والدین کا مقام،قرآن و سنت کی روشنی میں (1)

والدین کا مقام،قرآن و سنت کی روشنی میں (1)
 والدین کا مقام،قرآن و سنت کی روشنی میں (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام دین فطرت اور مکمل ضابطۂ حیات ہے اور امن ،سلامتی،تہذیب و آداب کی بجا آوری کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام باہمی احترام اور اعلیٰ اخلاقیات کا مذہب ہے،اللہ کا احترام ،انبیاء و رسل کا احترام ،مساجد کا احترام،آسمانی کتابوں کا احترام ،قرآن پاک کااحترام ، بزرگوں اوراپنے بڑوں کا احترام ،اساتذہ و علماء کا احترام اور والدین کااحترام۔انسانی زندگی میں والدین کا مقام بہت بلند ہے ۔والدین کا مقام جاننے اور احترام کا حق ادا کرنے سے خاندان کا نظام مستحکم ہوتا ہے اورخیر و برکات انسان کا مقدر بنتی ہیں ۔ انسان ان آداب کا جتنا خیال رکھے معاشرہ اتنا ہی مہذب کہلائے گااور آداب و احترام کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں تہذیب سے عاری اللہ کی رحمت سے دور ہو گا۔ نبی آخر الزمان رحمت اللعالمینﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لئے ہدایت لے کر دُنیا میں تشریف لائے، جواللہ کی توحیداور ایمان کی دعوت سے معمور ہے،جولوگ آپ ؐ کی اس دعوت کو قبول کر لیتے ،ان کو آپ ؐ زندگی گزارنے کے لئے نصیحت کرتے ۔آپ ؐ کی ان ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک وہ جن کا تعلق بندے پر اللہ تعالیٰ کے حقوق سے ہے ،دوسرا حصہ آپ ؐ کی تعلیم کا وہ ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔حقوق العباد میں سے سب سے اہم معاملہ والدین کا مقام پہچاننے اور حقوق کی ادائیگی کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی تعلیمات میں اسے جزو ایمان قرار دیا ہے ۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ؐ پر نازل کی گئی آخری کتاب ہے اور یہ کتاب ہدایت وانقلاب ہے، اس میں ماں باپ سے حسن سلوک اور خدمت کا حکم اللہ تعالیٰ کی توحید اور عبادت کے ساتھ ساتھ دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال میں اللہ کی عبادت کے بعد ماں باپ کی خدمت اور راحت رسانی مقام بلند کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے۔۔۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :


’’اور تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت کر و اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤاور ان کی خدمت کرو‘‘۔۔۔(سورہ بنی اسرائیل)۔۔۔رسول اللہﷺ نے ماں باپ کے حقوق اور ان سے متعلق اولاد کے فرائض کے بارے میں جو فرمایا: وہ دراصل قرآن کریم کی ان آیات کی تفسیر و تشریح ہے۔ حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اللہ کی رضامندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ‘‘۔۔۔(جامع ترمذی)


رسول اللہ ؐ سے جب بڑے گناہوں کے بارے میں دریافت کیا گیا توآپ ؐ نے فرمایا: خداکے ساتھ شریک ٹھہرانا ،ماں باپ کی نافرمانی و ایذارسانی کرنا،کسی بندہ کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔۔۔(بخاری شریف)۔۔۔ والدین کے جواحسانات اولاد پر ہیں،وہ تمام عمر کی خدمت سے بھی ادا نہیں ہو سکتے۔ والدین نے پرورش کی ، مشقتیں اٹھائیں، وہ سب معروف اور معلوم ہیں، اس کے باوجود اگر کوئی تنگ دل شخص والدین کے حقوق ادا نہیں کرتا اور انہیں دُکھ دیتا ہے تو وہ درحقیقت ایمان کی حقیقی دولت سے محروم ہے ۔قرآن کریم میں والدین کا مقام واضح کیا گیا اور ان کے احترام کے لئے ارشاد فرمایا گیا ہے: ’’اے پروردگار مجھے نماز قائم کرنے والابنا اور میری اولاد سے بھی ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں ۔پروردگار میری دعا قبول کر ۔پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کر دیجئے، جبکہ حساب قائم ہو گا۔۔۔ (سورۂ ابراہیم 40۔41)۔۔۔اسی طرح قرآن کریم میں یہ بھی واضح ارشاد ہے:’’ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے ،لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک ٹھہرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے )نہیں جانتا، ان کی اطاعت نہ کر‘‘۔۔۔(سورۃ العنکبوت آیت8)


