حماقتوں کے نئے نئے منظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔حکمت و تدبر کے بغیر جنوں محض پاگل پن ہوتا ہے اور مسلم لیگ(ن) کا جنوں بھی سرچڑھ کر بول رہا تھا، جبکہ حکمت و تدبر؟.... چلئے چھوڑیئے جو حکومت دوتہائی مینڈیٹ کے باوجود پہلے چھ ماہ میں ہی غیر مقبول ہو جائے، اس کی فہم و فراست کا تجزیہ کرکے وقت برباد کرنے کا فائدہ !....دکھ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ میں راجہ ظفر الحق، سید ظفر علی شاہ اور اقبال ظفر جھگڑا جیسے صلح جو اور اعتدال پسند بھی موجود ہیں، جن سے اگرمشورہ کرلیا کریں تو حماقتوں کا ڈھول پیٹنے سے بچ جایا کریں، مگر شائد انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔عالم خورشید کا خوبصورت شعر یادآ رہا ہے۔
سنبھل ! کہ آ گئے اہل خرد بھی صحرا میں
جنوں کے جوش میں تو نے دھمال کر تو دیا
میاں صاحب کو اس بار اسٹیبلشمنٹ سے کوئی خطرہ نہ تھا۔پرویز مشرف اپنی اوقات دیکھ چکے تھے کہ ان کی وطن واپسی پر صرف چند لوگ ہی ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے ایئرپورٹ پر آئے ہر معاشرے میں چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ منفی راستہ اپناتے ہیں، جن لوگوں کا ایک آمر ہیرو ہو کیا ان کو طعن کرنے کی بجائے ان پر ترس نہیں کھانا چاہیے۔قابل رحم ہیں وہ لوگ جو آمر کو اپنا رہبر مانتے ہیں۔کیا بھیڑیا ہرنوں کا رہبر ہو سکتا ہے۔چڑیاں اور بلبل گدھ کو اپنامحافظ تسلیم کر سکتی ہیں۔غاصب مظلوموں کے حقوق کی نگہبانی کا اہل مانا جا سکتا ہے اور انسانی سوچوں پر ایک آمر کی سطحی سوچ مسلط کی جا سکتی ہے؟....فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا انسان اگر آمریت کے حق میں بات کرے گا تو جمہوریت پسند لوگ اس کی بیمار عقل پر دل گرفتہ تو ہوں گے۔محبت تو دور کی بات ،میرا نظریہ تو یہ ہے کہ آمر سے نفرت کا رشتہ رکھنا بھی انسان کو اللہ پاک کی عطا کردہ عقل اور آزاد فطرت کی توہین ہے۔ایسے لوگوں کو انسانی معاشرے میں راندئہ درگاہ بنا دینا چاہیے۔دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اخلاقی لحاظ سے ہم اس قدر دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں کہ کھلے بندوں ایک آمر کے لئے محبت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں:
وہ شخص نفرتوں کے بھی قابل نہ تھا منیر
تم تو اس کے چاہ میں حد سے گزر گئے
مشرف قید تنہائی کی عذاب نما سزا بھگت رہے تھے ، مگر مسلم لیگ کی حکومت نے تمام اہم جنگوں کو پس پشت ڈال کر اس مردہ کیس کو اٹھا کر اس میں جان ڈال دی۔میڈیا پر حکومتی درباریوں نے اس کیس پر مسلم لیگ (ن) کی بہادری کے ایسے قصیدے شروع کردیئے کہ یوں لگتا تھا میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں نے پانی پت کی تیسری لڑائی جیت لی ہے....قصیدہ گو اور درباریوں کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔یہ حکمرانوں کے تلوے چاٹ کر اپنے پیٹ کی بھوک اور ذہنی آسودگی حاصل کرتے ہیں۔پناہ مانگنی چاہیے ایسی زندگی سے ۔مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے جذبات کے حصار میں قید لیگی حکومت میں سے کسی نے اس جنگ میں کودنے سے پہلے یہ سوچنے کی تھوڑی سی بھی زحمت گوارا نہ کی کہ جب پرویز مشرف جان شکنجے کے اندر دیکھ کر اپنے غیر ملکی سربراہ دوستوں کو مدد کے لئے دہائی دیں گے تو ان دوست ممالک کے لئے کیسے انکار ممکن ہوگا کہ جن کی کمال مہربانی سے آج مسلم لیگ(ن) کی قیادت ہمارے درمیان موجود ہے۔ پرویزمشرف اپنے بچاﺅ کی دہائی دے رہے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں، ویسے بھی آمر سب سے زیادہ خوفزدہ پتہ کس سے ہوتے ہیں، ٹرائل سے کہ ان کا جرم ریاست کے خلاف ہوتا ہے۔انہوں نے ریاست کے ہر فرد کا قیادت کے انتخاب کا حق مارا ہوتاہے۔
میاں نوازشریف صاحب کو اپنی ترجیحات کا ازسرنوجائزہ لینا چاہیے، دہشت گردی، بلاشبہ اس وقت ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔اس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔قبائل کی ایک نسل تعلیم سے محروم ہو رہی ہے۔کیا ملالہ کو ملنے والے ایوارڈز کا دن رات ڈھونڈورا پیٹتے رہیں گے یا ملالہ کے نگر میں علم کی بجھتی شمع کے لئے بھی سنجیدگی سے کوشش کریں گے۔کھیل کے میدان اجڑ چکے ہیں کہ کوئی ملک اپنے کھلاڑیوں کو بھیجنے کا رسک لینے کے لئے تیار نہیں۔ سیکیورٹی اداروں کا مورال روز بروز گر رہا ہے۔کب تک آخر آگ میں جلتا گھر دیکھنے کا تماشا چلتا رہے گا۔میاں صاحب کو دہشت گردی کے خلاف پہلی جنگ لڑنے کی بھرپور تیاری سے اٹھنا چاہیے۔پرویز مشرف نہیں، ان کی پہلی جنگ دہشت گردی پر قابوپانا ہے۔امن کے بغیر حکومتی رٹ قائم نہیں ہو سکتی، حکومتی رٹ نہ ہو تو سرمایہ کاری ممکن نہیں ہوتی، بیرونی سرمایہ کاروں کی آمد تو دور کی بات، اپنے لوگ بھی عدم تحفظ کا شکارہو کر بھاگ رہے ہیں۔افسوس کہ حکومت نے پہلی جنگ کا انتخاب ہی غلط کیا اور اپنی ساری توانائیاں چک شہزاد کے محل نما گورستان میں تنہائی کی قید کاٹتے سیاسی طور پر مردہ شخص پر لگا دیں۔
حکومت کو اب بھی سنجیدگی سے کام لینا چاہیے اور عوام کی فلاح ، ترقی، خوشحالی اور امن کے لئے کام کا آغاز کرنا چاہیے۔ابھی اس حکومت کو ایک لمبا عرصہ چلنا ہے۔اس حکومت کو اس وقت کسی سے کوئی خطرہ نہیں ،اگر خطرہ ہے تو اس کی اپنی روش اور عادتوں سے ہے۔ بار بار آمریت اس لئے نہیں آجاتی کہ آج تک کوئی آمر لٹکایا نہیں جا سکا، بلکہ یہ آمریت کا منحوس سایہ اس لئے بار بار پھیل جاتا ہے کہ جمہوریت کا سورج صرف حکمرانوں کے آنگن میں ہی روشنی کرتا ہے۔عام آدمی تک اس کی روشنی نہیں پہنچ پاتی، اسے صرف لو سے جھلسنے کے لئے چھوڑ دیا جاتاہے۔ حکمران جب اپنے خاندانوں سے نکل کر جمہوریت کا ثمر عام آدمی تک پہنچائیں گے، تب پھر کسی آمر کو جرات نہیں ہوگی.... جون ایلیا کے خوبصورت اشعار ہمارے عہد کی کس قدر حقیقی تصویر پیش کررہے ہیں:
گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھ معجزوں کے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
پہلی جنگ ہی آخری جنگ میں کامیابی کی نشاندہی کرتی ہے۔ پہلی جنگ پوری طاقت سے لڑی جاتی ہے،طاقت کے ساتھ ، مگر حکمت و تدبر؟.... مبادا شکست ہو جائے تو پھر حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ ٭