ایمان اورکفر کے درمیان امتیاز کرنے والی سب سے نمایا ں اور ممتاز چیز نماز ہے اور یہ حضرت ابراہیم ؑ کی عاجزانہ دُعا کانتیجہ ہے، جس میں انہوں نے اپنے اور اپنی اولاد کے لئے نماز کی پابندی کی دعا کی۔نماز کی ادائیگی اللہ سے ڈرنے ،عاجزی اختیار کرنے والوں کے لئے آسانی اور کبرو غرور میں مبتلا افراد کے لئے زندگی نہایت مشکل اوردشوار ہے ۔اپنے والدین نیز تمام مومنین و مسلمین کے حق میں مغفرت وبخشش کی دعا، حضرت نوح علیہ اسلام سے لے کر رسول اکرمﷺ تک انبیاء اور اہل ایمان کرتے چلے آئے ہیں ۔اللہ پر ایمان اور عمل صالح کی تلقین اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، باپ محنت و مشقت اٹھاتا ہے اور کمائی کرتاہے، والدہ مشقت پر مشقت اٹھا کراپنا آرام اور سکون قربان کر کے اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے ،یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ والدین کے کہنے پر اللہ کے ساتھ شریک کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ صرف شرک ہی نہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی کوئی بھی نافرمانی ماں باپ یا کسی مخلوق کے کہنے پر جائز نہیں۔ حضرت علیؓ اور حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کسی کی کوئی اطاعت نہیں ‘‘۔سننا اور ماننا ہرمسلمان پر فرض ہے۔ ان احکامات میں سے خواہ اسے پسند ہوں،خواہ ناپسند ، جب تک اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، اطاعت واجب ہے ۔جب اللہ کے احکامات کی نافرمانی کا حکم دیاجائے تواسے نہ سننا جائز ہے اور نہ ماننا ۔


ماں باپ کو تنگ کرنے اورستانے کی سزا دُنیا میں ہی مل جاتی ہے ۔حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔۔۔ماں باپ کو ستانے کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں معاف کر دیتے ہیں اور ماں باپ کو ستانے کا گناہ ایساہے کہ اس کے کرنے والے کو اللہ تعالیٰ موت سے پہلے دنیا میں ہی سزا دیتے ہیں ۔ایک اورحدیث مبارکہ میںیہ بھی ارشاد ہے کہ ظلم اور قطع رحمی کے علاوہ کوئی گناہ ایسا نہیں، جس کا ارتکاب کرنے والا دُنیا میں سزا پانے کا زیادہ مستحق ہو۔ ان دونوں گناہوں کے مرتکب کو دُنیا میں سزادی جاتی ہے، لیکن اس سے آخرت کی سزاختم نہیں ہوتی۔اس کے لئے آخرت کی سزا بھی بطور ذخیرہ رکھ لی جاتی ہے۔ جب آخرت میں پہنچے گا۔ وہاں بھی سزا ملے گی۔۔۔ (مشکوٰۃ) ۔۔۔ اس سے معلوم ہو ا کہ ماں باپ کے ستانے اور رشتہ داروں سے قطع رحمی کا برتاؤ کرنے کی سزادنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں ملتی ہے ۔مصیبتیں رفع کرنے ،بلائیں ٹالنے کے لئے بہت سے ٹوٹکے اور تدبیریں کی جاتی ہیں، لیکن ہم ساری زندگی ایسے اعمال چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جن کی وجہ سے مصیبتیں آتی ہیں اور پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔(جاری ہے)

















(قرآن کریم )میں ارشاد ہے کہ اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا: ’’اف تنگ کر دیا تم نے ،کیا تم مجھے یہ خوف دلاتے ہو کہ: مرنے کے بعد قبرسے نکالا جاؤں گا؟حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں (ان میں سے کوئی اُٹھ کر نہیں آیا) باپ اللہ کی دہائی دے کر کہتے ہیں: ’’ارے بدنصیب، مان جا، اللہ کا وعدہ سچا ہے‘‘۔۔۔مگر وہ کہتا ہے یہ سب اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں۔۔۔(سورۃ الاحقاف آیت17)۔۔۔ قرآن کریم کے اس حکم کے تحت اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ جائزہ لے کہ میری ذمہ داری کیا ہے ،اگر ماں باپ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے تووہ جانیں اور ان کا رب،لیکن اجتماعی زندگی کے لئے یہ بہت بڑی وصیت اور نصیحت ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری پوری کرے یہ نہ دیکھے کہ دوسرے نے میرے ساتھ کیا کیا ہے اور اگر ہر مذہب کا پیروکار اور ہر چھوٹا بڑا اس پر عمل کرے تواس کی زندگی سہولت اور آرام سے گزرتی ہے ۔ سعادت مند آدمی اللہ کے حقوق بھی ادا کر تا ہے اور والدین کے حقوق بھی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو نعمتیں دی ہیں، ان کا بھی شکرادا کرتا ہے اور ان کے ساتھ ان نعمتوں کا بھی شکربجا لاتا ہے جو اللہ کی طرف سے ان کے والدین کوعطا گئیں ، والدین کے واسطے سے بھی اولاد کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بہت سی نعمتیں والدین سے منتقل ہو کر اولاد کو ملتی ہیں۔ اہلِ ایمان کے لئے اللہ کا یہ حکم ہے کہ والدین کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ ہو جس سے ان کو نفرت ہواوروہ ناراض ہوتے ہوں ،ان کی طبیعت پر گراں گزرے، یعنی کوئی ایسی حرکت ،کوئی کام ،کوئی فعل جو والدین کو ناپسند ہو وہ نہ کرو۔


والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا بار بار تذکرہ آیا ہے۔ والدین کا بڑا مقام ہے اور یہ مقام اللہ نے خودطے کر دیا ہے۔ والدین حسن سلوک و آداب واحترام کے سب سے زیادہ حق دار ہیں ۔حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یار سول اللہ ﷺ میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ؟فرمایا کہ تیری ماں، پھر پوچھا اس کے بعد کون، فرمایاکہ تیری ماں، پھر پوچھا اس کے بعدکون ،آپؐ نے فرمایا تیری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا ماں کے بعد کون، آپ ؐ نے فرمایا کہ تیری ماں ۔پوچھا اس کے بعد کون، آپ ؐ نے فرمایا تیرا باپ۔۔۔ (بخاری)۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی نبی اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی، آپ ؐ نے ان سے دریافت فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں، انہوں نے کہاجی ہاں، آپ ؐ نے فرمایا کہ پھر انہی میں جہاد کر و(یعنی ان کی خدمت کروانہیں خوش رکھنے کی کوشش کرو)۔(بخاری)


والدین کے لئے بھی رسول اللہ ﷺنے ہدایات دیں اور اولاد کے لئے اس عظیم نعمت سے آگاہ فرمایا، حضرت سعید بن العاصؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ماں باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی تربیت سے بہتر نہیں دیا۔نیک اولاد دُنیا میں بڑی نعمت ہے ، آنکھوں کی ٹھنڈک اورآخرت کے لئے صدقہ جاریہ ہے، لیکن یہی اولاد اخلاقی اوردینی قدروں سے بیگانہ ہو تو خمیازہ والدین کو ہی بھگتنا ہوتا ہے، اس لئے ابتداء سے ہی والدین بہتر تدابیر اختیار کریں، ابتداء سے ہی اولاد کی دینی تربیت کی فکر کریں۔رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ بچے کو والدین کاپہلا بہترین تحفہ اس کا نام ہے، اس لئے اچھانام رکھئے جس کامعنی و مفہوم اچھا ہو ۔غیر اسلامی اور غیر شرعی نہ ہو۔بچہ بولنے لگے تو اس کی زبان کا افتتاح اللہ کے نام اور کلمہ طیبہ سے کراؤ۔ رسول اللہﷺ نے ماں باپ کو اولاد کی تربیت کے بارے میں کس قدر حساس رہنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا کہ کسی باپ نے اچھی تربیت سے زیادہ اچھا تحفہ اپنی اولادکو نہیں دیا ۔اولاد کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے ۔ اہلِ ایمان کے لئے اولاد کی تربیت دینی فریضہ ہے، والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بیٹے ،بیٹی کو مروجہ تعلیم دلائیں اور دینی تعلیم کا بھی بندوبست کریں ۔علم ہی وہ دولت ہے، جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ انسانیت کے زیورسے آراستہ ہوتا ہے ۔


اولاد کی خوش بختی ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرے، وہ دُنیا سے رخصت ہو جائیں تو ان کے لئے مغفرت کی دعا کرے ،اولاد کے نیک اعمال والدین کی بخشش اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بنتے ہیں۔والدین کی رضامندی میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہوتی ہے۔ والدین کے لئے نیکی کی یہ عظمت ہے کہ حضرت حارث بن نعمانؓ اپنے والدین کے لئے قرآن پڑھتے تھے۔ رسول اللہ ؐ نے بحالت خواب ان کے قرآن پڑھنے کی آواز جنت میں سُنی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ کاکتنا قرب ملتا ہے۔وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ۔۔۔۔’’نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جْھک کر رہو‘‘۔یعنی کمال تواضع، عاجزی ،انکساری اور شفقت کاان سے برتاؤکیا جائے۔ والدین کے لئے تواضع ازراہ شفقت فرض ہے نہ ازراہ عارو ننگ ۔بعض نادان سمجھتے ہیں کہ والدین کو روٹی کپڑا دو تاکہ لوگ طعنہ نہ دیں کہ فلاں اپنے والدین کا نافرمان ہے: ان کا خیال نہیں رکھتا، لیکن بعض اس عاروننگ سے بچنے کے لئے والدین کی واجبی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ والدین کی خدمت ،تواضع ازراہ شفقت محبت کرو اور والدین کے لئے دُعا کرو کہ اے میرے رب توان دونوں پر رحم کر، جیسے ان دونوں نے مجھے پرورش کیا، حالانکہ مَیں چھوٹا تھا ۔


اس تحریر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلام میں ماں باپ کا درجہ ،حیثیت اور مقام کیاہے اور اولاد کو والدین کے ساتھ قرآن وسنت کی روشنی میں کس طرح پیش آناچاہئے، نیز رشتوں ناطوں کو ملانے کی تاکید کی گئی ہے اور ان کو توڑنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ سب رشتے محض والدین کے سبب معرض وجود میں آتے ہیں جن کے ساتھ اچھا تعلق، سلوک اور میل ملاپ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔اس سے والدین کے ساتھ نیک سلوک بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے گنازیادہ حسن سلوک ، اطاعت اورفرمانبرداری کے مستحق ہیں ۔اہلِ ایمان کے لئے خاندان کا نظام ہی پوری امت کے لئے مضبوط استحکام کا باعث اور بے دینی ،بد تہذیبی کے مقابلہ میں مضبوط دفاعی نظام دیتا ہے ۔

مزید :

کالم -